سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی آزمائش
بھار تی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو جو خصوصی درجہ حاصل تھا اسے یکلخت ختم کرکے بھارت نے پورے جنوبی ایشیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا ہے
(امتیاز گل)…بھار تی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر کو جو خصوصی درجہ حاصل تھا اسے یکلخت ختم کرکے بھارت نے پورے جنوبی ایشیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کردیا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ اور تقر یباً تمام کشمیری رہنماؤں کو نظربند کردیا گیا ہے ، پوری وادی کا دنیا بھر سے رابطہ منقطع کردیا گیا ہے ، بھارتی حکومت کو خطرہ ہے کہ اس کی یکطرفہ اور بلاجواز کارروائی کیخلاف کشمیری عوام زبردست احتجاج کرینگے اس لئے اس نے نہ صرف سڑک بلکہ ٹیلیفون کے ذریعے بھی باقی ماندہ بھارت اور دنیا کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کا رابطہ ناممکن بنادیا ہے ۔ یہاں بعض اہم اور بنیادی سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں، کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے تمام مستقل ارکان بھارت کو یہ اجازت دینگے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے ( غیر آئینی طور پر ختم کیے گئے ) خصو صی در جے اور اس کے مستقبل کے بارے میں پوری ڈھٹائی اور بے خوفی کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتا چلا جائے ؟ بالخصوص ایسی صورت میں کہ بھارت کا یہ اقدام بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کے مترادف بھی ہے ۔ درحقیقت بھارت کے اس اقدام نے بڑی طاقتوں بشمول امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی ساکھ کو بھی ایک سنگین چیلنج کا شکار کردیا ہے ، یہ بہت اہم سوال ہے کہ کیا یہ طاقتیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی اہمیت اور ان کی قوت نافذہ کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجائیں گی؟ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ چین بھارت کے اس اقدام کیخلاف اپنے شدید ردعمل کا اظہار پہلے ہی کرچکا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے ایک صدارتی حکم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اسے بھارت کا حصہ قراردینے کے جبری اقدام پر امریکہ کا کیا ردعمل ہوگا؟ کیا ٹرمپ انتظامیہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قراردادوں سے لاتعلقی اختیار کرکے کسی اور طرف دیکھ سکتی ہے ؟ یہ بات اس لئے اہم ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے بھارتی ترجمان کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ‘‘ (مقبوضہ) کشمیر کا بھارت سے الحاق اس کا اندرونی معاملہ ہے ’’ پاکستان کو اس بارے میں بہت واضح اور دوٹوک موقف اپنانا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ کسی طور بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ، کیونکہ اس مسئلے پر سلامتی کونسل کی وا ضح قرارداد موجود ہے جس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا ، لہٰذا یہ کسی شبہ کے بغیر1947 میں ہونیوالی تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے ۔ امریکہ کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اس وقت اصل سوال کشمیریوں کے حق خودارادیت کا ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ، اب سوال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اقوام متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق میں درج اصول کی حمایت کریں گے یا ہٹ دھرمی پر کاربند بھارت کیساتھ تعلقات کو ترجیح دینگے ؟ دوسری جانب یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ امریکی عہدیدار موجودہ پاک امریکہ تعلقات پر نہایت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ‘‘ دونوں ممالک کے مابین انتہائی گرمجوش شراکت قائم ہے ، یہ پارٹنرشپ افغانستان میں بہت مفید ثٖابت ہورہی ہے ’’ پاکستان اور امریکہ کے دوطرفہ تعلقات کے بارے میں امریکی انتظامیہ کے متعدد عہدیداروں نے بھی خوشگوار باتیں کی ہیں، انہوں نے یہ واضح تاثر دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ نئی ہم آہنگی پیدا ہوئی اور اس کی بدولت پاکستان کے ساتھ ایک نئی شراکت وجود میں آچکی ہے ، لیکن یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اگر پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام کی سلامتی کونسل میں اٹھایا تو یہ نئی شراکت آزمائش کا شکار ہو سکتی ہے ، یہ سوال بہت اہم ہے کہ ایسی صورت میں کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل میں امریکہ اور دیگر تین مستقل ارکان کا طرزعمل کیا ہوگا؟ یہی نہیں بلکہ رواں سال اکتوبر میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس بھی ہونیوالا ہے ، اس موقع پر بھی امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک جو کردار ادا کریں گے وہ بھی نہایت اہم بات ہے ، پی-5 اور بڑے یورپی ممالک کیلئے دونوں معاملات یہ موقع فراہم کریں گے کہ وہ اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے پاکستان کی علانیہ حمایت کریں ، ان ممالک کو احساس ہونا چاہیے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب انہیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں پر عملدرآمد کیلئے کردار ادا کریں یا پھر بھارت کے مذموم سیاسی اقدامات کی تائید کریں ، بالخصوص ایسی صورت میں کہ تنازعات کے تصفیے سے متعلق اقوام متحدہ کے قوانین کو بھارت نہایت بے اعتنائی اور بے خوفی کے ساتھ پامال کررہا ہے ، بلاشبہ موجودہ صورتحال پاکستان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کیلئے سرگرم اور بھرپور کردار ادا کرے ،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ صورتحال پی-5 ممالک کی ساکھ کیلئے بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔