"ARC" (space) message & send to 7575

فحاشی اور معیاری جگت بازی

سٹیج پر بہت کم ایسے فنکار ہیں جو نئی جگت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں آج کل لاہور کے سٹیج ڈراموں اور کچھ ٹی وی پروگراموں کی رعایت سے جگت بازی کا بہت چرچا رہتا ہے۔ ہمارے فن کار اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُن جیسی جگت کوئی نہیں کرتا بلکہ بعض تو باقاعدہ بھارت کو طعنہ دیتے ہیں کہ اتنے بڑے ملک میں مزاحیہ پروگراموں کا معیار یہ ہوتا ہے کہ اکثر انہیں دیکھ کر ہنسی کی بجائے رونا آتا ہے۔ ہمارے سٹیج کے فنکار یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ بھارت کے مزاحیہ فنکار پاکستانی فنکاروں کے آئٹم اور جگتیں چرا کر کام چلاتے ہیں۔ اکثر ایسا دیکھنے میں بھی آتا ہے۔ اگر آپ سٹیج ڈرامے دیکھتے ہوں اور آپ کو پنجابی بھی آتی ہو تو یہ بات درست ہے کہ ان ڈراموں میںجُگت بازی بہت دلچسپ ہوتی ہے لیکن اگر آپ مسلسل کئی ڈرامے دیکھیں اور سٹیج کے معروف آرٹسٹوں کی مختلف پروگراموں میں پرفارمنس دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ زیادہ تر جگتیں معیاری نہیں ہوتیں‘ اکثر گھسی پٹی ہوتی ہیں۔ کئی ڈراموں میں ناظرین فنکاروں سے نئی جگت کا تقاضا کرتے سنائی دیتے ہیں۔ سٹیج پر بھی بہت کم ایسے فنکار ہیں جو طبع زاد اور نئی جگت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ وگرنہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ فنکاروں نے مشہور و معروف جگتیں یاد کی ہوتی ہیں اور بوقت ضرورت تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ ان سے کام چلاتے رہتے ہیں۔ سٹیج ڈراموں میں پرانی جگت بھی اگر سلیقے سے کی جائے تو اس کی بھی داد مل جاتی ہے مگر شرط یہ ہوتی ہے کہ وہ زور دار ہو۔ جگت بازی میں اپنے حریف کی شکل‘ لہجے یا اس کے لباس وغیرہ کا مذاق اُڑانا‘ کمزور جگت بازی کے زُمرے میں آتا ہے۔ مثلاً ایک فنکار دوسرے کو کہہ رہا تھا ’’کیا اداس بندر کی شکل بنائی ہوئی ہے‘‘ یا پھر ’’اے! بیمار بھکارن کے بچے‘‘۔ جگتیں عموماً پنجابی میں کی جاتی ہیں۔ جگتوں کی یہ ادنیٰ شکل بہت عام ہے۔ اگرچہ اچھا فنکار اس نوعیت کی جگت میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کو اس طرح اجاگر کرجاتا ہے کہ ہنسی کے فوارے چھوٹ جاتے ہیں لیکن ایسی جگت بازی کمزور جگت بازی ہی رہتی ہے۔ یہاں تک تو بات کچھ حدود میں ہے مگر بعض اوقات جگت باز گھٹیا ذوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فحاشی کی حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ آج کل زیادہ تر سٹیج ڈرامے ایسی ہی جگتوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ فحاشی انسانی کمزوری ہے۔ یہ جہاں کہیں ہو اس کی پزیرائی ہی ہوتی ہے۔ اکثر لوگ چونکہ تھیٹر میں جا کر سٹیج ڈرامے نہیں دیکھتے اس لیے ان کو اندازہ نہیں ہے کہ یہ جگت بازی کتنی فحش ہوتی ہے۔ میں اس فحش جگت بازی کی مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہوں‘ صرف ایک معمولی سی جگت تحریر کر دیتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ جب فنکار یا جو فنکار فحش جگتیں کر کے مشہور ہوتے ہیں وہ کس میدان کے کھلاڑی ہیں۔ اس جگت میں ایک فنکار ڈرامے کی سچوئشن (Situation) میں بتا رہا ہوتا ہے کہ اس کی ماں کیا کیا کچھ کامیابی سے کر لیتی ہے۔ یہ سُن کر دوسرا فنکار اس پر جگت کرتا ہے ’’اوئے ماں دیاں تریفاں کری جاناں اے۔ میں گاہک آں‘‘ (یعنی اپنی ماں کی تعریفیں کرتے جا رہے ہو۔ میں اس کا کوئی گاہک ہوں)۔ اس سے آپ اندازہ کر لیں اور ایسی جگت کو آپ محض ابتدا ہی سمجھیں۔ انتہا کیا ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ میری اس حوالے سے سٹیج کے ایک سینئر فنکار سے بات ہوئی‘ موصوف کا کہنا تھا کہ جب سے سٹیج ڈراموں میں نوجوان لڑکیوں کے رقص شروع ہوئے ہیں اس کے بعد سے سٹیج فنکاروں کو مجبوراً فحش جگت بازی کا سہارا لینا پڑا ۔ ہو سکتا ہے اس فنکار کی یہ بات درست ہو مگر اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو بسنت کے دوران دھاتی اور کیمیکل ڈور کے استعمال سے نکلا تھا یعنی ڈراموں پر پابندی لگتی ہے۔ ابھی تک تو یہ پابندی کچھ دنوں بعد اُٹھا لی جاتی ہے مگر کیا پتہ کوئی سخت انتظامیہ آکر لوگوں کی تفریح کے اس سامان کو مستقلاً بند کرنے کا سوچنے لگے۔ ہمارے ہاں جگت بازی میراثیوں کی میراث ہے۔ ان لوگوں کے ہاں جگت فائن آرٹس کا درجہ رکھتی ہے۔ میرا تعلق بہت عرصے تک ریڈیو سے رہا ہے۔ میں نے ان لوگوں کی جگتوں کی باریکیاں دیکھی ہیں۔ ہمارے ایک افسر میوزک سیکشن کے انچارج تھے۔ اس زمانے میں ہیرا منڈی میں گانے والیوں کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ٹی وی اور ریڈیو پر گائیں۔ اس سے ان کا کاروبار چمکتا تھا۔ ٹی وی نیا نیا آیا تھا اور ان کا ہدف ہوتا تھا کہ ٹی وی پر آئیں مگر ٹی وی والے ان گانے والیوں سے پوچھتے تھے کہ کبھی ریڈیو پر گایا ہے۔ لہٰذا طوائفیں اور گانے والیاں ریڈیو پر گانے پر مجبور ہوتی تھیں ورنہ انہیں ریڈیو کے انتہائی کم معاوضے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔ بڑے بڑے امیر لوگ ان کا گانا سننے آتے تھے لہٰذا یہ خود بھی کافی امیر ہوتی تھیں۔ میوزک سیکشن کے انچارج جس افسر کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ ایک دن وہ اپنے کمرے میں براجمان تھے‘ پاس ہی ایک کلانٹ نواز صادق علی مانڈو بیٹھا تھا کہ ایک انتہائی خوبصورت گانے والی کمرے میں داخل ہوئی۔ میوزک سیکشن کے افسر نے اس گانے والی سے کچھ ایسی گفتگو کی کہ اس نے (افسر کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے) دریافت کیا ’’سر آپ کو تنخواہ کتنی ملتی ہے‘‘۔ افسر نے شرمندگی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’تنخواہ تو ویسے چھ سو روپے ہے لیکن الائونس شلائونس ڈال کر ہزار بارہ سو بن جاتی ہے‘‘۔ وہ گانے والی ہلکا سا مسکرائی اور اپنی کلائی میں سونے کے بھاری کنگن گھماتی کمرے سے باہر چلی گئی۔ اصل میں اس افسر کی تنخواہ پانچ سو روپے کے قریب تھی جس میں سب الائونس شامل تھے۔ افسر صاحب تھوڑی دیر خاموش رہے‘ بات آئی گئی ہو گئی۔ کچھ دنوں بعد صادق علی مانڈو نے بغیر درخواست دیے دفتر سے چھٹی کر لی۔ اس افسر نے حسبِ معمول اگلے روز اُسے طلب کر کے ڈانٹا اور کہا جائو کل کی چھٹی کی درخواست لے کر آئو۔ صادق علی مانڈو گیا اور کوئی آدھ گھنٹے بعد ایک کاغذ پر لکھی درخواست لے کر پیش ہوا۔ افسر نے درخواست پڑھی اور اس کے بعد صادق علی مانڈو سے مخاطب ہوا۔ ’’اوئے بیوقوف! یہ تم نے درخواست میں کیا لکھا ہے۔ تم نے لکھا ہے کہ مجھے 110 ڈگری کا بخار ہو گیا تھا لہٰذا مجھے ایک روز کی رخصت دی جائے۔ اوئے گدھے! تمہیں پتہ نہیں کہ 110 ڈگری بخار سے تو آدمی مر جاتا ہے‘‘۔ صادق علی مانڈو نے سر کھجاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا ’’وہ سر جی اصل میں بخار تو 100 ہی تھا بس ذرا الائونس شلائونس ملا کر 110 ہو گیا تھا‘‘۔ بس پھر کیا ہوا‘ صادق علی مانڈو برآمدے میں آگے آگے بھاگ رہا تھا اور افسر ہذیان بکتے ہوئے اس کے پیچھے۔ جگت جن لوگوں کی میراث ہے ان کی جگت کا یہ معیار ہوتا تھا۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں