9مئی:منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف مکمل نہیں ہوگا:ترجمان پاک فوج

9مئی:منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف مکمل نہیں ہوگا:ترجمان پاک فوج

راولپنڈی (خصوصی نیوز رپورٹر)فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف کا عمل مکمل نہیں ہوگا، نومبر احتجاج 9مئی کا تسلسل، سازش کے پیچھے سیاسی دہشتگردوں کی سوچ ہے ،فتنہ الخوارج کی کمر ٹوٹنے پر کس نے دوبارہ آباد کیا۔

ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے خون سے ادا کی،کسی سیاسی لیڈر کی اقتدار کی خواہش پاکستان سے بڑی نہیں ہوسکتی ،پاک فوج کسی سیاسی جماعت اور سیاسی نظریے کے خلاف نہیں ہے ،فوج کا ہر حکومت کیساتھ سرکاری اور پیشہ وارانہ تعلق ہوتا ہے ، سیاستدانوں کے درمیان مذاکرات کا ہونا خوش آئند ہے مگر یہ سیاسی جماعتوں نے آپس میں کرنے ہیں، ہمارے لیے تمام سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن سیاست کو ریاست پر مقدم رکھنے والوں کو جواب دینا ہو گا۔راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا، جب تک 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اصل گھناؤنے کرداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہنچادیا جاتا، کیوں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور ایسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی۔ وہ نوجوان بچے جنہیں زہریلا پراپیگنڈا کرکے ریاست اور اداروں کے خلاف کھڑا کیا گیا، ان کے والدین کودیکھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کو مخصوص سیاسی ایجنڈے کیلئے کس طرح استعمال کرکے سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، کچھ لوگ اپنی سیاست کیلئے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں، اس بیانیے اور پراپیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ملزم ہیں۔ 9 مئی کے بارے میں افواج پاکستان کا نقطہ نظر واضح، غیر مبہم اور مستقل ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے ، اگر کوئی گمراہ، مسلح اور پرتشدد گروہ اس طریقے سے اپنی مرضی اور سوچ معاشرے پر مسلط کرنا چاہے اور اس طرز عمل کو آئین و قانون کے مطابق نہ روکا جائے تو معاشرے کو ہم کس طرف لے کر جائیں گے ؟ 2023 میں اعلیٰ عدلیہ نے ملزموں کی ملٹری کورٹس کو حوالگی کا معاملہ منجمد کردیا تھا، حال ہی میں 7 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں 9 مئی کی ہنگامہ آرائی میں ملوث لوگوں کو سزائیں سنانے کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے ۔

جس میں مروجہ قانون کے تحت ثبوت اور شواہد کے مطابق تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔ ملٹری کورٹس کے سانحہ 9 مئی کے ملزموں کو دی گئی سزاؤں کے فیصلے سے واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، مستقبل میں بھی کوئی اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوگا تو اسے آئین و قانون کے مطابق بہرصورت سزا ملے گی۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سویلین بالادستی اور شفافیت کے فقدان کا جو بیانہ بنایا جارہا ہے ، اس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے قائم ہیں اور یہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی ہیں، عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کے پورے عمل کی تائید کی ہے ، ملٹری کورٹس میں اپنا وکیل کرنے ، اپنے شواہد پیش کرنے ، گواہ لانے ، جرح کرنے سمیت تمام قانونی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں اور اگر مجرموں کو سزا ہوجائے تو نہ صرف کورٹ اپیل میں آرمی چیف بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انہیں اپیل کا حق حاصل ہے ۔ ملٹری کورٹ کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سنائے گئے ہیں، جب 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ، انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملٹری کورٹس پر بات کرنے والے کل اس کے سب سے بڑے داعی تھے ۔ کچھ عرصے پہلے یہ بیانیہ بنایا جارہا تھا کہ احتجاجی انتشاری ایجنسیوں کے پلانٹ کردہ لوگ ہیں اور فوج نے گہری سازش کے تحت خود یہ حملے کرائے ہیں، پھر اگر ہم نے اپنی ایجنسیوں کے بندوں کو اپنے قانون کے تحت سزائیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے ، لیکن اب وہ پریشان ہیں کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات کو بھی انجام تک پہنچنا چاہیے ، دنیا میں نظر دوڑائیں تو ابھی لندن میں اس سال جولائی میں جھوٹی سوشل میڈیا پوسٹوں پر لندن میں جو فسادات ہوئے ، ان میں سرعت کے ساتھ نہ صرف بالغوں بلکہ نابالغوں کو بھی سزائیں ہوئی ہیں، 2020 میں کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا تو ملزموں کو کتنی تیزی سے سزائیں دی گئیں؟ اس سے قبل 2011 میں لندن میں 1200 سے زائد ملزموں کوتیزی سے سزائیں دی گئیں۔

2023 میں فرانس کے فسادات میں 700 سے زائد لوگوں کو دنوں میں سزائیں دی گئیں، دنیا بھر میں سیاسی انتشاریوں کو کہیں جگہ نہیں دی جاتی۔انہوں نے کہا بارہا نشاندہی کے باوجود افغانستان کی سرزمین سے فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگرد مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کرتے آرہے ہیں، افغانستان خارجیوں اور دہشتگردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے ، پاکستان میں دہشتگردی کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں تک جاتے ہیں، آرمی چیف اس حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، پاکستان اپنے شہریوں کی سلامتی کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا، آرمی چیف بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک پاکستانی کی جان اور مال افغانستان پر مقدم ہے ۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے دل و جان سے کوششیں کیں، افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے ، کئی ملین افغان باشندوں کی دہائیوں سے ہم میزبانی کرتے آرہے ہیں،اس سوال پر کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں خرابی ہے ، اسے تبدیل کرکے افغانستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہاپچھلے 2 سال عبوری افغان حکومت سے مختلف سطح پر بات چیت اور روابط جاری ہیں اور ہم ان سے ایک ہی بات کررہے ہیں، پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ملک ہیں لہذا عبوری افغان حکومت دہشتگردوں اور فتنہ الخوارج کو پاکستان پر مقدم نہ رکھے ، افغانستان کے ساتھ بات چیت نہ صرف براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بالواسطہ بات چیت بھی جاری ہے ،افغان عبوری حکومت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے فتنہ الخوارج کے ساتھ ہونے والی سہولت کاری کو روکا جائے ، ہم انہیں کہتے ہیں کہ افغانوں کو دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روکا جائے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان خودکش بمباروں کو کنٹرول کیا جائے لیکن مسلسل رابطے کے باوجود فتنہ الخوارج کے رہنماؤں کے دفاتر، تربیتی مراکز اور رابطے باقاعدگی سے آپریٹ ہوتے رہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معصوم شہریوں اور قانون کے رکھوالوں کا خون بہایا جائے تو کیا ہم خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں؟ یہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں۔

میں نے ان سے ایک سادہ سوال کرتا ہوں کہ آج سے 6 دن پہلے 21 دسمبر 2024 کو جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے 16 جوان فتنہ الخوارج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے ؟ کیا وہ سب خیبرپختونخوا کے شیر دل جوان نہیں تھے ؟میں سوال کرتا ہوں کہ جب 2021 میں فتنہ الخوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور وہ فرار ہورہے تھے تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے انہیں دوبارہ آباد کیا گیا؟ کس نے ان کو طاقت اور دوام بخشا؟ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے رکھوالے اور جوان روزانہ ان فیصلوں کی لکھائی اپنے خون سے دھورہے ہیں،اگر کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں؟ اگر اس طرح کے ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ و جدل، کوئی غزوات اور مہمات نہ ہوتیں، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مسلمان اور ہرمحب وطن شہری کیلئے جان اور قربانی دینا فخر ہوتا ہے ، ہم اپنے ایمان، وطن اور آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے ۔ اگر اس تلخ تجربے اور حقیقت سے گزرنے کے باوجود کوئی لیڈر اور سیاسی شخصیت یہ کہے ، ایسی شخصیت جو اس صلاحیت سے عاری ہوکہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھے ، اور جو یہ سمجھتا ہو کہ اسے ہر چیز کا علم ہے تو ایسے رویوں کی قیمت پوری قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہے ہیں، بات چیت اور دوبارہ آباد کاری کی نام نہاد پالیسی خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔اب جو اس مطالبے کی تکرار کی جارہی ہے کم ازکم اس بات کو تو واضح کرتی ہے کہ 2021 میں بھی کس کی ضد تھی کہ ان سے بات چیت کرکے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے ، اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا ادا کررہا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کے حساس ترین مسئلے پر سیاست، کنفیوژن اور بیانیہ سازی کے بجائے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، گورننس کے خلا کو روزانہ ہم اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے پر کررہے ہیں، تو بجائے اس کے اس پر بیانیے بنائے جائیں اور سیاست کھیلی جائے کیوں نہ ہم اچھی حکمرانی اور مسائل پر توجہ دیں جن کی وجہ سے وہاں احساس محرومی اور دہشت گردی کے سہولت کاری ہورہی ہے ، کیونکہ وہ ہم نے نہیں کرنا تو اس لیے اس پر سیاست کی جارہی ہے لہذا وقت آ گیا ہے کہ ہم یکجا ہوجائیں اور کہیں کہ دہشت گردی پر سیاست نہیں ہوگی۔

پاکستان کی مسلح افواج دہشت گردوں کیخلاف طویل اور مشکل جنگ لڑ رہی ہیں، رواں سال 59 ہزار 775 آپریشنز کیے گئے ، خوارج سمیت 925 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، سیکڑوں کو گرفتار کیا گیا، ملک بھر میں تمام ادارے یومیہ 169 انسداد دہشت گردی کے آپریشنز کرتے رہے ، کئی دہشتگردی کے منصوبے ناکام بنائے گئے ، گرفتار ملزموں سے غیر ملکی اسلحہ اور گولہ بارود بھی ملا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کو دشمن کے نیٹ ورک پکڑنے اور دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اہم کامیابیاں ملیں، ان آپریشنز کے دوران 73 ہائی ویلیو ٹارگٹس یعنی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ گزشتہ 5 سال کے دوران کسی ایک سال میں مرنے والے دہشتگردوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے ، ہلاک ہونیوالوں میں فتنہ الخوارج کا سرغنہ میاں سید عرف قریشی استاد مالا کنڈ ڈویژن، فتنہ الخوارج مردان کا محسن قادر، عطا اللہ عرف مہران جو سوات میں سفارتکاروں پر حملے میں ملوث تھا۔ فدا الرحمن عرف لال ژوب ڈویژن، علی رحمن عرف طہٰ سواتی اور ابو یحیی بھی مرنے والوں میں شامل ہیں، بلوچ دہشتگردوں میں ثنا عرف برو، بشیر عرف جان، نیاز، ظریف شاہ جہان، حضرت علی عرف اسد، لاپ جان چاکر آبادی، اس کے علاوہ 27 افغان دہشتگردوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔اس کے علاوہ افغانستان سے تعلق رکھنے والے 2 خود کش بمباروں کو بھی گرفتار کرکے دہشتگردی کا منصوبہ ناکام بنایا گیا، ان افغان بمباروں میں انصاف اللہ اور روح اللہ شامل تھے ۔بلوچستان سے گرفتار ہونے والی خود کش عدیلہ نے انکشافات کیے کہ کس طرح دہشتگرد معصوم بچوں کی ذہن سازی کرکے ان سے دہشت گردی کروارہے ہیں۔2024 میں انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کے دوران 383 افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، پوری قوم ان بہادر سپوتوں کو خراج عقیدت اور سلام پیش کرتی ہے ، جنہوں نے ملک کیلئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ ملک کی سلامتی اور امن کیلئے پیش کیا، یہ جنگ ان شا اللہ آخری دہشتگرد اور خوارج کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ ویسٹرن بارڈر مینجمنٹ کیلئے کام آخری مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ، قبائلی اضلاع میں 72 فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے کلیئر کردیا گیا، ون ڈاکومنٹ رجیم کے نفاذ کے بعد غیرقانونی بارڈر کراسنگ، سمگلنگ میں خاطر خواہ کمی آئی ہے ، پاسپورٹ کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ، پاکستان سے غیر قانونی افغان باشندوں کے انخلا کا عمل جاری ہے ، اب تک 8 لاکھ 15 ہزار سے زائد افغان باشندے اپنے ملک جاچکے ہیں۔

بھارت کی جانب سے مشرقی سرحد پر خطرات کا ہمیں ادراک ہے ، بھارت خطے میں اپنی اجارہ داری کیلئے جو اقدامات کر رہا ہے ، پاکستان کی سول و عسکری قیادت اس سے بخوبی آگاہ ہے ، بھارت نے اس سال کئی بار چھوٹی سطح پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کیں، جس میں 25 سیز فائر کی خلاف ورزیاں، 564 دیگر اور 161 فضائی خلاف ورزیاں کی گئیں، متعدد فالس فلیگ آپریشنز بھی کیے گئے ، جن کا مقصد بھارت کی اندرونی سیاست پر اثر انداز ہونا تھا۔ پاک فوج لائن آف کنٹرول پر بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے ، پاک فوج پاکستان کی خود مختاری اور سلامتی کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے ۔ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں عوام پر ہونے والے مظالم سے پوری دنیا آگاہ ہے ، بھارتی فورسز کی جانب سے آپریشنز کرکے کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا جارہا ہے ، کشمیری عوام پر تشدد قابل مذمت ہے ، بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ سال آرٹیکل 370 برقرار رکھ کر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، ہمارا اصولی موقف ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہر فورم پر کشمیریوں کی اصولی، اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھیں گے ۔ اس وقت بھارت کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکوں کو قوت کے ذریعے کچلنے کا عمل جاری ہے ، بیرون ملک سکھ رہنمائوں کو ماروائے عدالت قتل کیا جارہا ہے ، اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں، مسیحی باشندوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ، مساجد، گرجا گھروں کو ہندو انتہا پسند نشانہ بنارہے ہیں، مذہبی جبر کا یہ سلسلہ عالمی اور انسانی حقوق کے اداروں کیلئے کھلا سوال ہے ۔انہوں نے کہا افواج پاکستان قدرتی آفات اور ہر مشکل گھڑی میں عوام کی خدمت میں پیش پیش رہتی ہے ، ان میں حکومت کی معاونت سے کئی شعبوں کے منصوبے مکمل کیے جاتے ہیں، 2024 میں خیبر پختونخوا میں پاک فوج نے مقامی افراد کے مسائل کے حل کیلئے 6500 پروگرام مکمل کیے ، مقامی طلبہ کو چیف آف آرمی سٹاف ایجوکیشن پروگرام کے تحت آرمی پبلک سکولز، کیڈٹ کالجز میں داخلے دئیے گئے ، نوجوانوں کو فورسز میں بھرتی کیا گیا، انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے کئی منصوبے مکمل کیے گئے ، چند پر کام جاری ہے ۔ سیلاب کے دوران پختونخوا میں سیکڑوں میڈیکل کیمپس لگائے گئے ، متاثرین کا ہر ممکن ساتھ دیا گیا۔

بلوچستان میں بھی امدادی پروگرامز کا سلسلہ جاری ہے ، بلوچستان میں سوشو اکانومی منصوبوں کی شرح دیگر صوبوں سے زیادہ ہے ، تاکہ بلوچستان کے حوالے سے جاری منفی پراپیگنڈا توڑا جاسکے ، بلوچستان میں متحدہ عرب اور چین کے تعاون سے کئی اہم منصوبے مکمل کیے گئے ، جن پر ہم دوست ممالک کے شکر گزار ہیں، چند منصوبے اب بھی جاری ہیں، بلوچستان میں کچھی کینال منصوبہ 65 ہزار کینال اراضی کو سیراب کر رہا ہے ۔سبی اور ہرنائی کے درمیان سو کلو میٹر سے زائد ریلوے ٹریک کو مرمت کرکے 17 سال بعد کھول دیا گیا، آرمی چیف کی خصوصی توجہ سے گوادر میں صحت، تعلیم، پانی کی فراہمی سمیت کئی منصوبوں پر کام چل رہا ہے ، چمن ماسٹر پلان کی تکمیل اہم سنگ میل ہے ، چمن اور طور خم بارڈر پر تجارت کو سہولت فراہم کرنے کیلئے جدید سسٹم نصب کیا جارہا ہے ، جس کے بعد کلیئرنس کا وقت مزید کم ہوجائے گا، 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے ، یہ منصوبہ 3 ماہ میں مکمل ہوجائے گا۔ کوئٹہ میں سیف سٹی پروجیکٹ، پاک افغان بارڈر پر جوائنٹ اسسٹنٹس مارکیٹس قائم کی جاچکی ہیں۔پاک فوج سخت ٹریننگ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے ، ہماری تربیت میں جذبہ شوق شہادت کا عنصر اہم جزو ہے ، اس تربیت کا مقصد روایتی اور غیر روایتی خطرات کا مقابلہ کرنا ہے ، پاک فوج کا شمار دنیا کی ان چند افواج میں ہوتا ہے ، جس کے افسران آگے بڑھ کر آپریشنز کی قیادت کرتے ہیں، ہماری تربیت کا موٹو ہے کہ وی ٹرین ایز وی فائٹ، وی فائٹ ایز وی ٹرین۔ آرمی چیف کے ٹریننگ کے حوالے سے احکام کی وجہ سے کثرت کیساتھ تربیتی مشقیں کی جارہی ہیں، ہم تین سالہ پروگرام کے دوسرے سال میں ہیں، جس میں فارمیشنز لیول مشقیں کی جارہی ہیں، اگلے سال آرمی لیول مشقیں کی جائیں گی، آرمی کی 183 سے زائد یونٹس نے 2024 میں مشقوں میں شرکت کی، تقریباً اتنی ہی تعداد 2025 میں جنگی مشقوں میں شریک ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں