قومی اسمبلی:اپوزیشن آپریشن عزم استحکام کی مخالف:یہ احتجاج کرکے دہشت گردوں کیساتھ کھڑے ہیں:وزیردفاع

قومی اسمبلی:اپوزیشن آپریشن عزم استحکام کی مخالف:یہ احتجاج کرکے دہشت گردوں کیساتھ کھڑے ہیں:وزیردفاع

اسلام آ باد (نامہ نگار،دنیا نیوز، مانیٹرنگ، آئی این پی )قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے فاٹا میں ‘آپریشن عزم استحکام’ کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج اور سپیکر ڈائس کا گھیرائو کیا۔

اپوزیشن ارکان نے وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران شور شرابا کرتے ہوئے فاٹا آپریشن بند کرو ، چور چور اور فارم 47 کے نعرے لگائے ، اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث خواجہ آصف نے اپنی تقریر روک دی،سرکاری ٹی وی کی جانب سے نشریات کی آواز کو بند کردیا گیا ۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ بلیک میلنگ ہورہی ،یہ احتجاج کرکے دہشت گردوں کیساتھ کھڑے ہیں، یہ ہمیں گالیاں نکال رہے ، یہ آج بھی اور کل بھی 9 مئی والے ہی ہیں، انکا لیڈر بھی پینترے بدلتا تھا،شہریار آفریدی نے اسد قیصر، عمر ایوب،بیرسٹر گوہر کودو نمبرکہا جس پر پی ٹی آئی رہنما شہر یار آفریدی نے کہا کہ جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو، وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن نہیں چاہتی طالبان کے خلاف آپریشن ہو،دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کوئی بیڈ طالبان یا گڈ طالبان نہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب نے کہا کہ ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں،آپریشن کی حمایت نہیں کرتے ،وزیر دفاع تو ہے ہی اینٹی پاکستان اور اینٹی فوج ۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ایپکس کمیٹی میں وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے کوئی اختلاف نہیں کیا، آپریشن عزم استحکام کو پوری قوم کی تائید و حمایت حاصل ہے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے تحفظات کی کوئی حیثیت نہیں۔ وزیراعظم جلد پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے حوالے سے کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں کی لیڈر شپ کو اعتماد میں لیں گے ۔اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ آپ کے وزیراعظم کی طرح ناراض ہوکر ہمارا وزیراعظم باہر نہیں بیٹھے گا بلکہ پوری کابینہ کے ساتھ ایوان میں موجود ہوگا۔ایوان میں قومی سلامتی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس بلایا جائے گا،عزم استحکام آپریشن کیسے کیا جائے گا؟ اس پر بحث کریں گے ۔ عزم استحکام آپریشن سے متعلق وزیردفاع بات کرنا چاہتے تھے لیکن اپوزیشن نے بات نہیں کرنے دی۔پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے مطالبہ کیا کہ بے نظیر کے قتل، سائفر اور 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ۔ اتوار کو وزیر دفاع خواجہ آصف نے شور شرابے کے دوران اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملے ہمارے لیے باعث شرمندگی ہیں، اس پر سب کا اتفاق رائے ہونا چاہیے ۔ اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث خواجہ آصف نے اپنی تقریر روک دی، ڈپٹی سپیکر سید غلام مصطفی شاہ نے کہا خواجہ صاحب! آپ اپنی تقریر جاری رکھیں، خواجہ صاحب! آپ بات کریں آپ کا مائیک کھلا ہے ۔

بعد ازاں خواجہ آصف نے کہا کہ یہ تو بلیک میلنگ ہورہی ہے ، یہ ہمیں گالیاں نکال رہے ہیں، ابھی کل والی گالی کا مسئلہ حل نہیں ہوا یہ مزید گالیاں دے رہے ہیں۔ اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ جے یو آئی (ف)کے اراکین نے بھی احتجاج میں حصہ لیا،اپوزیشن رہنمائوں نے ہمیں امن چاہیے کے نعرے بھی لگائے ۔ اس دوران وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ احتجاج کر کے یہ پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، شہدا کے خلاف کھڑے ہوگئے ، میں ایک ایسے مسئلے پر بولنا چاہتا ہوں جو سیاسی مسئلہ نہیں، وہ تنازع نہیں بلکہ ایسا مسئلہ ہے جس پر کسی کا بھی اختلاف نہیں ہوگا، یہاں اقلیتوں کو قتل کیا جارہا ہے ، یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے ، ہم اس کی وجہ سے شرمندہ ہورہے ہیں مگر یہ ہمیں بولنے نہیں دے رہے ۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہاں گالیاں دی جارہی ہیں، یہ سیاست کر رہے ہیں، پاکستان میں کوئی مذہبی اقلیت محفوظ نہیں، ہم مسلمانوں کے اندر جو چھوٹے فرقے ہیں وہ بھی محفوظ نہیں، یہ ایسی بات ہے کہ سب کو شرمسار ہونا چاہیے مگر ان کو شرم و حیا نہیں آرہی ۔ خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے چور چور اور فارم 47 کی نعرے بازی کی۔ بعد ازاں وزیر دفاع نے بتایا کہ ہم ایک قرارداد لانا چاہتے ہیں تاکہ اقلیتیں محفوظ رہ سکیں ، اپوزیشن والے اس موضوع کا گلہ گھونٹ رہے ہیں، یہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں، ، اقلیتوں کے قتل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ، ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، لوگ ذاتی جھگڑوں پر توہین کا الزام لگا کر لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام لوگوں کو یکجا ہوجانا چاہیے ۔

انہوں نے بتایا کہ کل عزم استحکام کی ایپکس کمیٹی نے اجازت دی۔سب کو پتا ہے کہ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد ایپکس کمیٹی بنائی گئی اس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی، ہم اس کو بحال کر رہے ہیں، اس کو کابینہ میں لے کر جارہے ہیں، ہم اسے ایوان میں بھی لے کر آئیں گے ، ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اس کو نشانہ بنایا جا سکے ، ان کو اعتراض ہے تو جب یہ مسئلہ ایوان میں آئے گا تب بھی اس پر بول سکتے ہیں، مگر یہ لوگ اپنی سیاسی اوقات دکھاتے ہیں، کل کی میٹنگ میں وزیر اعلٰی خیبرپختونخوا موجود تھے ، ان کے سامنے سب بات ہوئی، آج یہ دہشتگردوں کے ساتھ کھڑے ہیں احتجاج کر کے ۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ احتجاج کر کے یہ پاک فوج کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، شہدا کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں، یہ آج بھی 9 مئی پر کھڑے ہیں، ان کا یہ کہنا کہ فوج، ملک اور شہدا ہمارے ہیں تو یہ سب جعلسازی ہے ، یہ آج بھی اور کل بھی 9 مئی والے ہی ہیں، یہ مفادات کے لیے پینترے بدلتے ہیں، ترلے کرتے ہیں، پیر پڑتے ہیں اور گالیاں بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف اپنی سیاست کے ساتھ ہیں، یہ ملک اور آئین کے ساتھ نہیں، یہ اپنا چہرہ دکھا رہے ہیں، اپنی اوقات دکھا رہے ہیں، جو ان کا لیڈر اندر ہے وہ بھی پینترے بدلتا تھا، کبھی وہ باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن دیتا تھا تو کبھی ان کو گالیاں نکالتا تھا، ان کی جماعت کے لوگ ہم سے ٹکٹ مانگتے تھے ، جب ہم نے نہیں دیا تو آج یہاں کھڑے ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کے آزاد اراکین نکتہ اعتراض پر بولنے کی اجازت نہ ملنے پر قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کرگئے تاہم حکومتی ارکان کچھ دیر بعد انہیں مناکر واپس لے آئے ۔

بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے ایوان میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر ہاؤس کا کسٹوڈین ہوتا ہے ، آپ دباؤ میں ہیں، آپ اپنی پارٹی کا دفاع کرتے ہیں، بس بہت ہوگیا۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں۔ جو ہمارا پوائنٹ آف آرڈر تھا وہ اس ملک اور ایوان کا مسئلہ ہے ، ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ ایک فیصلہ ہوا ہے ایپکس کمیٹی نے کیا ہے ، ہم کہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بھی آپریشن ہوئے اس پارلیمان نے اس کے پیرا میٹرز طے کیے تھے ، تو ہمارا پوائنٹ آف آرڈر تھا کہ حکومت اتنا بڑا فیصلہ کرنے جارہی ہے ، اس ایوان میں سینیٹ میں پہلے بھی عسکری قیادت نے آکر بریفنگ دی ، یہ ایوان جیسا بھی ہے ہے یہ ایوان، کوئی ایپکس کمیٹی پارلیمان سے بالاتر نہیں۔ ہم چاہتے ہیں ایوان کی بالادستی قائم ہو ۔حکومت نے کسی بھی نکتے پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا، لیکن اس مرتبہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قیادت پہلے ان کیمرا بریفنگ دے پھر کوئی کارروائی ہو۔بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان کا مسئلہ تھا تو کیا ہم نہیں بیٹھے ان کے ساتھ؟ ہم پاکستان دوست ہیں، ہمارا پوائنٹ آف آرڈر ابھی بھی ملٹری آپریشن پر ہے اس پر ہمیں توجہ دلانی ہے ۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا بجٹ تقریر کے دوران کوئی قرارداد اسمبلی میں نہیں پیش کی جاسکتی، اگر اس کی اجازت دی بھی گئی تو اس پر بحث نہیں ہوسکتی، اور مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ اس ایوان میں کتنے حزب اختلاف ہیں؟ یہاں تو اسسٹنٹ اور ڈپٹی حزب اختلاف بھی موجود ہیں۔ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ میں یہاں احتجاج کر رہا ہوں، ہم بھاری اکثریت لے کر یہاں آئے ہیں، عمر ایوب نے کہا کہ وزیر دفاع تو ہے ہی اینٹی پاکستان اور اینٹی فوج۔

بعد ازاں وزیر دفاع نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کل شہریار آفریدی صاحب نے ان کو دو نمبر لوگ کہا ہے ، یہ سارے ان کے مطابق کمپرومائزڈ ہیں، انہوں نے ان کا نام لیا ہے ، انہوں نے اسد قیصر، عمر ایوب، گوہر خان سب کا نام لیا ہے اور کہا کہ یہ دو نمبر لوگ ہیں۔اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے شہر یار آفریدی نے کہا کہ وزیر دفاع نے بہت بڑا الزام لگایا ہے ، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ، 75 سال کی عمر میں یہ کیا باتیں کر رہے ہیں، یہ میرا اپوزیشن لیڈر ہے ، وزیر دفاع اگر آپ میں ذرا حیا ہوتی تو آپ یہاں نہ ہوتے ، میری ماں ریحانہ ڈار کو سلام۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ہمیں اس ایوان کو سمجھنا چاہیے ، میری طبیعت نہیں کہ کسی چیز کو بلڈوز کریں، ریاست کی رٹ قائم ہونی چاہیے ، آپریشن عزم استحکام کے معاملے پر وزیر دفاع نے بات کی لیکن آپ نے ایک لفظ نہیں سنا، کل ایپکس کمیٹی میں آپ کے وزیر اعلٰی پختونخوا بھی موجود تھے تو انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ کابینہ اور ایوان میں آئے گا ۔وزیراعظم جلد پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے حوالے سے کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں کی لیڈر شپ کو اعتماد میں لیں گے ۔ ہمارا وزیر اعظم یہاں بیٹھے گا آپ کے وزیر اعظم کی طرح ہم باہر نہیں بیٹھیں گے ، ہم کوئی چیز چھپ کر نہیں کرتے ، ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں۔ پی ٹی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ جو بھی حکومت آتی ہے جو کرنے والا کام ہے وہ نہیں کرتی، ہم کہیں گے برا بجٹ ہے ، یہ کہیں گے اچھا بجٹ ہے لیکن قائد اعظم نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں بینکاری نظام کو اسلامی خطوط پر استوار کرنا ہو گا، انہوں نے کہا کہ ہم سود کو چھوڑ دیں گے تو سارے بجٹ ملک و قوم کی ترقی کے بجٹ ہوں گے ، پھر چاہے وہ بجٹ مسلم لیگ(ن) بنائے ، پیپلز پارٹی بنائے یا ہم خان صاحب بنائیں، ہم 75 سال سے اللہ اور رسولؐ سے جنگ کررہے ہیں پھر کہتے ہیں غربت کیوں ہے ۔

علی محمد نے کہا کہ اپنی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے لیکن وزیر قانون صاحب پالیسی سازی کون کرے گا، قائد اعظم نے کہا تھا کہ مسلح افواج اس ملک کے عوام کی خدمت کے لیے ہیں، بے نظیر کے قتل، سائفر اور 9مئی پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے ، 90 میں بے نظیر اور 93 میں نواز شریف کی حکومت کیوں ختم کی گئی ۔ تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ کتنی بے نظیر، کتنے لیاقت علی خان، کتنے بھٹو قربان کرو گے ۔ وفاقی وزیراطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن نہیں چاہتی کہ طالبان کیخلاف آپریشن ہو۔ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو شیڈو بجٹ پیش کرتے تھے ، افسوس تنقید برائے تنقید کی جاتی ہے ، بجٹ سیشن کی کچھ روایات ہیں جو کئی دہائیوں سے چلی آرہی ہیں۔عطا تارڑ نے کہا کہ شیڈو بجٹ بنانے میں بہت محنت لگتی ہے ، اپوزیشن والے نعرے لگاتے ہیں، شیڈو بجٹ بنانے کی جسارت نہیں کریں گے ، مستی خیل ہمارے پانچ سال ایم پی اے رہے ، ثنا اللہ مستی خیل نوازشریف کوآقا، مائی باپ کہتے تھے ، کل جو کچھ اس ایوان میں ہوا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مدین میں شواہد کے بغیر ایک انسان کو قتل کر دیا گیا، سری لنکن منیجر کو مذہب کے نام پر قتل کر دیا گیا، سری لنکن منیجر کا کیا قصورتھا؟ انہوں نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جوطالبان کو واپس لیکر آئے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گڈ اوربیڈ طالبان کی بحث کس نے شروع کی تھی ایوان کو بتایا جائے ، جب کسی کو طالبان کی گولی لگتی ہے تو اس پر گڈ، بیڈ طالبان نہیں لکھا ہوتا، کل آپریشن عزم استحکام کی منظوری دی گئی، یہ معاملہ کابینہ میں بھی آئے گا۔

عطا تارڑ نے مزید کہاکہ عزم استحکام آپریشن سے ہم نے ملک کو محفوظ بنانا ہے ، چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے ، آج ایک قرارداد پیش کی گئی ہے ، کیا ہی اچھا ہوتا اس قرارداد کے حق میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ، ہم نے سرمایہ کاروں کے لئے ملک کومحفوظ بنانا ہے ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ یہ طالبان کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، اپوزیشن والے گالم گلوچ کے بجائے کوئی ایسی تجاویز لائیں جس پر ہم عمل کر سکیں مگر ان میں ایسی قابلیت نہیں، یہ چاہتے ہیں پاکستان میں عدم استحکام رہے ۔علاوہ ازیں بجٹ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کابجٹ ہے ، تھر پارکر کے لوگوں کو سہولیات دینی چا ہئیں ۔ شاہد ہ اختر علی نے کہاکہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جس کی مخالفت بھی مجبوری ہے اور تعریف بھی مجبوری ہے ۔ آئی پی پیز کو کیوں زیادہ مراعات دی جارہی ہیں ، کیاان کا آڈٹ ہوا ہے ، ایم کیو ایم کے امین الحق نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کچھ وعدے کئے ہیں وہ پورے کیے جائیں۔ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے کہا کہ دو کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں، بچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر رہے ہیں سہولیات نہیں۔ 2010 اور 2022 سے بھی زیادہ سیلاب کا خدشہ ہے اس معاملے پر بحث ہونی چاہئے لیکن کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دی جارہی۔پیپلزپارٹی کی شازیہ مری نے کہاکہ سندھ میں بجلی نہ دے کر آپ تعصب پھیلا رہے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بھیک نہیں یہ سماجی تحفظ کاپروگرام ہے ۔

علاوہ ازیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ کسی بھی آپریشن کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔ اسد قیصر نے کہا کہ ہم کسی طور پر آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے ، اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے ، آپ اتنا بڑا فیصلہ کر رہے ہیں مگر پارلیمان کو خاطر میں نہیں لاتے تو یہ اتنا بڑا پارلیمان کس لیے ہے ؟ بہت سے آپریشنز ہوچکے ہیں، آج تک کونسا آپریشن کامیاب ہوا ہے ؟ ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف ہیں، ایک طرف یہ آپریشن کر رہے دوسری طرف فاٹاا ور پاٹا پر ٹیکس لگا رہے ہیں۔ عمر ایوب نے بتایا کہ چین سے آئے ساتھیوں نے واضح طور پر کہا تھا سی پیک پر سکیورٹی خدشات ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کو پوری قوم کی تائید و حمایت حاصل ہے اس حوالے سے پی ٹی آئی کے تحفظات کی کوئی حیثیت نہیں۔ وزیراعظم جلد پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے حوالے سے کمیٹی کے اجلاس میں تمام جماعتوں کی لیڈر شپ کو اعتماد میں لیں گے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا تعلق قومی سلامتی اور سکیورٹی معاملات سے ہے ۔ اس میں سیاست کی کوئی گنجائش نہیں اور ایپکس کمیٹی میں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، گلگت بلتستان اور کشمیر کی قیادت سمیت تمام شرکانے اس کی تائید کی اور اب قومی قیادت کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں