کسی سیاسی جماعت کے مخالف ہیں نہ طرفدار،فیض حمید نے سیاسی عناصر کے ایما پر آئینی حدود سے تجاوز کیا،جو بھی ملوث ہو کارروائی ہوگی:فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں:فوجی ترجمان

کسی سیاسی جماعت کے مخالف ہیں نہ طرفدار،فیض حمید نے سیاسی عناصر کے ایما پر آئینی حدود سے تجاوز کیا،جو بھی ملوث ہو کارروائی ہوگی:فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں:فوجی ترجمان

اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا فوج کسی سیاسی جماعت کیخلاف ہے نہ کسی کی طرف دار اور نہ ہی فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے مخصوص سیاسی عناصر کے ایما پر قانونی و آئینی حدود سے تجاوز کیا۔

کیس میں جو بھی ملوث ہو، خواہ اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر )کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی)لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا پریس کانفرنس کا مقصد قومی سلامتی کے معاملات، خطے کی داخلی سلامتی سے جڑے معاملات اور دہشت گردی کے خلاف کیے گئے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے ، سب سے پہلے فتنہ الخوارج اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کی گئی کارروائیوں کا جائزہ پیش کرنا ہے ، دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف اس سال 32 ہزار 173 آپریشنز کیے ،90 خوارج کو ہلاک کیا،روزانہ کی بنیاد پر 130 سے زائد آپریشن کیے جا رہے ہیں، ان آپریشنز کے دوران 193 افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، آخری خارجی اور دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ 20 اگست سے وادی تیراہ میں فتنہ الخوارج، نام نہاد کالعدم تنظیم لشکر اسلام اور جماعت الاحرار کے خلاف کامیاب آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں فتنہ الخوارج کو بڑا دھچکا لگا، انتہائی مطلوب خارجی ابوذر المعروف صدام سمیت 37 خوارج کو ہلاک کیا گیا جبکہ 14 دہشت گرد زخمی ہوئے ، اس دوران ہمارے 4 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔25 اور 26 اگست کی رات دہشت گردوں نے بلوچستان میں کارروائیاں کیں، یہ کارروائیاں اندورن، بیرون ملک دہشت گردوں کے ایما پر کی گئیں، ان کا مقصد معصوم اور بے گناہ افراد کو نشانہ بنا کر بلوچستان کے پرامن ماحول اور ترقی کو متاثر کرنا ہے۔

فورسز نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 21 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، اس دوران 14 جوان شہید ہوئے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ بلوچستان کے عوام میں احساس محرومی اور ریاستی جبر کا تاثر بھی پایا جاتا ہے ، جس کو بیرونی ایما پر مخصوص عناصر منفی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ اس کو اس لیے اسپلائٹ کرتے ہیں تاکہ بلوچستان میں ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کا جاری عمل خوف و ہراس کے ذریعے متاثر کیا جا سکے ،جب دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی، جب ترقی نہیں ہوگی تو اس سے احساس محرومی اور ریاستی دراندازی کا بیانیہ مزید بڑھے گا، دہشت گردوں کے سر پرست ریاست کو مزید مورد الزام ٹھہرائیں گے اور گھناؤنے عمل کو جاری رکھ سکیں گے ، 25، 26 اگست کی رات کو ہونے والے واقعات اسی بیرونی فنڈنگ پر چلنے والے کھیل کا حصہ تھے ،یہ کرنے والوں، کرانے والوں کا انسانیت اور بلوچ اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے ، نہتے شہریوں کو ظلم کا نشانہ بنانا اور اس پر فخر ان کی ذہنیت اور مایوسی کی عکاسی ہے ، دہشت گردوں کو واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ شہریوں کے جان و مان اور ترقی کے دشمنوں سے ریاست آہنی ہاتھوں سے نمٹے گی، پاک فوج خود احتسابی کے عمل پر یقین رکھتی ہے۔

اس کا خود احتسابی کا نظام انتہائی جامع اور مضبوط عمل جو ٹائم ٹیسٹڈ ہے ، یہ الزامات کے بجائے ، ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر کام کرتا ہے ، جب بھی فوج میں قائم قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو یہ خود کار نظام حرکت میں آتا ہے ، 12 اگست کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے حوالے سے بتایا گیا تھا، ریٹائرڈ افسر کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں باضابطہ طورپر درخواست موصول ہوئی، اپریل 2024 میں پاک فوج کی طرف سے اعلیٰ سطح کی کورٹ آف انکوائری کا حکم دیا گیا، تاکہ مکمل تحقیقات کی جاسکیں۔ ٹھوس شواہد پر مبنی تفصیلی انکوائری مکمل ہونے کے بعد 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزیاں کی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی جانب سے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزیوں کے متعدد واقعات بھی سامنے آئے ، ان بنیادوں پر کورٹ مارشل کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے ، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان آرمی قومی فوج ہے ، اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے ، نہ یہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے ، نہ طرفدار، فوج کا ہر حکومت کے ساتھ پیشہ ورانہ تعلق ہوتا ہے جو آئین اور قانون میں مناسب طور پر بیان کیا گیا ہے ، اگر فوج میں کوئی شخص اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کام کرتا ہے یا اپنے ذاتی فائدے کیلئے کسی مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھاتا ہے تو پاک فوج کا خود احتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے ، ثبوت اور شواہد کی روشنی میں ذمے داروں کو ان کے اعمال کا جوابدہ ہونا پڑتا ہے ، جاری عمل اس بات کی ایک اور دلیل ہے ، پاک فوج میں واضح اتفاق رائے ہے کہ فوج کو بحیثیت ریاستی ادارہ کسی بھی سیاسی مفاد کی تکمیل کے طور پر استعمال سے محفوظ رکھا جائے گا، متعلقہ افسروں کو قانون کے تحت مرضی کا وکیل کرنے ، اپیل سمیت دیگر حقوق حاصل ہوں گے ، فیض حمید کیس اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ پاک فوج ذاتی اور سیاسی مفادات کیلئے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدگی سے لیتی ہے اور بلا تفریق قانون کے مطابق کارروائی کرتی ہے ۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کی بلا تفریق خود احتسابی باقی اداروں کو بھی ترغیب دیتی ہے کہ اگر ذاتی یا سیاسی مقاصد کے لیے کوئی اپنے منصب کو استعمال کرتا ہے تو اس کو وہ بھی جوابدہ کریں گے ، ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد ہی ان کا بہترین سرمایہ ہے ،اس سوال پر کہ فیض حمید اور ان کے کورٹ مارشل کی کارروائی آگے بڑھنے کے دوران پی ٹی آئی کی جانب سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو فوجی تحویل میں لیا جا سکتا ہے ، یا ان کے خلاف فوجی ایکٹ تحت کارروائی ہوسکتی ہے ، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا یہ ایک زیر سماعت معاملہ ہے اور آپ کا سوال مفروضوں پر مبنی ہے لیکن میں آپ کو یہ ضرور کہوں گا کہ فوجی قانون کے مطابق کوئی بھی شخص، اگر کسی فرد یا افراد کو جو آرمی ایکٹ کے تابع ہو، ان کو ذاتی یا سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرے اور اس کے ثبوت اور شواہد موجود ہوں تو قانون اپنا راستہ خود بنا لے گا۔ایک اورسوال پر انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس فیض حمید کیس میں جو بھی ملوث ہو، خواہ اس کا کوئی بھی عہدہ یا حیثیت ہو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔اس سوال پر کہ فیض حمید کو آئی ایس آئی میں عہدے پر لایا جا رہا تھا تو اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ جڑ جائیں گے ؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ آئی ایس آئی کا ڈائریکٹ باس وزیر اعظم ہوتا ہے ، آپ نے اس وقت کے وزیر اعظم کا ذکر نہیں کیا،انہوں نے کہا ہمارا احتساب کا عمل بالکل شفاف اور کڑا ہے لیکن یہ محض الزامات پر کام نہیں کرتا وہ ثبوت اور شواہد پر کام کرتا ہے ، اس میں اگر کوئی بھی فرد کسی عہدے پر کسی رینک پر ہو، اگر وہ قواعد و ضوابط اور قانون سے باہر جاتا ہے تو فوج کا خود احتسابی کا عمل ہے یہ اس کو واپس قانون کے قاعدے میں لے کر آتا ہے ۔

اس خاص کیس کے اندر جو خود کو ذاتی فائدہ پہنچانے کیلئے کام کیے گئے ان کے جو ثبوت اور شواہد ہیں جو انکوائری ہے اس کے سامنے ہیں، ہماری پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ ریٹائرڈ افسر پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ذاتی مقاصد کے لیے مخصوص سیاسی عناصر کے ایما پر قانون کی آئینی حدود سے تجاوز کیا، اگر کوئی شخص ذاتی حیثیت میں ذاتی فائدے کے لیے کوئی غیر قانونی کام کرتا ہے تو بغیر ثبوت اور شواہد کے اسے کسی اور شخص سے منسلک کرنا مناسب نہیں، یہ جو ایک سرگرمی ہے یہ جو کیس ہے فیض حمید کا یہ سب جوڈیس معاملہ ہے ، اس کی تفصیلات سے آگاہ کیا جاتا رہے گا،انہوں نے کہا انسداد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ ایک منظور شدہ اور مربوط حکمت عملی کے تحت لڑی جارہی ہے مختلف سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز اور تمام حکومتوں نے اس حکمت عملی کو مرتب کیا ہے ، یہ نیشنل ایکشن پلان اور ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان اور اب عزم استحکام کے نام سے ایک دستاویزی شکل میں بھی موجود ہے ، اس کے اندر جو افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام ہیں وہ بھی ایک مربوط حکمت عملی کے تحت کیے جاتے ہیں، اس کے چار مراحل ہیں کلیئر، ہولڈ، بلڈ اور ٹرانسفر تو جو دہشتگردی بڑھ رہی ہے ہمیں سمجھنا ہوگا کیا ہو رہا ہے ، اس مربوط حکمت عملی کے تحت جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج نے کام کرنا ہے کہ علاقوں کو دہشتگردوں سے ختم کرنا اور ان کو عارضی طور پر ہولڈ کرنا ہے تاکہ وہاں پر باقی عہدیداران، انتظامیہ کیلئے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ وہ سماجی اور معاشی منصوبے لگائیں اور پھر اس علاقے کو مکمل طور پر اپنے اختیار میں لیں، اس میں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور فوج ہے اس نے دو دہائیوں سے زیادہ دہشتگردی کی جنگ لڑی ہے اس میں 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے کو دہشت گردوں سے کلیئر کیا ہے ۔

اس لیے ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں کوئی عملا ایسا علاقہ نہیں جہاں دہشتگردوں کی اجارہ داری ہو، تو جو کلیئر اور ہولڈ کے مراحل ہیں وہ تو مکمل ہو چکے ہیں، انٹیلی جنس بیسڈ چھوٹے بڑے تمام آپریشنز جو قانون نافذ کرنے والے اداروں جس میں پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیز بھی شامل ہے یہ اسی کو مزید تقویت اور دوام دینے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اب جو بلڈ اور ٹرانسفر کا کام ہے اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا یہ عزم ہے کہ اس کو مکمل ہونے کی ضرورت ہے اور اس میں جو ذمہ داری ہے وہ لوکل گورنمنٹ اور صوبائی حکومت کی ہے کیونکہ اس میں انہوں نے صحت کے تعلیم کے روزگار کے سماجی منصوبے لانے ہیں تاکہ عوام کو ایک روز مرہ کی زندگی میں مصروف کیا جائے ۔ پاکستان کی فوج بڑھ چڑھ کر وفاقی، صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ کی اعانت کرتی ہے اور صحت کے تعلیم کے روزگار کے ترقی کے متعدد منصوبے خیبرپختونخوا، بلوچستان میں پاک فوج کے یونٹس اور فارمیشن ہیں وہ یہ کام کرتی ہیں۔

کلیئر اور ہولڈ کے بعد بلڈ اور ٹرانسفر کا مرحلہ مکمل نہیں ہورہا اس سے ہو یہ رہا ہے کہ حکومت کی جو اجارہ داری ہے اس کا اہم انحصار وہ فوجی آپریشنز پر رہ گیا، ان علاقوں میں حکومتی اجارہ داری کا ذریعہ یہ خالی فوجی آپریشنز نہیں ہو سکتے ،اس کی وجہ سے کئی ایسے علاقوں کو ہمیں بار بار کلیئر کرنا پڑ رہا ہے ، آرمی کی جو لمبے عرصے تک اس علاقے میں تعیناتی ہے اس کے اپنے مسائل ہیں اور اس کی وجہ سے فوج کے خلاف ایک زہریلا پراپیگنڈا بنانے کا لوگوں کو موقع مل گیا ہے ، یہ صرف ایک وجہ ہے ۔ دوسری وجہ ہمیں اعداد و شمار شواہد بتاتے ہیں کہ اگست 2021 کے بعد سے فتنہ الخوارج اور دہشتگرد جو ہیں ان کی سہولت کاری بڑھ چکی ہے جب سے افغانستان میں تبدیلی آئی ہے ، یہ سہولت کاری چاہے ٹریننگ کیمپس کی شکل میں ہو یا نقل و حمل کی مدد فراہمی کی صورت میں یا یہ افغان شہریوں کی خود فتنہ الخوارج میں شامل ہونے کی شکل میں ہو چاہے خود کش بمباروں، یا چھوڑے ہوئے امریکی اسلحے کی جدید فراہمی کی شکل میں ہو یہ بڑھ چکی ہے ۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان افغان عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور پاکستان نے اس کا ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پاکستان پر خوارج کو قطعا فوقیت نہ دے ، وہ خوارجی جن کا نہ کوئی دین اسلام سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی انسانیت سے تعلق ہے اور نہ ان کا کوئی قبائلی اقدار سے تعلق ہے ۔

حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہت سی چیزوں پر اچھے تعلقات ہیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دو برادر اسلامی ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کرکے رخنہ ڈال دیں ان کو ہم یہی کہیں گے وہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا فوج دہشت گرد سے لڑتی ہے اور قوم دہشت گردی سے لڑتی ہے ، اس لیے حکومت نے عزم استحکام کے نام سے ریوائز نیشنل ایکشن پلان کی نئی شکل تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر پیش کی اس کا مقصد دہشتگردی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اقدامات ہیں وہ اٹھائے جائیں جس میں ذمہ داری باقی سٹیک ہولڈرز کی ہے ۔ ان میں سے تین اہم جو اقدامات ہیں اس میں پاکستان کے فوجداری قانون کو مضبوط کیا جائے ، دہشت گردوں کے اور جرائم پیشہ مافیاز کے گٹھ جوڑ کو توڑا جائے اور تیسرا پوری قوم یک زبان ہو کر دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف ایک بیانیے پر کھڑی ہو،اس میں باقی سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے ہم ان کی ہمیشہ کی طرح بھرپور اعانت اور معاونت کرتے رہیں گے ،انہوں نے کہا پاکستانی فوج کے جوان اور افسر خود پاکستان کے نچلے اور متوسط طبقے سے آتے ہیں عمومی طور پر یہ اشرافیہ یا ایلیٹ طبقے سے نہیں آتے ، ہمیں معیشت اور مہنگائی کا ادارک ہے۔

ہم بھی اس پر اسی طرح نبرد آزما ہوتے ہیں جیسے پاکستان کی عوام ہوتی ہے ، لیکن میں یہاں پر انفرادی طور پر بات نہیں کروں گا بلکہ ادارہ جاتی طور پر بات کروں گا۔ 2022 اور 23 میں ہمارا دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.9 فیصد تھا اور سال 24-2023 میں ہمارا دفاعی بجٹ کم ہو کر 1.7 فیصد ہوگیا ہے ، تو ہم نے اپنے دفاعی اخراجات کو کم کیا ہے ، گزشتہ مالی سال کے اندر فوج نے 100 ارب روپیہ ہارڈ کیش کی صورت میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی مد میں جمع کرائے ہیں اور جو ہمارے رفاعی اور ذیلی ادارے ہیں 260 ارب انہوں نے جمع کرائے ہیں۔اس کے علاوہ فوج کی یہ روایات ہیں اور کلچر ہے کہ یونٹ لیول سے لے کر آرمی لیول تک جو عوام کی فلاح و بہبود ہے جتنا ہم سے ممکن ہو سکتا ہے وہ عوام کی فلاح و بہبود کا کام ہے وہ فوج کرتی ہے ۔ قومی سطح پر جو ایس آئی ایف سی ہے اس کے اندر فوج حکومت کی اعانت و مدد کرنے کا کردار ادا کررہی ہے وہ ملکی معیشت کو بہتر کرنے اور پاکستان کی عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے ۔ہم پاکستان میں دائمی امن قائم کرنے کے لیے دہشتگردوں کے خلاف آپریشنز کرتے ہیں یہ ملک میں دائمی امن قائم کرنے کے لیے کرتے ہیں کیونکہ امن، استحکام اور سکیورٹی کے بغیر ملک میں معاشی خوشحالی نہیں آسکتی، ہمارے تمام اقدامات کا ایک کلیدی عمل پاکستانی معیشت کو اور عوام کی فلاح بہبود کے لیے ہے ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بلوچستان پر میں کھل کر بات کرنا چاہوں گا، بلوچستان پاکستان کی جان ہے اور ہماری شان اور آن ہے ، شاید ہی کوئی ایسا افسر ہو جس نے بلوچستان میں ٹریننگ نہ لی ہو، ہمارے لیے یہ گھر کا رتبہ رکھتا ہے ، یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، ایک زیادہ رقبے میں کم آبادی کے مسائل نے وہاں جنم لیا ہے ، بلوچستان میں صرف بلوچ نہیں بلکہ پختون، براہوی اور دیگر قومیں آباد ہیں، بلوچ کی کثیر تعداد پاکستان کے دیگر علاقوں میں آباد ہیں، بلوچستان اس حسین امتزاج کا نام ہے جو پاکستان ہے ، یہ مسکن ہے جفا کش، غیور لوگوں کا، یہاں کا شاہ زیب رند ہیں جس نے بھارتی کھلاڑی کو چت کردیا، یہاں ڈپٹی کمشنر عائشہ زہرہ ہیں جو بلوچ ہیں، یہ ہے بلوچستان کی حقیقت، یہ ہماری آن اور شان ہے ، اگر ہم فورسز کی بات کریں تو بہت سے ایسے افسران ہیں جو فوج میں ہیں اور بلوچستان سے ہیں، شاید ہی بلوچستان میں کوئی ایسا قصبہ ہو جہاں قانون نافذ کرنے والے شہیدوں کی قبریں نہ ہوں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے بتایا کہ کتنے شہدا ہیں اس بلوچستان کے جنہوں نے اس ملک کے لیے جان دی، یہ ہے بلوچستان، اب اس بلوچستان کے اندر بیانیے بنائے جاتے ہیں، مٹھی بھر دہشت گردوں کو جو سرپرست کرتے ہیں وہ بیانیے بناتے ہیں ریاستی جبر کا، وہ بیانیہ بناتے ہیں کہ حقیقی نمائندگی نہیں ہماری، ہمارا کام ان بیانیوں کی حقیقت کو دیکھنا ہے ، جب ہم ان بیانیوں کو زمینی حقائق کے ساتھ رکھتے ہیں تو ان میں جھول نظر آتا ہے ۔

اس سال بلوچستان کا بجٹ 750 ارب ہے اس میں 520 ارب وفاق نے دئیے ، 70 فیصد وفاق نے بجٹ دیا، یہ ہے حقیقت، یہ وسائل کے استحصال کا بیانیہ بناتے ہیں مگر بلوچستان حکومت 254 ارب روپے صرف منافع لیتی ہے رائیلٹی سے ، اور جو بلوچستان کے معدنیات کے پروجیکٹس ہیں ان میں 80 فیصد لوگ بلوچستان کے ہی ہیں۔ یہ احساس محرومی کا بیانیہ بناتے ہیں، 1997 میں بلوچستان میں375 کلو میٹر سڑک تھی آج 25 ہزار کلومیٹر سڑک ہے ، 8 قومی شاہراہیں ہیں، تعلیم کی بات کریں تو اس وقت 73 ہزار بچے اسکالرشپس پر پاکستان اور بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہاں ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کی تعداد بھی زیادہ ہے ، کیڈٹ کالجز ہیں 13، اگر ہم بڑے پروجیکٹس کی بات کریں تو وہاں سی پیک ہے ، گوادر ایئر پورٹ ہے ، خوشحال بلوچستان کے پروجیکٹس ہیں، ڈیم پروجیکٹس ہیں، سولر پینل منصوبے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اس احساس محرومی کے بیانیے کی، ہم مانتے ہیں کہ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے مگر ہمارے وسائل میں بلوچستان کو خصوصی حیثیت حاصل ہے ، وہاں معاشرتی ترقی کے مواقع ہیں اور وہ ہو بھی رہی ہے ، ہمیں پتا ہے کہ وہاں وسائل زیادہ چاہئیں لیکن کسی کو حق نہیں کہ اس کا استحصال کریں، لوگوں کی ذہن سازی کریں، مجھے بتائیں کہ بلوچستان میں سیاسی نظام کیا ہے ؟ وہی ہے نا جو باقی صوبوں میں ہے ، تمام پارٹیاں بلوچستان کی سیاست میں حصہ لیتی ہیں، یہ پارٹیاں نیشنل اور صوبائی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں، 17 وزیر اعلٰی جو بلوچستان کے رہے وہ سب بلوچ ہیں۔

وفاقی لیول پر ملک کے وزیر اعظم بلوچ رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ہیں، عدلیہ، فوج اور اعلیٰ عہدوں میں بڑی تعداد بلوچوں کی ہے ، تو مسئلہ کیا ہے ؟ مسئلہ یہ ہے کہ ان بیانیوں کے پیچھے بیرونی سوچ ہے ، اس کو فنڈنگ بھی آتی ہے کہ آپ بیانیہ بنائیں احساس محرومی اور نمائندگی نہ ہونے کا اور وہ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں، یہ دہشت گرد ان کو نشانہ بناتے ہیں جو بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، 25 اگست کو جو ہوا تو انہوں نے برج کو کیوں اڑایا؟ کیا وہ فوجی ٹارگٹ تھا؟ وہ اس لیے اڑایا تاکہ لوگوں کو معاشی مسائل ہوں، اس کی معیشت متاثر ہو تاکہ احساس محرومی کے بیانیے کو تقویت ملے ، جو بچے بلوچستان کے لیے دوسرے شہروں سے آکر یہاں کام کرتے ہیں ان کو کیوں ٹارگٹ کیا جاتا ہے ؟ یہ ہے وہ گھناؤنا کھیل جو بیرونی فنڈنگ کے ساتھ ہو رہا ہے ۔جب ان کا فوج سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو وہ بھی سامنے ہے ، انہوں نے گوادر میں حملے کی کوشش کی، تربت میں نیول بیس گئے اور کیسے ان کی لاشیں گریں اور کیسے ہم نے انہیں نشانہ بنایا، تو پھر یہ سافٹ ٹارگٹس پر جاتے ہیں اور معصوم شہریوں کو بسوں سے اتار کر نشانہ بناتے ہیں، یہ کون سا اسلام ہے کون سا اقدار ہے کہ لوگ کہیں کہ یہ اچھا کام کر رہے ، ہم کہتے ہیں کہ اگر ہمت ہے تو ہم سے مقابلہ کرو، کیوں معصوم شہریوں پر جاتے ہو؟ ہمیں یقین ہے کہ ان کا بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہے ، ان کو یہ جو ظلم ہے اس کا حساب دینا ہوگا، جو بلوچستان کی عوام ہے وہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان کی ترقی کا دشمن کون ہے اور وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں اور بلوچستان اور پاکستان خوشحالی اور ترقی کا سفر جاری رکھیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں