6وزارتیں، ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم:نئی پنشن سکیم کیلئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت،سخت فیصلے نہ کئے تو تنخواہ دار طبقے پر پھر بوجھ آئیگا،اعلانات نہیں اب عملی اقدامات:وزیر خزانہ

6وزارتیں، ڈیڑھ لاکھ اسامیاں ختم:نئی پنشن سکیم کیلئے قانون میں  تبدیلی کی ضرورت،سخت فیصلے نہ کئے تو تنخواہ دار طبقے پر پھر بوجھ آئیگا،اعلانات نہیں اب عملی اقدامات:وزیر خزانہ

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،اے پی پی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹرمحمد اورنگزیب نے کہا کہ سرکاری اداروں میں اصلاحات جاری ہیں، وزارتوں کی رائٹ سائزنگ کی جارہی ہے ، 6وزارتوں اور مختلف وزارتوں میں ایک لاکھ 50ہزار اسامیوں کو ختم کیا جا رہا ہے ،گزشتہ سال کے مقابلے میں فائلرز کی تعداد دگنی ہوکر 32 لاکھ ہوگئی ۔

 مائیکر واکنامک استحکام منزل نہیں ، ایک راستہ ہے ، گروپ 20 میں شمولیت کیلئے معیشت کودستاویزی بنانا ہوگا، قومی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے ، آئی ایم ایف سے پروگرام طے پا گیا ،پہلی قسط وصول ہوگئی ،زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ہو ا ، افراط زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آچکی ، مہنگائی میں کمی کے باعث پالیسی ریٹ 4.5فیصد کم ہوا ، وزیراعظم شہباز شریف دن رات ملکی ترقی کیلئے کام کر رہے ہیں، سٹاک مارکیٹ نئی حدیں عبور کر رہی ہے ، سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ معاشی استحکام کی بڑی  کامیابی ہے ،نجی شعبہ کو ملک کو لیڈ کرنا ہوگا، ٹیکس محصولات میں اضافہ ناگزیر ہے ،ملک کے معاشی ایجنڈے کیلئے بہترین ذہن چاہئیں، ایف بی آر کی استعداد کار میں اضافہ کیلئے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس اورملک کی بہتری کیلئے بیرون ملک سے ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔نئی پنشن سکیم کیلئے قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے ، سخت فیصلے نہ کئے تو تنخواہ دار طبقے پر پھر بوجھ آئیگا، اعلانات نہیں اب عملی اقدامات کررہے ہیں۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اسلام آباد میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ اخراجات میں کمی کیلئے وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کیلئے کمیٹی کام کر رہی ہے ، 6 وزارتوں کے بارے میں فیصلہ کیا گیا ہے ، کیڈ کی وزارت ختم کرکے دو وزارتوں کو ملا کر ایک وزارت بنائی جا رہی ہے ، کابینہ کی منظوری سے خالی اسامیوں کا 60 فیصد حصہ جو ڈیڑھ لاکھ بنتا ہے اس کو ختم کیا گیا ہے ، اس سے اخراجات میں کمی ہوگی۔ مرحلہ وار اقدامات کئے جا رہے ہیں،رواں مالی سال کے دوران 5 وزارتوں کوختم کرنے کے فیصلہ کو حتمی شکل دی جائے گی۔

18 ویں ترمیم کے مطابق وزارتوں کو منتقل کیا جائے گا ، جو ادارے اور وزارتیں رکھی جائیں گی ان کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ وہ عوام کیلئے کام کریں ۔پنشن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اقدامات کئے جا رہے ہیں ، اس حوالہ سے سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت ہوگی تاکہ ہم جو پیکیج لائیں اس کو قانونی شکل دی جاسکے ۔ رواں سال 7 لاکھ 23 ہزار افراد ٹیکس نیٹ میں آئے ، فائلرز کی تعداد 16 لاکھ سے بڑھ کر 32 لاکھ ہوگئی ہے ۔ گزشتہ مالی سال میں 30 ستمبر تک 1.6 ملین گوشوارے جمع کرائے گئے جو رواں مالی سال میں دوگنا ہوچکے ہیں، اب تک 3.2 ملین گوشوارے جمع کرائے جا چکے ہیں ، گزشتہ سال اسی عرصہ میں 3 لاکھ نئے فائلر تھے جبکہ رواں سال اس وقت تک 7 لاکھ 23 ہزار نئے فائلر آچکے ہیں، یہ بہت اہم ، ہم کر کے دکھا چکے ہیں۔اصلاحات سے ٹیکس محصولات میں سات کھرب روپے کا اضافہ ممکن ہے ،نان فائلر گاڑی، جائیداد نہیں خرید سکیں گے ، میوچل فنڈ ، کرنٹ بینک اکاؤنٹ نہیں کھلوا سکیں گے ، رقم وصولیوں اور جمع کرانے میں ان کودقت ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے 3 لاکھ مینوفیکچررز ہیں جن میں سے 14 فیصد سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹرڈ ہیں، 3 لاکھ ہول سیلرز ہیں جن میں 25 فیصد سیلز ٹیکس کیلئے رجسٹرڈ ہیں، مینوفیکچررز کو صرف رجسٹرڈ ہول سیلرز کو فروخت کی اجازت ہوگی۔ مینوفیکچررز اور ہول سیلرز حکومت سے تعاون کرتے ہوئے خود کو رجسٹرڈ کرائیں گے ، ورنہ حکومت کومجبور ہو کر نان رجسٹرڈ افراد کی پراپرٹی کو منسلک، یوٹیلیٹیز کی بلاکنگ اور کام کی جگہ کو سیل کرنا پڑے گا، اس حوالہ سے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا جائے گا ، پرال کا سارا سسٹم استعمال کریں گے ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ ٹیکس جمع کرنے والوں اور کاروباری شخصیات کے درمیان کم سے کم مداخلت ہو، اس میں آر ایف آئی ڈی، ویڈیو اینالیٹکس جیسی چیزیں لے کر آئیں گے تاکہ اس میں انسانی مداخلت کم ہو۔انہوں نے کہا کہ انسداد سمگلنگ کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا 750 ارب کا ٹیکس امپیکٹ ہے ، بڑے کراسنگ پوائنٹس پر ڈیجیٹل چیک پوسٹیں بنا رہے ہیں،برآمدکنندگان کیلئے نیا نظام لارہے ہیں، جس میں کلیئرنگ ایجنٹس کیلئے پوائنٹ سسٹم لایا جائے گا۔

ایف بی آر میں آڈٹ کی صلاحیت کو بڑھانا ہے ، 2 ہزار چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے انگیج کیا جارہا ہے تاکہ ٹیکس فائلنگ میں جو مطلوبہ فرق ہے اس کو ختم کیا جاسکے ۔ ٹیکس وصول کرنے والے حکام کسی کو پریشان نہیں کرسکیں گے ،ٹیکس وصول کرنے والوں کیلئے سخت احتساب کا نظام ہوگا، ٹیکس ادا کرنے والوں کے خلاف عوامی سماعت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور فیصلہ کیس کی بنیاد پر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اس پروگرام کو آئی ایم ایف کا آخری قرض پروگرام بنانا ہے تو ہمیں اس ملک میں نئے طریقہ کار اپنانے ہوں گے ، ملک میں معیشت کے ڈھانچے کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ان اقدامات سے تھوڑے وقت کیلئے مشکلات آئیں گی لیکن اگر ہمیں پائیدار ترقی کے راستہ پر جانا ہے تو جو مشکل فیصلے لئے گئے ہیں ان کو نافذ کیا جائے گا، آج سخت فیصلے نہ کئے تو دوبارہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ آئے گا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کے دو بڑے مسائل ہیں جس میں آبادی کے بڑھنے کی شرح ہے جو 2.55 فیصد ہے جو پائیدار نہیں ، دوسری چیز موسمیاتی تبدیلی ہے ، ہمیں خود کو موسم کی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ انڈر فائلنگ کے ذریعہ 1.3 کھرب روپے کے ٹیکسز کو چھپایا جاتا ہے ،جی 20 میں شمولیت کیلئے معیشت کو دستاویزی شکل دینی ہوگی، 9 کھرب روپے کیش مارکیٹ میں ہے جبکہ ایف بی آر کے محصولات کا ہدف 9.3 کھرب ہے ، اس وقت ہماری معیشت کا حجم 700 ارب روپے سے زیادہ ہے جبکہ دستاویزات میں 325 ارب روپے ہے ، اگر ہم نے جی 20 میں جانا ہے تو ڈاکومنٹیشن کی جانب بڑھنا چاہئے ۔ محمد اورنگزیب نے کہاکہ اگر افراط زر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تو آئی ایم ایف پروگرام صرف وفاقی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے ۔صوبوں سے درخواست کی تھی کہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی کمیٹیوں کو فعال کیا جائے تاکہ قیمتوں میں کمی پر عملدرآمد بھی کرایا جائے ۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں