آگے بڑھنے کا راستہ، ہر ڈویژن نیا صوبہ، مالی اخراجات کم، عوامی مسائل بھی حل : میاں عامر محمود
لاہور (ہیلتھ رپورٹر، مانیٹرنگ ڈیسک) چیئرمین پنجاب گروپ آف کالجز میاں عامر محمود نے کہا آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو نیا صوبہ بنایا جائے، اس سے مالی اخراجات کم اور عوامی مسائل بھی حل ہوں گے۔
33 ہائیکورٹس بنیں گی، انصاف ملے گا ، اس وقت ایک جج ایک منٹ بھی کیس کو دے تو انبار کم نہیں ہو تا ،ڈکیتی چوری میں کسی کو آج تک سزا نہیں ہوئی ،ہماری بڑی آبادی مگر چار صوبے ،دنیا میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں ،بچوں کی تعلیم میں بھی پیچھے ، نئے صوبوں سے بلوچستان میں شورش ختم ہو جائے گی،آئین میں مقامی حکومتوں کا ذکر ہے مگر اس پر عمل نہیں ہورہا ، آنیوالے دور میں عام کامو ں کے لیے بھی تعلیم ضروری ہو گی، بڑے خاندان سے کوئی لیڈر نہیں بنتا ، پوری دنیا میں لیڈر شپ مڈل کلاس سے آتی ہے ، روٹی ،کپڑا سسٹم سے ملے گا ۔ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان( ایپ سپ)کے زیر اہتمام 2030 کا پاکستان چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں کے موضوع پروہ بطور مہمان خصوصی خطاب کر رہے تھے ۔
چیئرمین سپیریئر گروپ و ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز آف پاکستان پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمن نے میاں عامر محمود کو خوش آمدید کہا اور سیمینار کے اختتام پر سوینئر پیش کیا۔ میاں عامر محمود نے اپنے خطاب میں کہا صوبوں کے حوالے سے ہماری بات ہوتی رہی ہے کہ نئے صوبے ہونے چاہئیں،ایجوکیشن فیلڈ میں ہم نے جو موومنٹ شروع کی اس میں چودھری عبدالرحمن نے اہم کردار ادا کیا ہے ،ہماری بڑی آباد ی ہے اور پاکستان ایک فیڈریشن ہے جس کے 4 صوبے ہیں، دنیا میں کہیں کوئی ایسی مثال نہیں،برازیل میں ایک کروڑ 30لاکھ کی آبادی ہے ،36اس کے صوبے ہیں،بنگلہ دیش کی 16کروڑ 40لاکھ آبادی ہے انہوں نے یونیٹری سٹیٹ بنایا ہوا ہے ،اس میں ڈسٹرکٹ کو پاور دی ہوئی ہے ، ان کے درمیان صوبہ نہیں ہوتا،روس کی آبادی کم ہے اس کے 46صوبے ہیں،23ری پبلکس ہیں،70کے قریب ایڈمنسٹریٹرز ہیں،دوسری جانب ہمارا بلوچستان رقبہ میں دنیا کے بہت سے ممالک سے بڑا ہے ،اسی طرح پنجاب کی آبادی زیادہ ہے ، ہم نے اس کا کوئی سسٹم نہیں رکھا،ہم نے صوبے کو آبادی کے لحاظ سے سوچ کر نہیں بنایا، اور نہ ہی رقبے کے لحاظ سے بنایا،دنیا میں کئی فیڈریشنز ہیں، امریکا بھی ایک فیڈریشن ہے ،اس ملک نے صوبے نہیں بنائے بلکہ صوبے مل کر ملک بناتے ہیں،بھارت آزاد ہوا تو اس کے تھوڑے صوبے اور 600 ریاستیں تھیں۔1951 میں پنجاب کی آبادی دو یا تین کروڑ تھی،اب لاہور کی آبادی اس وقت کے پورے پنجاب کے برابر ہے ،سندھ میں 60لاکھ آبادی تھی،اس کے برابر اب کراچی کی آبادی ہو چکی ہے ، کے پی کے کی آبادی 51لاکھ تھی،اب کہیں زیادہ ہو چکی ہے ،جو نظام ہمارے یہاں ہے دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے ،پنجاب اس وقت 13 کروڑ آبادی کا صوبہ ہے جو دنیا کا چھٹا ملک بن سکتا ہے ، پنجاب کے بعد سندھ، کے پی کے ، بلوچستان ہیں،بلوچستان کا رقبہ اتنا زیادہ ہے اس میں کئی ممالک سما سکتے ہیں،ہم نے دیکھا ہے پنجاب اپنا حصہ دوسرے صوبوں کو دیتا ہے ،گالی پھر بھی پنجاب کو پڑتی ہے ۔چھوٹے کاموں کیلئے صوبے بنائے جاتے ہیں، گلی محلے کے مسائل دیکھنے کیلئے لوکل گورنمنٹ بنائی جاتی ہے ، ملک حکومت کی پالیسیوں سے چلتے ہیں، حکومت کی ہر پالیسی آنے والی نسلوں پراثر انداز ہوتی ہے ،ہمیں ایک سال ایسا نہیں ملے گا جس میں قرض نہ لیا گیا ہو، پنجاب اور بلوچستان میں لوکل گورنمنٹ نہیں، کبھی بنتی ہے کبھی ٹوٹتی ہے ، وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ یہ تین ستون ہیں، روزمرہ زندگی سے جڑے مسائل حل کرنے کیلئے لوکل گورنمنٹ ہوتی ہے ۔
جن صوبوں میں لوکل گورنمنٹ موجود ہے انہیں وفاق میں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، ہم لوکل گورنمنٹ کے وجود سے محروم ہیں، حکومت سمجھتی ہے کہ ہم اقتدار میں آ گئے جمہوریت آگئی، پہلے ادوار میں بادشاہ خوشحال تھے ، عوام خوشحال نہیں تھی۔ بڑے خاندان سے کوئی لیڈر نہیں بنتا ، پوری دنیا میں لیڈر شپ مڈل کلاس سے آتی ہے ،بھارت میں ایک چائے والا وزیر اعظم بن جاتا ہے ،ہمارے سائنس دان،انجینئرز، ڈاکٹرز قومی لیڈرشپ میں نہیں آ سکتے ؟ جب تک سسٹم سپورٹ نہیں کرے گا مڈل کلاس سے لیڈرشپ نہیں مل سکتی، روٹی ،کپڑا سسٹم سے ملے گا ۔حکومت نے بلڈنگ اور اساتذہ تو اچھے دے دئیے لیکن تعلیم اچھی نہیں ہو پائی،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شرح خواندگی پچھلے دس سالوں میں کم ہوئی جبکہ پنجاب میں بھی صرف 5 فیصد اضافہ ہو سکا ہے ۔پنجاب حکومت نے 10 ہزار سکول پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کیے ہیں، حکومت سکول جانے والے ہر بچے پر 4400 روپے خرچ کر رہی ہے ، ہمارے پاس سکولز، کالجز اور ہسپتال ہیں لیکن کام نہیں ہو رہا۔پنجاب میں 2001 کے بعد اساتذہ کی بھرتیاں میرٹ پر ہوئیں، کوئی وزیر لاہور میں بیٹھ کر 50 ہزار سکولوں کو مانیٹر نہیں کر سکتا ہے ۔ آئین میں مقامی حکومتوں کا ذکر ہے مگر اس پر عمل نہیں ہورہا ، آنیوالے دور میں عام کامو ں کے لیے بھی تعلیم ضروری ہو گی ۔ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے ، زیادہ صوبے بنانے سے خرچ نہیں بڑھے گا، اسی کا کمشنر چیف سیکرٹری ہو جائے گا،اسی کا آر پی او وہاں کا آئی جی بن جائے گا،چھوٹے صوبے بننے سے مسائل حل ہوں گے ، چھوٹی حکومت کے کام عوام کو نظر بھی آئیں گے ، صوبہ چھوٹا ہونے سے کارکردگی کو مانیٹر بھی کیا جا سکے گا۔ بہاولپور، ڈی جی خان اور ملتان کو الگ الگ صوبہ بننا چاہیے ، سندھ میں کراچی کو الگ صوبہ بنا دینا چاہیے ، کراچی کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو حالات بہت بہتر ہو جائیں گے ، دبئی آج جس مقام پر ہے وہاں کراچی کو ہونا چاہیے تھا۔
بلوچستان میں نصیر آباد، سبی، ژوب، قلات، مکران اور کوئٹہ کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے ، بلوچستان کی آبادی کم اور قدرتی وسائل بہت زیادہ ہیں، نئے صوبوں سے بلوچستان میں شورش ختم ہو جائے گی ، اسی طرح ڈی آئی خان، کوہاٹ، مالا کنڈ، مردان اور پشاور کو صوبہ بننا چاہیے ۔صوبوں میں محکموں کی تعداد بھی کم کرنے کی ضرورت ہے ، کچھ محکمے کام کرنے والے جبکہ باقی غیر ضروری ہیں، ہر صوبے میں 16 محکمے ہونے چاہئیں، صوبے میں 16 سے زیادہ محکموں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہمارے ہاں ایک درخواست کیلئے عدالت کے سالوں چکر لگانے پڑتے ہیں ،ایک معمولی کیس کو حل ہونے میں 17 سے 18 سال لگتے ہیں۔ایک جج کے پاس ایک دن میں ایک ہزار سے زائد کیس آتے ہیں۔ چوری اور ڈکیتی دونوں میں سے کسی کیس میں بھی آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی،ایک معروف شبنم ڈکیتی کیس ہوا تو اس میں بھی کسی کو سزا نہ ہوئی،سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد بھی سیشن کورٹ نے کرانا ہوتا ہے ،فیملی اور جائیداد کے جھگڑے کے کیسز کو نمٹانے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے ان 2 افراد کو بری کر دیا جن کو پھانسی ہو چکی تھی،جب صوبے زیادہ ہوں گے تو جوڈیشل سسٹم بھی ٹھیک ہو گا، 33 صوبے ہونے سے 33 ہائیکورٹس ہوں گی جس سے کیسز کے فیصلے بھی جلد ہو سکیں گے ۔ ہم جنت نہیں ایسا سسٹم مانگ رہے ہیں جس سے عوامی مسائل حل ہوں، کسی صوبائی حکومت کو بلدیاتی نظام منظور ہی نہیں، کسی بھی صوبائی حکومت نے موثر لوکل گورنمنٹ نہیں بنائی۔
ایک یا دو دن میں تبدیلی نہیں آئے گی، عوام نے تبدیلی کیلئے ووٹ دیا لیکن کچھ تبدیل نہیں ہوا، جس کو ووٹ دیں اس سے تبدیلی کا مطالبہ کریں، کسی لیڈر کی تقریر سیاسی لگاؤ کے باعث نہیں سننی چاہیے ، یہ دیکھنا چاہیے کہ تقریر کرنے والا لیڈر عوام کیلئے کیا کر سکتا ہے ۔کوئی نظام لیکر آیا ہوں نہ کوئی نظام نافذ کرنا چاہتا ہوں، آج کی گفتگو کا مقصد صرف آگاہی پیدا کرنا ہے ، چھوٹے صوبے بنانے کی بات نواز شریف اور عمران خان نے بھی کی تھی، زیادہ صوبوں کی تجویز حکمرانوں کیلئے بھی اچھی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا سسٹم اور گورننس ٹھیک ہونے سے زیادہ فائدہ عوام کو ہوگا، گڈ گورننس سے زیادہ فائدہ نوجوانوں کو ہوگا، کسی کو پکڑنا یا چھوڑ دینا یہ ہماری ترجیحات نہیں، یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آپ کی ترجیحات کیا ہیں، صوبائی یا لسانی بنیاد پر ترجیحات درست نہیں۔18 ہویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس پیسے کی کمی نہیں، سب کو ترقی کے یکساں مواقع دینا ہوں گے ، بھارتی وزیراعظم نچلی سطح سے اوپر آیا، 3 میں سے 2 بھارتی صوبے خالصتان کو سپورٹ نہیں کرتے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہر لیڈر نے اپنی حکومت بنانے کیلئے کچھ نہ کچھ کیا ہے ، معاشرے کی ترقی اور تنزلی مجموعی طور پر ہوتی ہے ، ریاست مدینہ میں ایسے لوگ تھے جن کی نیکی اور تقویٰ بے مثال تھی، ریاست مدینہ میں مشاورت سے بہترین فیصلے کیے جاتے تھے ۔ انفرادی اصلاح سے معاشرتی اصلاح ممکن ہے ، جتنا چھوٹا سسٹم ہوگا اتنا آپ کی نظر میں ہوگا، فیڈرل حکومت دفاع اور تجارت کے نظام کو دیکھ رہی ہے ، نچلی سطح پر مسائل کے حل کیلئے صوبے کام کرتے ہیں،صوبے کم ہونے سے گورننس کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اب اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔