آئی پی پیز کیساتھ معاہدے فوری منسوخ کریں:ایس ایم تنویر

 آئی پی پیز کیساتھ معاہدے فوری منسوخ کریں:ایس ایم تنویر

لاہور (کامرس رپورٹر) سرپرست اعلیٰ یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی)اور سابق نگراں صوبائی وزیر برائے صنعت و تجارت اور توانائی ایس ایم تنویر نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے۔

کہ وہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ تمام معاہدوں کو فوری طور پر منسوخ کرے اوربغیر کسی کپیسٹی چارجز کے سستے ذرائع سے بجلی حاصل کی جائے ۔ایس ایم تنویر نے بجلی کے بے تحاشا نرخوں کی وجہ سے مختلف صنعتی شعبوں میں بڑے پیمانے پر بندش کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہو گا، آئی پی پیز کو 20کھرب روپے کے کپسٹی چارجز کی ادائیگیوں نے ملک کی معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے ، حکومت فیصلہ کن اقدام اٹھائے اس سے پہلے کہ موجودہ مایوسی مکمل معاشی تباہی کی طرف لے جائے ،انہوں نے آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے تنقید کی کہ آئی پی پیز کو بجلی پیدا یا سپلائی نہ ہونے کے باوجود ادائیگی کی جا رہی ہے ، یہ کپیسٹی چارجز کل لاگت کا دو تہائی ہیں، باقی ایک تہائی ایندھن کے اخراجات پر مشتمل ہے ،پچھلی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی پی پیز ڈالر کے لحاظ سے 73 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری پر واپسی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جو کہ بین الاقوامی معیار کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ شرح ہے ، پاکستان کا توانائی کا شعبہ 1994 کی پاور پالیسی کے بعد سے آئی پی پیز کے ساتھ مشکل کنٹریکٹ کے انتظامات میں پھنسا ہوا ہے ، ابتدائی طور پر نجی سرمایہ کاری کو راغب کر کے توانائی کے بحران کو کم کرنے کیلئے بنائے گئے ان معاہدوں نے گردشی قرضے میں اضافہ کیا، جو کہ فروری 2024 میں 26کھرب40ارب روپے تک پہنچ گیا،آئی پی پیز کو فراہم کیے جانے والے ترغیبی ڈھانچے ، بشمول امریکی ڈالر کے حساب سے گارنٹیوں کا مطلب ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی پی پیز کے لیے منافع میں اضافہ کرتی ہے۔

جس سے حکومت اور عوام پر بھاری مالی بوجھ پڑتا ہے ، اگرچہ آئی پی پیز کیلئے ایکویٹی پر منافع ابتدائی طور پر 18فیصد مقرر کیا گیا تھا اور بعد میں 2002 کی پاور پالیسی میں اسے کم کر کے 12فیصد کر دیا گیا، لیکن یہ عالمی معیارات کے مقابلے میں بلند ہے ، مزید برآں، دوسرے ممالک میں اسی طرح کے منصوبوں کے ساتھ لاگت کا موازنہ بتاتا ہے کہ بہت سے آئی پی پیز کو کیپیٹل گڈز پر فلائیٹڈ انوائسنگ کے ذریعے فنڈز فراہم کیے گئے ، جس کے نتیجے میں کوئی حقیقی بنیادی ایکویٹی نہیں ہے ، نتیجتاً، پاکستان گھوسٹ ایکویٹی پر دائمی منافعوں کے بوجھ تلے دب گیا ہے ۔مزید برآں، آئی پی پیز کی جانب سے اہم غلط رپورٹنگ اور اوور بلنگ نے اس مسئلے کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ ان کے ٹیرف کی ضمانت بین الاقوامی قانون کے تحت ٹیک یا پے کنٹریکٹ کے تحت دی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر، تیل پر مبنی کئی پلانٹس کی اصل تیل کی کھپت آئی پی پیز کے بل سے کم ہے ۔ ان تضادات کا آڈٹ کرنے کی کوششوں میں اکثر آئی پی پیز قانونی ذرائع جیسے کہ سٹے آرڈرز کے ذریعے رکاوٹ بنتے رہے ہیں۔ اسی طرح، آپریشن اور دیکھ بھال کے اخراجات بہت زیادہ ہیں جہاں اصل خرچہ 50کروڑ روپے ہے ، اس کا بل ایک ارب 50کروڑ سالانہ ہے ۔ایس ایم تنویر نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر حکومت کی جانب سے بروقت کارروائی نہ کی گئی تو بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافہ شہری بدامنی اور تاجر برادری میں عدم اطمینان کو جنم دے گا۔ انہوں نے آئی پی پی معاہدوں پر ایک جامع نظرثانی، قانونی حدود کے اندر قیمتوں کا از سر نو جائزہ لینے اور اوور انوائسنگ کو روکنے کیلئے بہتر نگرانی پر زور دیا۔ انہوں نے غلط معلومات اور دھوکا دہی سے متعلق شقوں کیلئے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی جانچ کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ایس ایم تنویر نے امید ظاہر کی کہ وفاقی حکومت جلد ہی آئی پی پیز سے نمٹنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے گی اور قومی مفاد میں صنعت کیلئے بجلی کی سستی قیمتوں کو یقینی بنائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں