مخصوص نشستیں: پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں جاکر خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس

مخصوص نشستیں: پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں جاکر خودکشی کیوں کی؟ چیف جسٹس

اسلام آباد(حسیب ریاض ملک)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے دوسری جماعت میں جاکر خودکشی کیوں کی؟ میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔۔۔

 عمران خان بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کے معاملے کو برے طریقے سے ہینڈل کیا،جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد قرار دیا تو یہ خطرناک تشریح ہے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13رکنی فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر برہ راست نشر کی گئی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے کہا آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں ان کو عوام نے ووٹ دیا ، ایسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیئے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے ، سنی اتحاد کونسل تو پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی، لیکن ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے ، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ، پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو اس نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی؟ چیف جسٹس نے کہا اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے ۔جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا آزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر تین دن میں سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتے ہیں تو ضرور اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے ۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے ؟چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمے میں کہا ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے ، آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپکے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے ،آئین پرعمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے ، ہم نے کسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے ، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ فیصل صدیقی نے کہا اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئے کوئی چوائس نہیں ، چیف جسٹس نے کہاکہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا صرف آئین پر رہیں۔ ہمارے آئین کو بنے 50 سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں، کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔

مشکل سے ملک پٹڑی پر آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے ، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے ، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا، کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے کہا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، اسکا انتخابی نشان ہے کیا، فیصل صدیقی نے کہا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے ، چیف جسٹس نے کہا سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی ؟ فیصل صدیقی نے کہا جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے ، چیف جسٹس نے کہاجی بالکل آئین یہی کہتا ہے ، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں، پی ٹی آئی کے صدر تھے تو انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے ، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے ،کسی پر ایسے انگلیاں نہ اُٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے ، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے ، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انہیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے ۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جس کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں،چیف جسٹس نے کہا جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیسا فرق ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے ؟ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لئے رکھا گیا ہے وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔جسٹس میاں علی مظہر نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر وہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے ، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر گوہر نے کہا کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کو اسکی جیتی ہوئی سیٹیوں سے زیادہ نہیں دی جاسکتیں۔چیف جسٹس نے کہا آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے ، آپ دکھائیں کہ سنی اتحاد نے کیا پارٹی لسٹ دی؟ فیصل صدیقی نے کہا مخصوص وقت میں الیکشن کمیشن کو لسٹ نہیں دی شیڈول کا مسئلہ ہے سیکشن کا نہیں، سیکشن 104 کی ذیلی شق چار کے مطابق کسی جماعت کی ترجیحی فہرست ختم ہونے پر نیا شیڈول دیا جا سکتا ہے ۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا آپ نے بتانا ہے کہ آپ سیاسی جماعت ہیں، لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے ، اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت نہیں تو کیا آزاد امیدوار دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گے یا صرف اپنے امیدوار ہی ملیں گے ۔ فیصل صدیقی نے کہا سیاسی جماعت کو جیتی گئی سیٹوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں جبکہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں، سپریم کورٹ کو دیکھنا ہے کہ خالی نشستوں کو کیسے فِل کرنا ہے ۔جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے ؟ فیصل صدیقی نے کہا خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے ، چیف جسٹس نے کہا پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں، کیا آپکی پارٹی کا آئین، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔فیصل صدیقی نے کہا میں اس سوال کا جواب اسلئے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام ہوجاتا پھر بھی معاملہ حل ہوتا مگر وہ بھی نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہا آپ جے یو آئی کو بھی جوائن کر سکتے تھے ، اچکزئی صاحب کی جماعت میں بھی جا سکتے تھے ، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا ہمیں ایسی جماعت کی تلاش تھی جس کے ساتھ چل سکیں کل وہ ہم میں ضم ہو سکے ۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے آئین پر جو اعتراض ہمارے سامنے رکھا اس پر کبھی آپ کو نوٹس کیا تھا؟ فیصل صدیقی نے کہا الیکشن کمیشن نے کبھی سنی اتحاد کونسل کو نوٹس نہیں کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاسنی اتحاد کونسل ابتک رجسٹرڈ جماعت ہے ، الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی تھی وہ ہاؤس مکمل کرتا، چیف جسٹس نے کہا آئین کی بات کریں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پھر حقیقت بتائیں آئین کے تحت کب یہ ملک چلا؟ چیف جسٹس نے کہا وقت آگیا ہے کہ آئین کے مطابق ہی ملک چلے ، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم یہاں بیٹھے کیوں ہیں؟اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کے مطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ وہ عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا، چیف جسٹس نے کہاکنول شوزب کس کی طرف سے ہیں، پی ٹی آئی کا تو کیس ہی نہیں ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے ، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں شامل ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا ہم سے سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں،میری مؤکلہ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی،کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یہ بہت اہم معاملہ ہے بنیادی حقوق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جسٹس میاں علی مظہر نے کہا آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے ، چیف جسٹس نے وکیل سلمان اکرم سے مکالمے میں کہا آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سلمان راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے ، اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے ، ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔ جسٹس منصور شاہ نے کہا میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کے خلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے ؟ وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی۔چیف جسٹس نے کہا آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم، اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے ۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیر مؤثر ہوگیا، جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے ؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا سنی اتحاد کونسل اگر بیان دے کہ کنول شوزب ان کی امیدوار ہوں گی تو درخواست سن سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے سلمان اکرم سے کہا آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں، سلمان اکرم نے جواب دیا کہ میں کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟ آئین کی زبان ہی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے پارلیمانی میں نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا پارلیمانی پارٹی تو اس وقت ابھی موجود نہیں ہوتی اس لیے ایسا ہے ، چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے ، ہم اگر مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا، کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہایہاں عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، مکمل سچ کوئی نہیں بولتا۔

چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتا تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب کا سیدھا سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے ، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد ڈکلیئر کیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابی نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی، ایک عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کا خمیازہ عوام کیوں بھگتیں، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح کو درست کیا جانا چاہیے تھا، میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے ، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے ۔جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کریں، پھر سارا حق امیدوار کو کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی بھی جماعت میں جائے ؟ آپ ہم سے ایسی چیز پر مہر لگوانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں سیاسی انجینئرنگ کا راستہ کھولے ؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیاجاتاہے ، دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا یا آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے ، اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو۔

چیف جسٹس نے کہا آئین کے ہر لفظ کی ایک اہمیت ہے ، وکیل سلمان اکرم نے کہا جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے ،وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی، عوام کو معلوم ہونا چاہیے کون امیدوار ہیں، کون سی سیاسی جماعتیں ہیں، عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں آئی نہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور پڑھے نہیں ہوئے ، مفروضہ لے لیتے ، ایک ارب پتی نے سیاسی جماعت خرید لی، ہوتاہے نا ایسے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بزنس مین سیاسی جماعت خرید کر اپنی طرف آزاد امیدواروں کو کرلے تو کیا ایسا پاکستان میں دکھانا چاہتے ؟ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 86 امیدواروں کو پی ٹی آئی ووٹرز نے ووٹ دیا، 86 امیدواروں کو کیوں لگا کہ ایک ہی جماعت سے منسلک ہونا ہے ، قانون کے مطابق آزاد امیدواروں کو حق تھاکہ کوئی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیں۔سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا، جس کے مطابق سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی اور کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل مکمل کر لیے ، سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا کے کاغذات نامزدگی طلب کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت آج صبح ساڑھے 9بجے تک ملتوی کردی،عدالت نے آج سماعت مکمل کرنے کا عندیہ دے دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں