آئی جی اسلام آباد کو تبدیل نہ کیا تو ہم پھر آرہے ہیں:وزیراعلیٰ گنڈا پور
پشاور(دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک )وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ آئی جی اسلام آباد کو نہ ہٹایا تو اسلام آباد پر دھاوا بولیں گے ۔کے پی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا اسمبلی کے فلور سے یہ پیغام دے رہا ہوں کہ تیار ہوجاؤ ہم پھر آرہے ہیں۔
پختونخواکے علاوہ جہاں بھی احتجاج کی کال دی فسطائیت کامظاہرہ کیا گیا، جلسے کی اجازت نہ دینے پر مجبوراً احتجاج کاراستہ اختیارکیا، ہمارے جلوس پر شیلنگ کی گئی جسکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، پولیس اور رینجرز کو پیچھے دھکیل کر ہم ڈی چوک تک پہنچے ۔ فوج ہماری ہے ، ان سے کوئی لڑائی نہیں، مجھے گرفتاری کا کوئی خوف نہیں، ہمارے کے پی ہاؤس پہنچنے کے بعد پولیس نے دھاوا بولا، کے پی ہاؤس میں بانی پی ٹی آئی کی ہدایت کا انتظار کررہے تھے ، کے پی پولیس پر بھی تشدد کیا گیا۔ 4گھنٹے کے پی ہاؤس میں رہا اورگاڑی کا بندوبست کرنے کا کہا، 4 گھنٹے بعد گاڑی آئی اور پھر روانہ ہوا،کے پی ہاؤس کو قبضے میں لیا گیا جیسے یہ انکی ذاتی ملکیت ہو ، کے پی ہاؤس میں پولیس اور ورکرز کو مارا گیا، ایسا سلوک کیا جیسے ہم کوئی دہشتگرد ہوں۔ میں سرکاری گاڑی میں کے پی ہاؤس سے روانہ ہوا تھا، جمپ لگاکر پیدل روانہ ہوا، موبائل اور پیسے نہیں تھے ، ایم ٹیگ کے ذریعے موٹروے پر آئے ، رسید موجود ہے ، ڈی پی او ہری پور کے گھر ناشتہ کیا، گاڑی میں پمپ سے تیل ڈلوایا اسکی بھی رسید ہے ، تورغر، شانگلہ، سوات سے ہوتا ہوا نوشہرہ، چارسدہ اور پھر پشاور پہنچا۔
انہوں نے کہا بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ پرامن سیاست کی اور ہمیں بھی امن کا درس دیا مگر مخالفین نے ہمیں ہمارا آئینی حق بھی نہیں دیا، انہوں نے لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ کو بھی قانونی قرار دلوادیا اس پر ہم نے کہا کہ ہمیں اجازت ملے یا نہ ملے احتجاج ریکارڈ کرنا ہے ہم نے لیڈروں اور کارکنوں کو احتجاج کے لیے پہنچے کا کہا، وہاں حالات ایسے بن گئے رینجرز پولیس اور عوام کے درمیان ٹکرا ہو گیا ، ہماری سوچ تصادم کی سوچ نہیں تھی ہم نے تصادم کو ختم کرنے کے لیے ڈی چوک جانے کے بجائے کے پی ہاس جانے کا فیصلہ کیا جو ہماری ملکیت ہے ۔ میں اپنا خون بھی معاف کرسکتاہوں،مگرکسی کارکن کانہیں ،پارٹی میں جو بھی بانی کیساتھ منافقت کرتاہے ،وہ غرق ہوجائے ۔میں شکریہ اداکرتاہوں ،ان فوجیوں کاجنہوں نے ہمیں راستہ دیا، آگے جاکر پھر آئی جی پنجاب نے ہماراراستہ روکا۔کسی کویقین نہیں تھاکہ اتنی رکاوٹوں کوہٹا کرہم آگے جائینگے ، اگر اس آئی جی کونہ ہٹایا،تو ہم اس کوہٹانے کیلئے اسلام آباد جائینگے ، آئی جی اسلام آباد نے جوفسطانیت کی ، اسکی مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ ملک کے فیصلے کر رہے ہیں انہیں ملک کا کوئی خیال نہیں ، وزیر اعلی ٰ خطاب کے بعدچلے گئے تو سپیکر کی جانب سے وقت نہ دینے پر اپوزیشن ارکان شدید اشتعال میں آگئے ، ارکان اسمبلی نے لاتوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن ارکان گتھم گتھا ہوگئے ۔
پی ٹی آئی رکن نیک محمد اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے رکن اقبال وزیر میں جھگڑا ہوا، دونوں ارکان کے الجھنے پر انکے حامی بھی لڑائی میں کود پڑے ، الجھنے والے دونوں ارکان کا تعلق وزیرستان سے ہے ۔ایوان میں شدید ہنگامہ آرائی پرسپیکر نے اجلاس میں 15 منٹ کا وقفہ کیا، بعد ازاں اجلاس 14 اکتوبر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ اس دوران سکیورٹی اہلکاروں کو بھی طلب کرلیا گیا۔ صوبائی وزرا اپوزیشن اراکین کو منانے اپوزیشن بینچوں پر آئے جسکے بعد حالات نارمل ہوئے جبکہ گتھم گتھا ہونے والے دونوں ایم پی ایز کو ایوان سے باہر لے جایا گیا۔بعدازاں سپیکر اسمبلی نے دونوں ایم پی ایز اقبال وزیر اور نیک محمد اپنے چیمبر میں بلاکر صلح کرائی۔اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو بولنے کے لیے وقت دیا ہمیں کیوں نہیں ملتا۔رکن اے این پی نثار باز کا کہنا تھا کہ پارٹی کا مؤقف بیان کروں گا، شرافت کا غلط فائدہ نہ اٹھایا جائے ۔ اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کرنے والے 3 افراد کو سپیکر کی ہدایت پر گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کردیا گیا ۔ پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والوں میں رکن اسمبلی اقبال وزیر، بھتیجا محب اللہ اور رشتے دار نقیب اللہ شامل ہے ۔