"SQC" (space) message & send to 7575

آئیں بائیں شائیں

سنجیدہ ‘ دبنگ اور دھڑلے سے اپنی بات کہہ دینے والے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اپنی ہی طرز کے آدمی ہیں۔ کبھی پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں تو کبھی بلاول زرداری کے ساتھ ان کی لفظی جنگ چلتی ہے اور کبھی ان کی اپنی پارٹی کی ''اعلیٰ قیادت‘‘ سے ناراضی بھی ''خبروں‘‘ کی زینت بن جاتی ہے۔ یوں درون خانہ کے ہنگامے چراغِ رہ گزر کو بھی معلوم ہو جاتے ہیں۔ موصوف لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی بات کہہ دینے کا ہنر جانتے ہیں۔ مگر قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے یک رکنی کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ نے گویا وزیر داخلہ کو تلملا کر ہی رکھ دیا۔ اس رپورٹ میں وزارت داخلہ اور انچارج وزیر کے بارے میں انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے انتہائی اہم اور سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
8 اگست 2016ء کو کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے بدترین سانحے میں ستر سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ بلوچستان بار کے قابل اور سینئر وکلاء بطور خاص اس کا نشانہ بنے۔ اس رپورٹ میں وزارت داخلہ اور بلوچستان حکومت دونوں کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ بلوچستان حکومت پر تو اس کا خیر اثر کیا ہونا تھا مگر وزیر داخلہ نے ان اعتراضات کو براہِ راست اپنی ذات پر حملہ قرار دے دیا۔ چوہدری نثار علی خان اس قدر کیوں تلملائے؟ ذرا چند جملے رپورٹ کے پڑھ لیجیے: '' وفاقی وزارت داخلہ کی کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔۔۔۔ اس کا کردار بے سمت ہے۔۔۔۔ وزیر داخلہ خود دہشت گرد تنظیموں کے لیڈروں سے ملاقاتیں فرماتے ہیں۔۔۔۔ ابھی تک کئی دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا‘‘۔ اعتراضات کی یہ فہرست خاصی طویل ہے۔110صفحات پر مشتمل کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے جواب میں وزیر داخلہ نے چونسٹھ صفحات پر مشتمل اپنا جواب سپریم کورٹ میں 4 فروری 2017ء کو جمع کرایا اور اس انکوائری رپورٹ کو یکسر غیر متعلقہ اور انصاف کے فطری تقاضوں کے خلاف قرار دیا۔
قارئین! مجھے یقین ہے کہ چند روز اب اس ''جواب آں غزل‘‘ کا تذکرہ میڈیا میں ہو گا اور چونکہ کمیشن کے جواب میں وزارتِ داخلہ کا موقف اب آیا ہے اس لیے اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے گا۔ ممکن ہے اس رپورٹ کو غیر متعلقہ قرار دیا جائے‘ اللہ اللہ خیر سلا۔ بات لوگوں کی یادداشت سے محو ہو جائے گی لیکن سچ یہ ہے کہ اگر کسی کو کوئٹہ انکوائری کمیشن کی رپورٹ تفصیل سے پڑھنا گوارا ہو تو وہ یہ بات برملا کہے گا کہ یہ کوئی روایتی دفتری کارروائی نہیں بلکہ قاضی فائز عیسیٰ نے ایک سچے درد مند پاکستانی کی حیثیت سے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ بکھرتے ہوئے بے سمت سماج کی بیماریوں کی تشخیص کی اور اس کا علاج بتایا۔ انہوں نے صرف بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کے اسباب ہی کا جائزہ نہیں لیا بلکہ ایک ایسے نظام کا پوسٹ مارٹم کیا جسے بددیانتی‘ کرپشن‘ مفاد پرستی‘ جلد بازی‘ اقربا پروری کے ناسور نے کھوکھلا بنا کر دہشت گردی کے لیے سافٹ ٹارگٹ بنا دیا ہے۔ 8 اگست 2016ء کو ہونے والے دہشت گردی کے دو سانحوں کی تحقیقی رپورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ نے بیورو کریسی‘ تعلیمی اداروں‘ سکیورٹی فورسز‘ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ‘ ریسکیو کے نظام کی کارکردگی کا دقت نظر سے جائزہ لے کر اس کی کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس پر مصحفی کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے ؎
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
حیرت ہے کہ اس رپورٹ میں بلوچستان حکومت کی ناقص کارکردگی، صوبائی بیورو کریسی کی اقربا پروری‘ کرپشن زدہ ڈھانچے‘ بلوچستان پولیس کے غیر ذمہ دارانہ رویے اور غیر تربیت یافتہ ردعمل کو ہائی لائٹ کیا گیا مگر حکومت کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔ موقع پر موجود پولیس نے جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان‘ جس میں پولیس کو فرنٹ لائن پر لڑنے کے لیے تربیت یافتہ بنانے کا عزم تھا‘ وہ محض ایک بند فائل سے زیادہ کچھ نہیں۔اگرچہ یہ معاملہ عدالت کے روبرو ہے اس لیے اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم رپورٹ سے چند چشم کشا اقتباسات ملاحظہ ہوں:
''جس وقت کوئٹہ کے ہسپتال میں دھماکہ ہوا، وہاں تعینات پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ اس حماقت کا مقصد دہشت گردوں کو خوفزدہ کرنا تھا۔ دہشت گرد تو اس سے خوف زدہ نہ ہوئے مگر عام لوگ، مریض اور ڈاکٹر دہشت زدہ ہو گئے۔ اس فائرنگ سے طبی امداد کا کام بُری طرح متاثر ہوا۔ کئی زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ آتش گیر اسلحہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر گرنے والی گولیوں سے بھی لوگ زخمی ہوئے‘‘۔
'' جس ہسپتال میں دھماکہ ہوا، ہر طرف زخمی کراہ رہے تھے۔ طبی عملے کی بڑی تعداد غیر حاضر تھی۔ بعدازاں تحقیق سے پتا چلا کہ اس روز 52 ڈاکٹر‘18نرسیں‘ 15ڈسپنسر غیر حاضر تھے۔ ایسی غیر حاضری معمول سمجھی جاتی ہے‘‘۔
''دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کو وفاقی اور صوبائی حکومتیں معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ زخمیوں کے علاج معالجہ کا ذمہ بھی اٹھاتی ہیں۔ اس مد میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اربوں روپے لگا چکی ہیں، مگر دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اس رقم کا معمولی سا حصہ بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کی معلومات پرڈیٹا بینک بنانے‘ فورنزک سائنس لیب کے قیام‘ جان بچانے والے آلات کی فراہمی اور ہسپتالوں کے لیے ایمبولینسوں کی خریداری انتہائی ضروری ہے‘‘۔
کمیشن نے تفصیل سے حالات و واقعات کا جائزہ لیاگیا۔ خود کش حملہ آور کے حملے کے بعد ‘ ہسپتال کے عملے، پولیس اور ریسکیو سسٹم کا جوردعمل ہونا چاہیے تھا ‘اس کا بھی عرق ریزی سے جائزہ لیا گیا۔ کمیشن نے اس پر بھی بات کہ 70 سے زائد متاثرین حادثہ کے لیے ہسپتال میں صرف سات ایمبولینسیں تھیں، جن میں سے ایک بھی ایسی نہ تھی جو جدید طبی آلات سے لیس ہو۔ لواحقین اپنے مریضوں اور پیاروں کی میتوں کے لیے ایمبولینسیں ڈھونڈتے رہے۔
اگر وزیر داخلہ اس رپورٹ کو غیر متعلقہ کہتے ہیں‘ انصاف کے فطری تقاضوں سے ماورا قرار دیتے ہیں تو ان کا یہ نقطہ نظر کسی بھی محب وطن پاکستانی کی سمجھ سے باہر ہے۔ کوئٹہ انکوائری کمشن کی رپورٹ دراصل ایک درد مندانہ کوشش ہے۔ اس بے مثال تاریخی دستاویز کو غیر متعلقہ کہنے والے جواب میںمحض آئیں بائیں شائیں کر رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں