"SQC" (space) message & send to 7575

ماتم ہوائے شہر نے اب کے کیا تو ہے!

انٹرنیٹ کی مشہور ویب سائٹ یاہو نے چند سال پیشتر ایک سروے کروایا تھا۔ سوال تھا کہ آپ زندگی کی کس نعمت اور اثاثے کو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر 90 فیصد افراد کا جواب تھا: ''امن‘‘
We want peace for our children and for children,s children.
امن کی خواہش انسان کی فطری ضرورت ہے‘ اس لیے کہ زندگی پُرامن فضا میں ہی پھلتی پھولتی ہے۔ امن کی فضا میں ہی آنگن آباد رہتے ہیں‘ کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا‘ اور صنعت کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ کونپلیں پھوٹتی اور پھول کھلتے رہتے ہیں اور سکولوں سے 'لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ امن کی فضا میں ہی بچے پارکوں میں اٹکھیلیاں کرتے اور عورتیں اپنے محفوظ آنگنوں میں شام کو سلامت لوٹنے والوں کے لیے خواب بنتی ہیں۔ اور اگر بستیوں میں امن نہ رہے تو پورا سماج بکھر جاتا ہے۔ اگر بستیوں میں امن نہ رہے تو پھر شاہراہیں‘ درگاہیں‘ درسگاہیں‘ سب مقتل بن جاتے ہیں۔ پتا ہی نہیں کہ کب‘ کون‘ کہاں اس شعر کی عملی تصویر میں ڈھل جائے: ؎
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا کوئی!
بستیوں سے امن رخصت ہو جائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو میری اور آپ کی دھرتی پر ہو رہا ہے۔ دلخراش مناظر۔ آہیں۔ چیخ پکار۔ ماتم۔ چیتھڑوں میں تبدیل ہوتے حسین جسم۔ مائوں کے شیر جوان بیٹے۔ موت سے پتھرائی ہوئی آنکھوں کے لہولہان خواب۔ محبت اور امن کی دھمال ڈالتے پُرامن معصوم‘ نہتے لوگ۔ خون میں نہائے ہوئے۔ امن اور محبت کا درس دینے والے صوفیا کے مرکز پر۔ دہشت‘ خوف اور موت کے تاریک سائے۔
دو دن کے اندر اندر دہشت گردی کی لہر نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ لاہور کا مال روڈ۔ سندھ کا سیہون شریف۔ کوئٹہ کا سریاب پل۔ پھولوں کا شہر پشاور۔ سب جگہ ایک سے دلخراش مناظر:
تیر سارے کڑی کمان میں تھے
ہم کہ اک شہرِ بے امان میں تھے
رزم آرائی اب کے گھر میں رہی
حادثے یہ کہاں گمان میں تھے
زرد چہروں پہ کھوکھلی آنکھیں
جیسے بجھتے دیے مکان میں تھے
آگ بھڑکی تو جل کے راکھ ہوئے
خواب ایسے بھی شہرِ جان میں تھے
اور دہشت گردی کی اس بھڑکی ہوئی آگ میں ہمارا کیا کچھ خاکستر ہو چکا ہے۔ کتنے فرض شناس آفیسر۔ کتنے گمنام سپاہی۔ کتنے بے نام۔ سکیورٹی اہلکار ہزاروں معصوم بے گناہ نہتے پاکستانی شہری۔ بچے‘ بوڑھے‘ عورتیں‘ جوان طالب علم۔ دہشت گردی کی اس بھڑکی ہوئی آگ نے ہزاروں گھرانوں کو نہ ختم ہونے والے دکھوں سے ہمکنار کیا۔ ایسے المیے ہوئے کہ بیان کرنے کے لیے لفظ ناکافی ہیں۔ لاہور کی سرمئی مال روڈ پولیس کے جن فرض شناس افسروں کے خون سے رنگین ہوئی ان میں کوئٹہ کے ڈاکٹر کرار اور مسز مائرہ کرار کا اکلوتا بیٹا‘ احمد مبین بھی شامل ہے۔ اسلامیہ سکول کوئٹہ کا ذہین اور قابل سٹوڈنٹ آج بھی کسی کو نہیں بُھولا۔ ماں نے تمام عمر اکلوتے بیٹے کو ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھا۔ گھر سے باہر گیا تو آنکھیں دہلیز پر انتظار میں رکھ دیں‘ مگر 13 فروری کا وہ خون آشام دن کسے بھولے گا‘ جب ڈی آئی جی ٹریفک کیپٹن (ر) احمد مبین دھرنا مظاہرین سے التجائیں کر رہے تھے کہ جلوس کو منشتر کر دیں دہشت گردی ہو سکتی ہے۔ عین اسی لمحے وہ خود ایک بدترین دہشت گردی کا نشانہ بن گئے‘ اور اب ماں تمام عمر اپنے اکلوتے بیٹے کی دائمی جدائی کے کرب میں مبتلا رہے گی۔ یہ سانحہ تو بس چند روز اور موضوعء گفتگو بنے گا‘ مگر جو لوگ اس دہشت گردی میں مارے گئے یا زخمی ہوئے‘ وہ تمام عمر اس کے اثرات سہتے رہیں گے۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا عبدالرزاق بھی دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ کا ایک گمنام سپاہی تھا۔ اے ایس آئی عبدالرزاق‘ بم ڈسپوزل سکواڈ کا ایک اہم فرد۔ ہر وقت جان ہتھیلی پر ہے۔ خطرناک بموں کو ناکارہ بنانے کا کام کرتا تھا‘ گویا ہر وقت موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے رکھتا۔ 13 فروری ہی کو سریاب پل کوئٹہ کے نیچے پچیس کلو بارود سے بھرے بم کو ناکارہ بناتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو گیا۔ اس گمنام سپاہی کی وطن سے محبت اور فرض شناسی کی کہانی حیران کن ہے۔ وہ نو بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھا۔ عبدالرزاق نے شادی اس لیے نہیں کی کہ جانتا تھا‘ اس کا کام ہی روز موت سے ملاقات کرنا ہے اور کہیں بھی کسی موڑ پر وہ بم کو ناکارہ بناتے ہوئے موت کو گلے لگا لے گا۔ اس تلخ اور بڑی حقیقت کے باوجود اس کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ اپنے کام سے محبت کرتا تھا۔ اُس کا ایمان تھا کہ اس طرح وہ دھرتی کے دشمنوں کو ہر بار شکست دیتا ہے۔ نڈر اور بہادر ایسا تھا کہ سیفٹی کٹ (Kit) پہنے بغیر‘ سادہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک پلاس اور تار ہاتھ میں لیے وہ بڑی مہارت سے دشمن کے پھیلائے ہوئے جال کو ناکام بناتا۔ مگر 13 فروری کی شام یہ گمنام سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی میں جان سے گزر گیا۔ میّت کے نام پر جسم کے چند ٹکڑے تھے‘ جنہیں تابوت میں بند کرکے اس کی بدقسمت ماں کے حوالے کر دیا گیا۔ اس گمنام سپاہی اور ایسے ہزاروں گمنام سپاہیوں کو جو دھرتی پر قربان ہو گئے‘ ہمارا عقیدت بھرا سلام۔ دہشت گردی کی اس بے چہرہ جنگ میں جہاں ایک طرف المناک سانحوں کی ایک لمبی فہرست ہے‘ وہیں فرض شناسی کی کیسی کیسی شاندار مثالیں بھی رقم ہوئیں! اور اس کے متوازی حکومت کی نااہلیوں کی شرمناک داستانیں بھی قابل ذکر ہیں‘ جن کی وجہ سے متاثرینِ دہشت گردی کی تکلیفیں دوچند ہوئیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ سیہون شریف سانحہ کے کئی زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ مقامی ہسپتال میں انتظامات ناکافی تھے۔ زخمیوں کو کراچی تک پہنچانے کے لیے ایمبولینسوں کی قلت تھی۔ اتنے بڑے سانحے کے مقابل ریسکیو مینجمنٹ بالکل ناکارہ اور اس کے نتیجے میں زائرین کا جلائو گھیرائو‘ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے وطن کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
بے انت خامشی میں کہیں اک صدا تو ہے
ماتم ہوائے شہر نے اب کے کیا تو ہے
بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے
گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بد دعا تو ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں