"SQC" (space) message & send to 7575

ہم سے احسان کسی کے بھی اٹھائے نہ گئے

بدقسمتی سے ہم نے اپنے محسنوں کو راندئہ درگاہ کرنے کی بھی چند بدترین مثالی قائم کیں۔ ایدھی صاحب کو تو خیر وقت رخصت سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر رخصت کیا گیا۔ شاندار جنازہ‘ توپوں کی سلامی، آرمی چیف کا سلیوٹ یادگار تھا ۔ پوری قوم ان کے لیے اشکبار تھی مگر حکیم محمد سعید شہید۔ پروین رحمن۔ یہ بھی تو اس قوم کے محسن تھے۔ پاکستانیت میں گندھے ہوئے یہ لوگ، پاکستان کے لوگوں کے لیے اپنا جیون گزارتے رہے۔یہ خوب صورت لوگ کس بے دردی سے دن دیہاڑے قتل کر دیئے گئے ۔ حکیم سعید شہید انتہائی پروقار شخصیت شرافت اور نجابت کی مثال، ہمدرد پاکستان ،18اکتوبر 1998ء کو خون میں نہلا دیے گئے۔ اور یہ ناحق خون ایک سال کے اندر اندر نواز حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔ پوری قوم سراپا احتجاج ہوئی پاکستانی دہل گئے ۔ ہر دل عزیز حکیم سعید کے اس بہیمانہ قتل پر پھر یہی مصرعے ذہن میں گونجتے ہیں ؎
تمام عمر کی نغمہ گری کے بعد کھلا
یہ شہر اپنی سماعت میں سنگ جیسا تھا!
اور اسی شہر سنگ میں پروین رحمن ایک عظیم پاکستانی خاتون جو محروم طبقے کے لیے درد دل سے مالا مال تھی، اسے بھی 2013ء میں مارچ کے پر بہار مہینے کی 13تاریخ کو مار دیا گیا، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی ڈائریکٹر۔ اپنے کام کی دھن میں مگن اورنگی کے کم مراعات یافتہ طبقے کے لیے تعلیم ،صاف پانی ،غربت مٹانے‘ کے کئی شاندار منصوبوں پر کام کر رہی تھی۔ انہوں نے ڈاکٹر حمید خان کی شاندار وراثت کو سنبھالا تھا اور اپنا دن رات اس پر وار دیا۔ غیر معمولی جرات مند خاتون تھیں انہوں نے تقریباً پانچ سو گوٹھوں کی نقشہ جاتی کا کام کیا تھا اور اس میں ایسی قبضہ والی زمینوں کی نشاندہی کی جس پر بااثر قبضہ گزاروں کے نام سے حکومتیں بھی دہلتی تھیں۔ اور ان کا یہی کارنامہ ان کی زندگی کے خاتمے کا سبب بنا۔ انہیں زندگی میں بھی ایسے افراد کی طرف سے بارہا دھمکیاں ملتی رہیں۔ مگر یہ جرأت مند خاتون اپنے مقصد میں آگے بڑھتی رہی۔ ان سے محبت کرنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں تھے جن کی زندگی انہوں نے تبدیل کی مگر وہ ان کی زندگی کو تحفظ نہ دے سکے۔ ان کے اس طرح چلے جانے پر ماتم کرتے رہے اور سچ تویہ ہے کہ اورنگی کے لوگوں کو ان کا مثل اور کوئی ملا بھی نہیں۔ ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔! اور ایسے گراں مایہ نایاب لوگ ہم نے خون میں نہلا دیے، مٹی میں رول دیے یہ ہمارے اجتماعی دکھ اور پچھتاوے ہیں۔ اور اس لیے آج یاد آئے کہ چند دن پیشتر افسوسناک خبر آئی کہ فیصل ایدھی جو ایدھی کی وراثت کے امین ہیں انہیں بااثر مجرموں کی طرف سے سنگین دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے ایدھی فائونڈیشن میں ہونے والی ڈکیتی کیس کی پیروی کی تو وہ سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں۔ !!۔اس ملک میں یوں تو ایک سے
ایک بڑا سکینڈل اور دل دہلا دینے والے سانحے ہوتے رہتے ہیں کہ ایدھی کے وارثوں کو دھمکی والی خبر بڑی اور سنسنی خیز خبر کا درجہ حاصل نہ کر سکی۔ میرے نزدیک یہ فوری نوٹس لینے والی اہم اور تشویشناک خبر ہے اس لیے جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ایدھی کی وراثت کیا ہے۔ تو پھر سمجھ میں آتا ہے کہ اس کے وارثوں کو
دھمکی دراصل ایک ایسے زوال پذیر معاشرے کی علامت ہے، جہاں اعلیٰ انسانی قدریں معدوم ہو رہی ہیں اور معاشرہ بدترین بااثر مجرموں کے ہاتھوں یرغمال بنتا جا رہا ہے۔
ایدھی کی وراثت کیا ہے ،مذہب‘ مسلک‘ رنگ اور فرقے سے بالاتر ہو کر محروم انسانوں کا درد بانٹنے کی عظیم روایت۔ جو کام ایدھی نے کیا وہ آسان نہ تھا۔ اپنا نفس‘ اپنا من‘ اپنا آرام‘ اپنا آپ تیاگ کر کے دوسروں کے زخموں پر پھاہے رکھنا۔ تعفّن زدہ، گلی سڑی لاشوں کو کچرا کنڈی سے اٹھانا، احترام سے ان کا کفن دفن کرنا۔ ماں باپ کے دھتکارے ہوئے لولے لنگڑے ‘ معذور بچوں کی رالیں صاف کرنا۔ خون کے رشتوں پر بوجھ بننے والی دھتکاری ہوئی بیٹیوں کو سہارا دینا۔ ایدھی کے کام گنوائے نہیں جا سکتے۔ ایدھی کی وراثت کا امین فیصل ایدھی ہے۔دھمکیاں ایدھی صاحب کو بھی ان کی زندگی میں ملتی رہیں۔ ایک بار تو سب کچھ چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے تھے مگر پھر تمام تر مشکلات کے باوجود واپس اسی سلطنت میں چلے آئے، جہاں درد کی دولت تقسیم کی جاتی تھی۔ فیصل ایدھی کو ملنے والی ان دھمکیوں کے ڈانڈے اس افسوسناک اور شرمناک ڈکیتی سے ملتے ہیں جو 2014ء میں ایدھی فائونڈیشن میں ہوئی۔ ذرا تصور میں لائیں ایدھی فائونڈیشن کا وہ سادہ سا آفس جہاں ایک طرف چارپائی ،ایدھی صاحب رات کے کسی پہر سو رہے تھے چند شقی القلب ڈاکو وہاں گھس آئے اور انہوں نے گن پوائنٹ پر ایدھی صاحب کو جگایا ہو سکتا ہے اس وقت ایدھی صاحب نے سوچا ہو شاید شہر میں کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے اسی سالہ ایدھی نیند میں ہوں گے وہ ہڑ بڑا کر اٹھے ہوں گے کہ فرض کی ادائیگی کا وقت ہے۔ گن پوائنٹ پر جب نگاہ پڑی ہو گی تو اس وقت انسانیت کے اس خدمت گار کے ذہن میں پہلا خیال کیا آیا ہو گا؟ شقی القلب ڈاکو ایدھی فائونڈیشن کے آفس سے دکھی لوگوں کے لیے جمع کیے گئے چندے کا کروڑوں روپے چھین کر لے گئے۔ پھر صحت گرتی چلی گئی اور ایدھی صاحب فیصل ایدھی اور لاکھوں ورکرز کو اس وراثت کا امین بنا کر عدم کو سدھار گئے۔ اسی ڈکیتی کا کیس عدالت میں ہے اور فیصل ایدھی کو اس پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ بہت بڑا واقعہ ہے وزیر اعظم ذاتی دلچسپی سے تحقیقات کروائیں۔ایدھی کی وراثت کے امین افراد کو خصوصی تحفظ مہیا کریں اور ایسے تمام افراد کو تحفظ اور احترام دینا یقینی بنایا جائے۔ یہ لوگ اس معاشرے کے محسن ہیں اور یہاں کی منفی قوتیں انہیں یرغمال بنانا چاہتی ہیں۔ ڈر ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری حالت ممتاز صحافی محمود شام صاحب کے اس شعر جیسی ہو جائے گی ؎
جتنے محسن تھے سبھی راندۂ درگاہ کیے!!
ہم سے احسان کسی کے بھی اٹھائے نہ گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں