"SQC" (space) message & send to 7575

سوشل میڈیا یا ناموس رسالتﷺ؟

الحمد للہ ہم مسلمان ہیں۔مگر نامۂ اعمال میں کیا ہے ٹوٹے پھوٹے عمل۔گناہ گار ہیں۔ ریا کار ہیں۔!بظاہر نمازیں‘ روزے‘ حج اورزکوٰۃ۔ مگر پھر بھی معاملات اخلاقی برائیوں سے اٹے ہوئے۔!نمازیں بے روح۔ سر بسجدہ ہوں تو صدا سنائی دے ''تیرا دل تو ہے صنم آشنا ‘ تجھے کیا ملے گا نماز میں۔!‘‘ہمارے کاروبار جھوٹ سے سجے۔ہماری سیاست مفاد پرستی کا خلاصہ۔حقوق اللہ میں دکھاوا۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں ریا کاری۔ الغرض ہم اور ہمارا پورا معاشرہ فیض کے اس شعر کی تفسیر دکھائی دیتا ہے ؎
وہ بتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوف خدا گیا
وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا
بے عملی کے ان تمام اندھیروں کے باوجود ہمارے دلوں میں ایک دیا ضرور جلتا رہتا ہے۔ ہم اسے اپنے لیے توشۂ آخرت سمجھتے ہیں۔وہ دیا ہے نبی پاکﷺ سے محبت و عقیدت کی روشنی ہم اسی روشنی سے شفاعت کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ سے محبت ہمارے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے۔ ہم اور ہمارے ماں باپ نبی پاکؐ کی ناموس پر قربان۔ بے عملی کے ان اندھیروں میں یہی ہمارے لیے توشۂ آخرت ہے۔ اس دائرے سے باہر ہم نہ مسلمان ہیں نہ صاحب ایمان۔
یہ میری اور اس سماج کی بدبختی ہے کہ اس وقت پوری قوم سوشل میڈیا کے نشے کا اس قدر شکار ہو چکی ہے کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں مفلوج ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نبی پاکﷺ کی ناموس پر رکیک حملے کیے جا رہے ہیں انٹرنیٹ پر گستاخانہ مواد سرکولیٹ کر رہا ہے۔ مگر پھر بھی ابھی تک اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ سوشل میڈیا کو بند کرنا چاہیے یا نہیں۔ ابھی تک حکومت اس حوالے سے صرف بیانات ہی دے رہی تھی اور اس انتہائی حساس نوعیت کے معاملے کو بھی زندگی کے دوسرے معاملات اور مسائل کی طرح ٹریٹ کیا جا رہا تھا یعنی بیانات اور صرف بیانات۔ اسی سناٹے میں بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی صدائے حق بلند ہوئی۔ یہ ایک سچے عاشق رسولﷺ کی آواز تھی۔ نبی پاکﷺ کی محبت اور عقیدت میں ڈوبی ہوئی آواز جذبات سے مغلوب تھی۔''میں‘‘ میرے ماں باپ میری اولاد ناموسِ رسالت پر قربان۔ اگر سوشل میڈیا کو لگام نہیں دی جا سکتی تو پھر اسے بند کرنے کا حکم دیں گے‘‘جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزارت داخلہ ایف آئی اے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن سب کو خبردار کیا کہ یہ معاملہ ہمارے ایمان کا ہے۔ کوئی دنیاوی مفاد اس کے آڑے نہیں آ سکتا خیر اس وارننگ کے بعد حکومت ہوش میں آئی اور بالآخر اس حوالے
سے ایک اہم اور بنیادی کام یہ ہوا کہ کل مسلمان ملکوں کے سفیروں کا اجلاس بلایا گیا اس میں طے ہوا کہ تمام مسلمان ملک متحد ہو کر اس مسئلے کے حل کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کریں گے۔ اس اجلاس میں معاملے کو او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی اٹھانے پر بات ہوئی لیکن او آئی سی آج تک تو اپنے لیے کوئی ڈھنگ کا کام کرنے سے قاصر ہی نظر آتی
ہے۔ اوآئی سی میں شامل بیشتر عرب ملک مغربی طاقتوں کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ ناموس رسالت دنیاوی معاملات سے الگ ہمارے ایمان کا بنیادی تقاضا ہے اس سماج کی بدبختی یہ ہے کہ یہاں آزادی رائے کے نام پر ڈیجیٹل رائٹس کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں لبرل ازم کے نام پر کچھ این جی اوز ایسی مذموم اور ملعون حرکتوں کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں ۔ ایک این جی او نے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے یہ مہم چلا رکھی ہے اظہار رائے کی آزادی فرد کا بنیادی حق ہے مگر اس آزادی کو بھی لامحدود نہیں کیا جا سکتا ۔دنیا کے کسی ملک میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ آزادی اظہار کے نام پر جو حقوق چند نام نہاد لبرل ہمارے ہاں مانگ رہے ہیں۔ اگر کوئی آپ کے ماں باپ کو گالیاں دے تو آپ اسے اظہار کی آزادی کے نام پر معاف نہیں کریں گے۔ آپ یقیناً اس شخص کا منہ نوچ لیں گے۔! یہ ہے اظہار رائے کی آزادی کی حد۔
جسٹس صدیقی نے واضح کہا کہ اگر یہ مذموم سلسلہ رکتا نہیں تو سوشل میڈیا کو بند کر دیا جائے گا۔ اس پر کچھ لوگوںکی دُم پر پائوں آیا اور وہ چیخنے لگے۔ فیس بک کی لت میں مبتلا لوگ اس کے بغیر جینے کا تصور نہیں کر سکتے‘ دلائل چلتے جاتے ہیں‘یہ تو 21ویں صدی کا ایک انقلاب ہے اس کے بعد آج کے دور میں جینا مشکل ہے مگر آج ہی کے دور میں ہمارے پاس چین اور ایران کی مثال موجود ہے جہاں محدود اور سنسر شدہ سوشل میڈیا کے استعمال کی اجازت ہے۔ چین کی معاشی ترقی نے پوری دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیا ہے۔ میڈ ان چائنا نے امریکہ کی انڈسٹری کو بھی خطرات لاحق کر دیے ہیں۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی چین میں گوگل‘ فیس بک یو ٹیوب‘ ٹوئٹر سمیت کئی دوسرے اہم انٹر نیٹ ویب سائٹس بلاک ہیں۔ چین کی حکومت نے اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر ان ویب سائٹس کو بلاک کر دیا ہے اس کے باوجود چین کی ترقی‘ خطے میں چین کا بڑھتا ہوا کردار اور اثرات دُنیا کے سامنے ہیں۔ یہ مثال ان لوگوں کے لیے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا اگر بین ہوتا ہے تو پھر زندگی کہیں سروائیو ہی نہ کر سکے گی۔ نبی پاکﷺ کی حرمت‘ عزت اور ناموس پر سو بار سوشل میڈیا قربان۔27مارچ کو اس حوالے سے ایک اہم فیصلہ آنے والا ہے یہ ہماری بدبختی ہو گی اگر یہاں یہ نوبت آ جائے کہ ریفرنڈم کروا کر پوچھنا پڑے لوگوں کو کیا چاہیے۔ سوشل میڈیا یا ناموس رسالتﷺ ؎
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں