عدلیہ کیلئے لفظ ’’شرمناک‘‘ کو گالی قرار دیا گیا ہے۔ اب ہمیں یہ لفظ لکھتے اور چھاپتے وقت بہت احتیاط کرنا پڑے گی۔عمران خان کیلئے تو یہ لفظ ہمیشہ کیلئے ممنوع ہو گیا ۔ہو سکتا ہے وہ کبھی میرے سامنے یہ لفظ استعمال کر بیٹھیں اور مجھے مجبوراً کہنا پڑے کہ ’’خان صاحب منہ سنبھال کر بات کیجئے، آپ کو یاد رہنا چاہئے کہ اس لفظ کا استعمال گالی ہے۔آپ نے اس لفظ کو گالی قرار دئیے جانے کے بعد میڈیا کے سامنے اسے پھر دہرایا۔ ایسا کرنا آپ کیلئے مناسب نہیں تھا،،۔خان صاحب کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ان سے یہ پوچھا جا چکا ہے کہ ’’آپ کو ذوالفقار علی بھٹو یاد ہیں؟‘‘ جب بھٹو صاحب پر مقدمہ چلا ،اس وقت خان صاحب سیاست میں نہیں تھے ۔ بہترہو گا کہ انہیں سارے کیس کا پس منظر بتا دیا جائے۔ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے۔انہیں بھی عمران خان کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے بھر پور عوامی حمایت حاصل ہو گئی تھی۔البتہ عمران خان ووٹوں کی بھاری تعداد کے باوجود اس تناسب سے نشستیں حاصل نہیں کر سکے جتنے کہ انہیں ووٹ دئیے گئے تھے لیکن یہاں پر عمران خان اور بھٹو صاحب کی مماثلت ختم ہو جاتی ہے۔ بھٹو صاحب کو جتنی تعداد میں ووٹ ملے انہیں اسی تناسب سے نشستیں مل گئیں تھیں اور انہی نشستوں کی بنیاد پر وہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ملک کے صدر بھی بن گئے تھے اور پھر وزیراعظم بن کر پانچ سال تک حکومت کرتے رہے۔ دوران اقتدار لاہور میں احمد رضا قصوری کے والد قتل کر دئیے گئے، قاتلوں کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔احمد رضا قصوری نے خاموشی سے مزنگ تھانے جا کر اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر درج کروا دی اورشک ذ والفقار علی بھٹو پر ظاہر کر دیا۔ اس دور میں کسی نے اس ایف آئی آر پر توجہ نہیں دی یہاں تک کہ پولیس کی تفتیش سے بھی قاتلوں کا پتہ نہ چلا۔1977ء میں ضیا الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔جنرل ضیا نے یہ قدم تو اٹھا لیا لیکن اقتدار میں آجانے کے بعد بھی، ان کا خوف دور نہ ہوا۔ وہ ہر لمحہ اسی خوف میں مبتلا رہتے کہ اگر بھٹو صاحب زندہ رہ گئے تو انہیں اقتدار میں آنے سے روکنا کسی کے اختیار میں نہیں ہو گا۔ان کی کیفیت اس شخص جیسی تھی جو جنگل میں شیر کے خوف سے درخت پر چڑھ گیا تھا لیکن اپنی گرفت مضبوط نہ رکھ سکا اور ڈرتے ڈرتے ہی شیر کے اوپر گر گیا۔اب اسے ایک ہی ڈر تھا کہ’’ شیر کے اوپر تو میںبیٹھ گیا ہوں اور اس کی گردن کے بال پکڑ کے مضبوطی سے اس کی پیٹھ کے ساتھ چمٹا ہوا ہوں لیکن جب بھی شیر جھٹکے لگا کے اتارنے میں کامیاب ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟‘‘ ولی خان مرحوم ان دنوں جنرل ضیا کے سیاسی ہمدرد بنے ہوئے تھے ۔ وہ ہر ملاقات میں یہ کہہ کے جنرل ضیا کے خوف میں اضافہ کر دیتے کہ’’جنرل صاحب! قبرایک ہے اور امیدوار دو ہیں۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ اس قبر میں بھٹو صاحب کو اتاریں گے یا خود اتریں گے؟‘‘ جس دن ولی خان جنرل ضیا کو یہ بات سنا کر جاتے ،جنرل ضیا کی وہ رات کروٹیں بدلتے گزرتی۔اس طرح کی باتیں سنتے سنتے جنرل صاحب نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ اس خوف سے ہمیشہ کیلئے نجات پا کر رہیںگے۔ چنانچہ انہوں نے بھٹو صاحب کو قبر میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا۔لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس صمدانی نے بھٹو صاحب کو ضمانت پر رہا کر رکھا تھا لیکن جنرل ضیا کے حکم پر اسی ہائی کورٹ نے بھٹو صاحب کی ضمانت منسوخ کی اور انہیں کراچی سے گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت تک یہ فیصلہ ہونا باقی تھا کہ بھٹو صاحب کو قبر میں کیسے پہنچایا جائے؟آخر کار انہیں تجویز ملی کہ احمد رضا قصوری کی ایف آئی آر نکلوا کر اس پر کارروائی کی جائے۔ اس فیصلے پر کارروائی شروع ہو گئی ۔ ایک اہم شخصیت سے رابطہ قائم کیا گیا کہ وہ اس کیس کو کامیابی سے چلانے کیلئے شہادتیں مہیا کریں۔ یہ شہادتیں مہیا کر دی گئیں اور ایف آئی اے کے جو ملازمین گواہ بنے تھے انہیں یقین دلا دیا گیا کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو انہیں سلطانی گواہ بنا کر معاف کر دیا جائے گا۔وہ نادان لوگ اس اہم شخصیت کے جھانسے میں آگئے ۔گواہیاں دے دیں کہ قتل کی سازش ان کے ذریعے پایہ تکمیل کو پہنچائی گئی۔جب ان گواہوں کو بھی سزائے موت سنا دی گئی تو اس کے بعد ان کا واویلا سننے والا تھا۔ وہ روتے بھی جاتے اور بار بار یہ کہتے بھی جاتے کہ انہوں نے خود جھوٹ بول کر اپنے آپ کو پھانسی لگوایا ہے۔ جب انہیں پھانسی دی گئی تو وہ یہی رونا روتے ہوئے تختہ دار پر چڑھے۔بھٹو صاحب معصوم اور بے باک انسان نہیں تھے ،ہماری ہی طرح کے گناہ گار تھے لیکن جس شخص کے قتل کا ان پر الزام لگایا گیا تھا اس کے ساتھ ان کی کوئی مخاصمت نہیںتھی۔ کہانی یہ بنائی گئی تھی کہ اصل میں قاتل احمد رضا قصوری کو مارنے گئے تھے لیکن غلطی سے ان کے والد کو ہلاک کر دیا گیا۔اس زمانے کی عدالت عالیہ اور عدالت عظمی نے بھٹو صاحب کو قتل کا مجرم قرا ر دے دیا۔ اگر یہ مقدمہ سیشن جج کی عدالت میں چلتا تو ہو سکتا ہے بھٹو صاحب رہا ہو جاتے کیونکہ خود مدعی کا یہ کہنا تھا کہ بھٹو صاحب نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا تھا کیونکہ وہ اسے اپنا دشمن سمجھتے تھے اورغلطی سے ان کے والد صاحب ہلاک ہو گئے۔بھٹو صاحب نے کہانی کے مطابق بھی جس شخص کے قتل کا حکم دیا تھا وہ قتل نہیں ہوالہٰذا ان پر قتل کا الزام کسی طرح بھی نہیںلگتا تھا۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اگر یہ مقدمہ سیشن جج کی عدالت میں ہوتا تو بھٹو صاحب مجرم ثابت نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ اس وقت کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تھیں جنہوں نے اس من گھڑت کہانی پر یقین کرتے ہوئے انہیں موت کی سزا سنا دی۔سپریم کورٹ میں بھٹو صاحب نے سزائے موت کے خلاف جو اپیل کی تھی اسے سننے والے اگر تمام جج موجود رہتے اور اپیل انہی کے دور میں نمٹا دی جاتی، تب بھی وثوق سے کہا جا رہا تھا کہ ججوں کی اکثریت بھٹو صاحب کو رہا کرنے کے حق میں ہے لیکن فوجی حکومت نے رہائی کے حق میں رائے رکھنے والے ججوں کو ایک ایک کر کے باہر کر دیا۔کوئی ریٹائرڈ ہو گیا اور کوئی بیمار۔جب ججوں کی مطلوبہ تعداد دستیاب ہو گئی تو اپیل کا فیصلہ سنا دیا گیا اور فوراً ہی ریویو پٹیشن نمٹا کر بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔احمد رضا قصوری نے بھٹو صاحب کے ساتھ دشمنی کی جو کہانی تیار کی وہ درست نہیں تھی۔احمد رضا قصوری اپنی جماعت سے غداری کر کے شیخ مجیب کے ساتھ ملنے کی تیار ی کر چکے تھے اور شیخ مجیب نے پیپلز پارٹی کے جن لوٹوں کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر تیار کیا تھا‘ احمد رضا قصوری ان میں نمایاں تھے جس پر بھٹو صاحب کا ناراض ہونا فطری تھا لیکن اس کے بعد قصوری صاحب بھٹو صاحب سے معافی مانگتے رہے اور آخر کار بھٹو صاحب کی طرف سے یہ پیغام آگیا کہ وہ ملاقات کیلئے آسکتے ہیں۔ جس دن قصوری صاحب بھٹو صاحب سے ملنے جا رہے تھے اس روز میں بھی اسی فلائیٹ سے اسلام آباد جا رہا تھا۔قصوری صاحب مجھے لاہور کے وی آئی پی لائونج میں ملے اور مجھے ایک طرف لے جا کر اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا’’اب بھٹو صاحب کی ناراضی دور ہو جائے گی‘‘۔ قصوری صاحب نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے قرآن کریم کا ایک پاکٹ سائز نسخہ نکالا اور مجھے دکھاتے ہوئے کہا’’میں یہ کتاب مقدس بھٹو صاحب کے سامنے رکھ کر عہد کروں گا کہ زندگی میں آئندہ پوری طرح ان کا ساتھ نبھائوں گا اور سیاست میں ان کے فیصلوں کی پابندی کروں گا‘‘۔ قصوری صاحب کی یہ ملاقات ہو گئی تھی اور اسکے بعد بھٹو صاحب کے ساتھ ان کے معمول کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔یہ واقعہ قصوری صاحب کے والد صاحب کی ہلاکت سے پہلے کا ہے گویا جس وقت مرحوم کو گولیاں لگیں اس وقت بھٹو صاحب اور احمد رضا قصوری کے درمیان کوئی کشیدگی نہیں تھی۔ یہ کہانی بعد میں تیار کی گئی۔مجھے نہیں پتہ عمران خان کو یہ کیوں کہا گیا’’آپ کو ذ والفقار علی بھٹو یاد ہیں؟‘‘ میں نے بھٹو صاحب کے المناک انجام کی کہانی اختصار سے بیان کر دی ہے۔ مناسب ہو گا کہ عمران خان بھٹوصاحب کو یاد کر لیں۔ بھٹو صاحب کی مشکل یہ تھی کہ حکومت اورعدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ سب کے سب انہیں سزائے موت دینے پر تلے ہوئے تھے۔ وہ مقدمہ کسی بھی طریقے سے لڑتے، ان کے بچنے کی امید نہیں تھی۔عمران خان پر راستے بند نہیں ہیں۔اندرون خانہ بھٹو صاحب کو پیش کشیں ہوتی رہی تھیں کہ وہ سیاست چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جائیں لیکن وہ نہیں مانے۔نواز شریف چلے گئے اور تیسری بار وزیراعظم بھی بن گئے۔ عمران خان کے ایک طرف حامد خان کھڑے ہیں او ر دوسری طرف جاوید ہاشمی۔دونوںکے مشورے دستیاب ہیں۔فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔