"SQC" (space) message & send to 7575

مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

فرانسس کولنز (Francis Collins) ممتاز امریکی فزیشن ہیں‘ وہ شعبہ صحت و طب کے دانشور گردانے جاتے ہیں۔ امریکہ میں نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں اور صحت کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی سطح کے اداروں کے ساتھ وابستہ۔ انہوں نے ایک بہت عجیب بات کہی: کسی بھی ملک کی معاشی صورت حال براہ راست اُس کے لوگوں کی صحت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ اگر کوئی رہنما خواہش رکھتا ہے کہ اُس کا ملک معاشی طور پر ترقی کی منازل طے کرے تو اُسے سب سے پہلے اپنے لوگوں کے لیے علاج معالجے کی بہترین سہولتیں مہیا کرنا ہوں گی۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی افزائش اور ترقی کا اندازہ لگانا ہو تو بس یہ دیکھیں کہ اُس ملک کا نظام عام آدمی کو علاج معالجے کی کتنی سہولتیں دیتا ہے۔ 
فرانسس کولنز کی بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ ملک کی معیشت اور عام آدمی کی صحت اور علاج کی سہولتوں کے تعلق کو کوئی امریکی دانشور ہی بیان کر سکتا تھا‘ خیر سے ہماری ترقی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کو تو سیاست کے امور پر بحث کرنے سے فرصت نہیں۔ کبھی مشرف کیس‘ کبھی پاناما کیس‘ کبھی جاوید ہاشمی کے بیانات پر جوڈیشل مارشل لاء کے ممکنہ خطرات‘ کبھی عمران خان کے یوٹرن‘ کبھی مریم نوازشریف کے ٹویٹ‘ کبھی پیپلز پارٹی کا ریوائیول‘ بلاول زرداری کا کردار وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں فرصت ہی نہیں کہ ریٹنگ کے خبط سے نکل کر عام آدمی کے مسائل 
پر بات کریں، جس میں صحت اور علاج بنیادی مسئلہ ہے۔ فرانسس کولنز معیشت کی صورت حال جانچنے کے لیے جو فارمولا بتاتا ہے، اُس کا اطلاق اپنے ملک پر کر کے دیکھیں‘ اُس کی لفظوں کی سچائی پر یقین آ جائے گا۔ قرضوں کی بیساکھی پر لنگڑاتی ہوئی معیشت اور عوام کے لیے صحت کی سہولتوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ قصور کی زہرہ بی بی نے جناح ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر جان دے کر ایک بار پھر سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کا پول کھول دیا ہے کہ عام آدمی کے لیے صحت اور علاج حکومت کے کسی ایجنڈے میں شامل نہیں۔ زہرہ بی بی کو مرنے کے بعد دس لاکھ مل گیا یعنی اُس کے لواحقین کو، مگر جب وہ بیماری کی حالت میں ہسپتال لائی گئی تو اُسے بیڈ تک نہیں ملا‘ ڈاکٹروں کی دس منٹ کی توجہ نہیں ملی۔ وزیراعلیٰ جب اُس کے گھر جا کے یہ کہتے ہیں کہ صحت کے نظام کو ٹھیک کرنے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا تو اُن کے اس دعویٰ پر صرف ہنسی آتی ہے۔ اُن کے گرد خوشامدیوں کے ٹولے نے انہیں سب اچھا کا یقین دلا رکھا ہے‘ اسی لیے انہوں نے فرمایا کہ ہسپتالوں میں صحت کی تمام سہولتیں موجود ہیں‘ صرف ڈاکٹروں میں احساس نہیں۔ خود فریبی کا ایک اعلیٰ مقام ہے یہ!
13 جنوری کو ایک انگریزی روزنامے نے پنجاب حکومت کی صحت کی سہولتوں کا مزید پول یوں کھول دیا کہ نیورو سرجری کے حوالے سے پنجاب کا واحد ادارہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف نیورو سائنسز فنڈز کی شدید کمی کا شکار ہے۔ اس کا براہ راست اثر اُن مریضوں پر پڑتا ہے جو پنجاب کے دور دراز شہروں اور دیہاتوں سے یہاں تشویشناک حالت میں علاج کے لیے لائے جاتے ہیں۔ خبر کے مطابق اس ادارے کو سرجری کا ایکوئپمنٹ خریدنے کے لیے ایک ارب روپے درکار ہیں اور نئے مالی سال کے سات مہینے گزرنے کے باوجود اس اہم ترین میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کو پنجاب حکومت کی طرف سے ایک پیسے کی بھی گرانٹ نہیں ملی۔ یہ صرف لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کی کہانی نہیں‘ باقی ہسپتالوں کی کہانیاں بھی اس سے ملتی جلتی ہیں۔ وزیراعلیٰ اورنج لائن ٹرین بنانے کے لیے بے چین ہیں۔ صرف لاہور کے شہریوں کے لیے 27 کلومیٹر کے ٹریک پر 57 ارب روپے لگا دیے گئے جبکہ پنجاب کے کروڑوں لوگ جن بڑے ہسپتالوں سے استفادہ کرتے ہیں‘ انہیں بہتر کرنا حکومت کے کسی پروگرام میں شامل نہیں، یہ کام صرف دعوئوں اور وعدوں سے ہی چلایا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں ایسے المیے جنم لیتے ہیں جن کا ذکر اگلے روز برادر رئوف کلاسرا نے اپنے کالم ''باپ کا دکھ‘‘ میں کیا۔ صحافی آفتاب خٹک نے اپنا کم سن بیٹا جگر کی جان لیوا بیماری کے ہاتھوں اس لیے کھو دیا کہ وہ اُس کا علاج نہیں کرا سکے۔ چند ہزار روپے کمانے والا باپ علاج کے لیے لاکھوں روپے کہاں سے لاتا۔ بلاشبہ موت برحق ہے‘ مشیت ایزدی ہے‘ جس نے جس عمر میں جانا ہے اُسے ٹالا نہیں جا سکتا‘ لیکن باپ جب اپنے جگر گوشے کا علاج نہ کروا سکا ہو تو پھر وہ اپنی سفید پوشی کو‘ اپنی بے بسی کو اُس کی موت کا ذمہ دار سمجھنے لگتا ہے۔ اپنے نزلے زکام کا علاج لندن کے ہسپتالوں سے کروانے والے اُس اذیت کا کیسے اندازہ لگا سکتے ہیں جس سے یہ تہی دست والد گزرا ہو گا۔۔۔۔''مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا!‘‘ 
یہ المیہ صرف آفتاب خٹک پر نہیں گزرا، اس مملکت خدا داد میں ہر وہ شخص اس اذیت سے گزرتا ہے جس کا کوئی پیارا کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہو جائے اور اس کے لیے لاکھوں روپے کے علاج کی صورت میں ایک امتحان اور آزمائش منتظر ہو۔ مجھے 20 نومبر 2014ء کو دنیا سے رخصت ہونے والا پونے پانچ سالہ محب یاد آتا ہے جس کی ایک برس پہلے بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ علاج کے لیے ایک انجکشن ڈھائی لاکھ روپے کا اور پہلا مرحلہ تین برسوں پر محیط ہے۔ محب کے والدین نے یہ عرصہ کس اذیت میں گزارا ہو گا‘ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ لاہور کے کسی بھی ہسپتال میں اُس کا علاج ممکن نہ تھا۔ اُسے کراچی کے آغا خان ہسپتال لے جانا پڑا۔ محب کے والدین خوشحال اور کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے‘ اپنے بیٹے کو شہر کے بہترین سکول میں پڑھا رہے تھے مگر جب یہ مرحلہ آیا تو انہوں نے خود کو تہی داماں پایا۔ ایک طرف اکلوتے بچے کی جان لیوا بیماری‘ دوسری طرف مہنگا ترین علاج! میں نے اُن کی اس اذیت کو بہت قریب سے دیکھا۔ بارہا خیال آتا کہ حکومت کا کوئی تو ایسا نظام ہونا چاہیے جو مشکل حالات میں اپنے شہریوں کی خودداری کو تحفظ دیتے ہوئے اُن کی مالی امداد کرے۔ محب تو اس دنیا کی اذیتوں اور تکلیفوں سے دور چلا گیا مگر یہ المیے، یہ مسائل ختم نہیں ہوئے۔ زہرہ بی بی ‘ آفتاب خٹک اور محب کی کہانی آج بھی اس معاشرے میں دہرائی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ علاج کی سہولتیں نہ ہونے‘ علاج کے لیے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ موت تو ایک بار آنی ہی ہے، اصل المیہ یہ ہے کہ سفید پوشی‘ بیماری اور بے بسی میں پل پل موت سے گزرنا بڑا تکلیف دہ ہے ع 
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہونا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں