اُردو زبان پر جس قدر عبور جوش صاحب کو تھا اتنا عبور کم ہی کسی کو رہا ہوگا رواں ہفتے جوش ملیح آبادی کی برسی منائی گئی۔ اس موقع پر مجھے مرحوم کا ایک طویل ریڈیو انٹرویو یاد آیا جو سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں ریڈیو پاکستان کے سنٹرل پر ڈوکشنز کے دفتر میں ریکارڈ ہوا تھا۔ یہ اس سیریز کا انٹرویو تھا جس میں پاکستان کی تاریخ کو محفوظ کیا جارہا تھا اور اس کے ضمن میں یہ طے تھا کہ جس شخصیت کا بھی انٹرویو ہوگا اس انٹرویو کو ریڈیو کی سنٹرل لائبریری میں‘ جب تک وہ شخصیت حیات رہے گی‘ محفوظ رکھا جائے گا ۔ جوش صاحب کو بھی یہی بتایا گیا تھا لہٰذا وہ بہت کھل کر بولے۔ بعدازاں ریڈیو کے اندر ہی سے کسی شریف شخص نے اس انٹرویو کے کچھ حصے ایک رسالے کو فراہم کردیے تھے جس سے ریڈیو کو شرمندگی اٹھانی پڑی اور جوش صاحب کو نقصان۔ جوش صاحب کی کچھ بولڈ باتوں کی وجہ سے‘ جو اس انٹرویو کے حوالے سے ایک مقامی رسالے نے شائع کیں‘ حکومتِ وقت نے اس بے مثال شاعر کے وظائف وغیرہ بند کردیے تھے۔ میرا موضوع جوش صاحب کی وہ بولڈ باتیں نہیں ہیں کیونکہ آج کل تو ویسی باتیں اکثر اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ہوتی رہتی ہیں اور کوئی توجہ نہیں دیتا۔ مجھے اس انٹرویو کے اور بھی بعض حصّے یاد آتے ہیں جن کا احوال کافی دلچسپ ہے۔ جوش صاحب کا انٹرویو شاہ حسن عطا نامی ایک معروف علمی شخصیت نے کیا تھا۔ شاہ حسن عطا اپنے طالب علمی کے دور میں علی گڑھ مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے تھے اور پاکستان ٹیلیویژن کے شروع کے زمانے میں رات نو بجے کی خبریں پڑھا کرتے تھے۔ ان کی خبروں کی خاص بات ان کا مخصوص انداز بھی تھا اور پھر بعض الفاظ کا ان کا تلفظ بھی منفرد ہوتا تھا۔ مثال کے طورپر وہ اُردن کے شاہ حسین کو شاہِ حسین پڑھتے تھے۔ اسرائیل کے شہر تل ابیب کو تلِّ اب یب کہتے تھے۔ ایسے تلفظات ان کے نزدیک درست تھے اور ہوں گے بھی مگر ہمارے ہاں نامانوس تھے لہٰذا شاہ حسن عطا اس حوالے سے پاکستان کے علمی اور ادبی حلقوں میں زیر بحث بھی رہتے تھے۔ جوش صاحب کا انٹرویو جب شروع ہوا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاہ حسن عطا خاص تیاری سے آئے ہیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ غزل کی اہمیت کے بارے میں جوش صاحب کو قائل کرکے رہیں گے اور ساتھ ہی ساتھ وہ جوش صاحب کی سوانح عمری میں درج واقعات کا سہارا لے کر ایسے تضادات پیش کریں گے کہ جوش صاحب لاجواب ہوجائیں۔ سیاسی سوالات کا سلسلہ ایسے سوالوں سے الگ تھا۔ یہ بڑا طویل انٹرویو تھا اور اس کی وجہ شاہ حسن عطا مرحوم کے سوالوں کی طوالت بھی تھی۔ میں نے زندگی میں کسی انٹرویو میں اتنے طویل سوال نہیں سُنے۔ موصوف بعض مرتبہ پندرہ بیس منٹ تک سوال کرنے کی آڑ میں تقریر کرتے رہتے اور جوش صاحب انتہائی تحمل سے سنتے رہتے۔ اس کے بعد مناسب جواب دے دیتے۔ کوئی گھنٹہ بھر صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کے بعد ایسامعلوم ہوا کہ جوش صاحب اب مزید ایسی گفتگو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پہلے تو جوش صاحب تحمل سے طویل سوالات سنتے تھے اب انہوں نے شاہ حسن عطا کو ٹوکنا شروع کردیا۔ ایک موقع پر شاہ حسن عطا نے ایک جملے میں کسی فن پارے کے بارے میں کہا کہ وہ تو معرکتہ الآرا ہے۔ جوش صاحب بلند آواز میں بولے ’’غلط‘‘ ۔ ایک دم سناٹا چھا گیا۔ جوش صاحب گویا ہوئے۔ معرکہ بھی فارسی ہے اور آرا بھی فارسی ہے۔ یہ تُل کہاں سے آگیا۔ صحیح ترکیب ہے معرکہ آراء۔ شاہ حسن عطا بالکل سُن ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے پھر بولنا شروع کیا تو ایک موقع پر کہہ گئے قریب المرگ۔ پھر جوش صاحب کی آواز آئی ’’غلط‘‘ پھر خاموشی۔ جوش صاحب بولے۔ قریب عربی ہے اور مرگ فارسی ہے۔ صحیح ہوگا اگر آپ کہیں قریب الموت۔ کچھ دیر جب یہ سلسلہ چلتا رہا تو آہستہ آہستہ انٹرویو کا انداز بدلتا گیا اور ساتھ ہی جناب شاہ حسن عطا مرحوم کا انداز بھی بالکل تبدیل ہوگیا۔ جوش صاحب نے ایسا لگتا تھا کہ شاہ حسن عطا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ اب شاہ حسن عطا وہ سوال کرنے لگے جن میں ہلکی ہلکی جوش صاحب کی مدح جھلکتی تھی۔ انہوں نے کہا جوش صاحب آپ قادر الکلام شاعر ہیں جس انداز میں آپ نے اردو زبان کے الفاظ کو استعمال کیا ہے اور جتنا وسیع ذخیرہ الفاظ آپ کی شاعری میں ملتا ہے اس بارے میں بتائیے کہ یہ ہنر آپ نے کیسے سیکھا۔ یہ سن کر جوش صاحب ہلکا سا مسکرائے۔ بولے: بھائی میں تو روتا رہتا ہوں۔ میرے خیالات کو الفاظ کی سواریاں ہی نہیں ملتیں۔ ایسے ایسے خیال آتے ہیں جن کے لیے الفاظ نہیں ملتے اور میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی کیونکہ شاہ حسن عطا حیرت میں مبتلا تھے کہ کیا کہیں۔ جوش صاحب بولے: ’’میں دہلی میں تانگے پر جارہا تھا کہ آگے ایک عورت آگئی۔ اس عورت نے سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ تانگے والے نے آواز لگائی: ’او مائی راستے سے ہٹ جا‘۔ اس عورت نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اصل میں بارہ تیرہ سال کی ایک لڑکی تھی۔ یہ سن کر کہ اس کو مائی کہہ کے مخاطب کیا گیا ہے اس کے چہرے پر جو تاثرات میں نے دیکھے ان کو آج تک الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ‘‘ مجھے یاد ہے جوش صاحب یہ باتیں کوئی پوائنٹ سکورنگ کے لیے نہیں کررہے تھے۔ ان کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ انتہائی سنجیدگی اور خلوص سے یہ محسوس کرتے تھے کہ زبان کے الفاظ ابلاغ کے لیے کتنے محدود ہوتے ہیں۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ اردو زبان پر جس قدر عبور جوش صاحب کو تھا اتنا عبور کم ہی کسی کو رہا ہوگا۔