افغان سرحدپرآپریشن ’ضرب عضب‘کادوسرامرحلہ؟

 افغان سرحدپرآپریشن ’ضرب عضب‘کادوسرامرحلہ؟

مشرقی بارڈرپربھارت سے بھی خبرداررہناہوگا،افغان امن میں تمام فریقین کافائدہ!

(تجزیہ:سلمان غنی)پاکستان میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کے ردعمل میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے افغان بارڈر اور اسکے اردگرد دہشتگردوں کی پناہ گاہوں اورٹریننگ سنٹرز پر گولہ باری کا عمل بظاہر نتیجہ خیز نظر آرہا ہے جبکہ دہشتگردی کیخلاف پاکستان کا’ڈیپ سکیورٹی‘کا عزم بھی ظاہر ہورہا ہے ، کیونکہ دہشتگردی کی یہ لہر اس وقت آئی جب پاکستان اقتصادی و معاشی محاذ پر ٹیک آف کرتا نظر آرہا تھامگردشمن کیلئے یہ کسی بھی طرح قابل ہضم نہیں تھااوراس نے دنیامیں پاکستان کے ابھرتے ہوئے امیج کودھندلانے کیلئے دہشتگردی کاسلسلہ شروع کردیا،ردعمل میں پاکستان کی حکومت اورافواج نے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ دہشتگردوں کے ڈانڈے سرحد پار افغانستان کی حدود خصوصاً کنہڑ،نورستان،ننگرہار سے جاملتے ،چنانچہ سوال یہ تھا کہ ان کیخلاف کارروائی کون کرے ؟، افغان انتظامیہ اس سارے عمل پر بوجوہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی اوراسکامؤقف تھا کہ یہ علاقے اسکی عملداری میں نہیں۔ آپریشن’ضرب عضب‘کے بعد ضرورت اس امرکی تھی کہ افغان انتظامیہ اپنے سرحدی علاقوں میں بھی ایسا ہی آپریشن کرتی مگر ایسا نہ ہوا اوروہاں پرقائم دہشتگرد وں کے ٹھکانے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کیخلاف بھی استعمال ہوتے رہے ، لہٰذا یہی وہ بنیاد اور مشترکہ پہلو تھا جس کے باعث پاک افغان بارڈر پر بڑے آپریشن کی بنیاد رکھی گئی اور آپریشن شروع ہوا،مشترکہ سرحدپر پیداشدہ صورتحال اور بمباری کے عمل سے یہ فائدہ تو ضرور ہوگا کہ ایک مرتبہ ان پناہ گاہوں سے نجات مل جائیگی،لیکن اس کے ساتھ ساتھ کیا پاکستان نے اس امر کی پیش بندی کی ہے کہ یہ سارا عمل آنیوالے وقت میں خود پاکستان کیلئے مشکلات کا باعث تو نہیں بنے گا اور یہ بارڈر مینجمنٹ واقعتا دہشتگردی کا سدباب کرسکے گی، سب سے اہم اور بنیادی سوال یہی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے کہ اس میں امریکہ کی نیت صاف ہو اور وہ افغانستان میں امن کے حوالہ سے دلچسپی ظاہر کرے ، اگر پاک افغان بارڈر پر دہشتگردوں کی پناہ گاہیں تباہ کردی جاتی ہیں تو یہ عمل دونوں فریقین کے فائدہ میں ہوگاجبکہ خود امریکہ کے افغانستان میں جو مفادات ہیں، انکا تحفظ بھی اسی میں ہے ،لہذاجب تینوں فریقین کے فوائد اسی میں ہیں تو پھر تینوں کوملکردہشتگردی کیخلاف جنگ کا بوجھ اٹھانا چاہئے اور بھارت کے عزائم سے خبردار رہنا چاہئے ، کیونکہ بھارت افغان سرزمین کو اپنے مذموم ایجنڈاخصوصاً’پراکسی وار‘کیلئے استعمال کرتا آیا ہے اور اس مرحلہ پر اسکی خاموشی ایک روایتی بدنیتی کی طرف اشارہ کررہی ہے ، لہٰذا ہمیں مغربی بارڈر پر آپریشن کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحدپر بھارت جیسے کمینے دشمن سے خبردار ہنا ہوگا،کیونکہ وہ پاکستان کو متعدد بار سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں دیتا آیا ہے ، جہاں تک پاک افغان بارڈر پر نئے آپریشن کا سوال ہے تو کیا اسے ’ضرب عضب‘کا دوسرا مرحلہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں