"ARC" (space) message & send to 7575

کیا رونقیں بحال ہوپائیں گی؟

مغربی ادب کی ایک پرانی کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ایک غریب لڑکی ایک مہمان خانے میں ملازم ہوتی ہے۔ وہاں ایک امیر لڑکا آکر ٹھہرتا ہے، یہ لڑکی اس پر عاشق ہوجاتی ہے مگر اس پر ایک انکشاف ہوتا ہے کہ وہ لڑکا تو کسی دولت مند لڑکی کی تلاش میں ہے۔ دو چار روز بعد لڑکا اس مہمان خانے سے چلا جاتا ہے اور وہ لڑکی اپنی محبت دل میں لئے رہ جاتی ہے۔ کئی برسوں بعد اس غریب لڑکی کی بہت بڑی لاٹری نکل آتی ہے۔ لاٹری کی رقم ملنے کے ساتھ ہی اس کی وہ پرانی محبت جاگ جاتی ہے اور وہ اس لڑکے کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ اگرچہ برسوں بیت چکے ہیں۔ اس لڑکی کی جوانی ڈھل چکی ہے مگر پتہ نہیں کیوں اس کو لگتا ہے کہ وہ لڑکا اگر اس نے ڈھونڈھ لیا تو ممکن ہے وہ اس کو اپنی دولت کے سہارے حاصل کرلے۔ لہٰذا وہ اس لڑکے کی تلاش شروع کردیتی ہے۔ مزید کئی برس گزرنے کے بعد آخر وہ اس لڑکے کو ڈھونڈ نکالتی ہے۔ اب صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ لڑکا جو اس لڑکی ہی کی طرح کافی عمر کا ہوچکا ہے وہ بھی ابھی تک تنہا ہی ہوتا ہے مگر یہ لڑکی اس کو دیکھ کر وہ پرانی محبت بالکل محسوس نہیں کرتی۔ سوچ میں پڑ جاتی ہے کہ وہ برسوں سے کیا ڈھونڈھ رہی تھی؟ آخر میں نتیجہ نکالتی ہے کہ اس لڑکے کی شکل میں دراصل وہ خود اپنی جوانی کو ڈھونڈ رہی تھی جو کہ رخصت ہوچکی ہے اور کبھی واپس آنے والی نہیں ہے۔ برسوں پہلے پڑھی ہوئی یہ کہانی مجھے اخباروں میں شائع ہونیوالی اس خبر پر یاد آئی کہ ’’پاک ٹی ہائوس کی رونقیں پھر بحال کردی گئی ہیں‘‘۔ لوگ اس ادبی ماحول کو ڈھونڈ رہے ہیں جو نصف صدی پہلے لاہور میں ہوتا تھا تو وہ کہانی میں بیان کی گئی لڑکی کی جوانی کی طرح ہے۔ وہ واپس آنے سے رہا۔ اب پتہ نہیں کیا بحال ہوگیا ہے یا ہوگا۔ پاک ٹی ہائوس جہاں واقع ہے اگر ہم مال روڈ کے اسی حصے کو لیں تو یہاں ساٹھ کے عشرے میں ’’کافی ہائوس، چینیز لنچ ہوم، مال ویو ریسٹورنٹ، گرین ریسٹورنٹ، YMCA ریسٹورنٹ اور پاک ٹی ہائوس اور اس کے باہر مرزا کا ٹی سٹال، یہ سب ادیبوں شاعروں کے اڈے ہوتے تھے۔ ان ریسٹورنٹوں کے علاوہ شاعر ادیب اور دانشور ٹولیوں کی شکل میں اس علاقے میں باہر بھی پھرتے تھے۔ انتہائی گرما گرم بحثیں ہوتی تھیں مگر لڑائیاں نہیں ہوتی تھیں۔ پہلی لڑائی جو مجھے یاد ہے وہ شورش کاشمیری اور کوثر نیازی کے درمیان ہوئی اور تلخی اس حد تک بڑھی کہ گھی کے ڈبے ایک دوسرے پر مارے گئے۔ اس واقعے پر اس دور کے ایک کالم نگار نے تحریر کیا تھا کہ اب ہمیں ٹھمریوں کے بول بھی اس طرح کے کردینے چاہئیں ’’سیاں ڈبہ نہ مارو مجھے گھی کا، میں مرجائوں مرجائوں گی‘‘ گویا اس تلخ واقعے کو بھی مزاحیہ رنگ میں دبا دیا گیا تھا۔ پرانے ادبی ماحول کو واپس لانے کے لیے نیر علی دادا نیرنگ گیلری میں قائم ریسٹورنٹ کی خدمات پیش کرچکے ہیں۔ پھر آرٹس کونسل میں بھی کوشش ہوچکی ہے مگر یہ تمام کوششیں ایسی ہی ثابت ہورہی ہیں جیسے جوانی واپس لانے کی کوششیں ہوں۔ میاں نواز شریف نے پاک ٹی ہائوس کی رونقیں بحال کرنے میں بہت دلچسپی لی ہے اور اپنے بھتیجے کی کاوشوں سے افتتاح بھی کردیا ہے مگر کیا اس طرح وہ گیا وقت ہاتھ آجائے گا۔ کیا وہ ادبی ماحول جو اس دور کا نمائندہ تھا دوبارہ پیدا ہوسکے گا۔ اپنی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے میاں صاحب نے جس تفصیل سے ماضی میں اپنی حکومتوں کی فتوحات گنوائیں اس سے شبہ پڑتا ہے کہ وہ مستقبل میں بھی پاکستان کی رونقیں اسی طرح بحال کرنا چاہتے ہیں جس طرح انہوں نے پاک ٹی ہائوس کی رونقیں بحال کی ہیں۔ اگر انسان آنکھیں کھلی رکھیں تو قدرت اس کی تدریس کا انتظام مسلسل کرتی رہتی ہے۔ جو لوگ لاہور کی ادبی رونقوں کی بحالی چاہتے ہیں ان کو ایک نظر اس ادبی میلے پر ڈالنی چاہیے تھی جو حال ہی میں لاہور آرٹس کونسل میں منعقد ہوا اور جس میں انگریزی زبان میں ہمارے لکھنے والے مرکز نگاہ بنے رہے۔ ہمارے نوجوانوں نے جس طرح خوشبو کی مانند ان لکھاریوں کی پذیرائی کی اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اردو ادب کے ساتھ ساتھ اب ہمارے لوگوں اور خاص طور پر ہمارے نوجوانوں کا انگریزی ادب سے ایسا تعلق ہوگیا ہے کہ ہر نئی آنے والی اہم کتاب پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور ای میل رابطوں کے ذریعے ہمارے نوجوان انگریزی میں لکھنے والے ادیبوں کے فن پاروں پر ایک دوسرے سے مکالمے میں رہتے ہیں۔ وہ محسن حامد اور محمد حنیف جیسے ادیبوں اور ان کی تصنیفات کو پڑھتے اور پسند کرتے ہیں۔ ماضی میں ہمارے ہاں انگریزی ادب زیادہ تر کلاسیکی مصنفین تک محدود تھا اور ہمارے ہاں یہ ماحول نہیں تھا جو آج کل ہمارے نوجوانوں میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے ادبی ماحول کو یہ صورتحال تنوع بخشتی ہے۔ اردو میں ہمارے نئے لکھنے والوں کو انگریزی کے ان ادیبوں کے ساتھ مکالمے میں رہنا چاہیے۔ اس ادبی میلے میں \"The Last Mogul\" کے مصنف William Dalrymple بھی شریک تھے۔ ان کی جس تصنیف کا میں نے حوالہ دیا ہے اس کے لیے مصنف نے کتنی ریسرچ کی اس کا اندازہ یہ کتاب پڑھ کر ہی ہوسکتا ہے۔ ولیم اس کتاب کے قاری کو 1857ء کے دہلی میں اس طرح پہنچا دیتا ہے کہ جیسے قاری اس دور میں وہیں رہائش پذیر ہو اور سب واقعات اس کے سامنے ہورہے ہوں۔ آج کل اردو میں نئے لکھنے والوں کے لیے یہ کتاب اور ایسی دیگر جدید کتب رہنما ہوسکتی ہیں تاکہ اردو ادب بھی ان جدید رجحانات سے مستفید ہوسکے۔ نصف صدی پہلے کا وہ ادبی ماحول اس دور کی ضرورت تھی۔ اس کو واپس لانے کی کوششیں جوانی واپس لانے کی کوششیں ہی ثابت ہوں گی۔ ہمیں ایسے ادبی ماحول کو تقویت دینے کی ضرورت ہے جس میں آج کے جدید دور کی آواز ہو اور جو اردو کے روائتی ادیبوں کے ساتھ ساتھ انگریزی کے لکھنے والوں کا بھی نمائندہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس میں علاقائی زبانوں کے ادب کی پذیرائی کی بھی گنجائش ہو۔ ماضی کو ساتھ ضرور رکھیں مگر ماضی میں گم نہ ہوں۔ یہی ضرورت سیاست میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان جماعتوں کو محض تبدیلی کے نعرے نہیں لگانے چاہئیں بلکہ تبدیلی کے لیے قابل عمل لائحہ عمل بھی دینا چاہیے۔ ماضی میں آپ نے کیا کارنامے کیے اس کے ذکر سے بہتر ہے کہ آپ مستقبل میں کیا کریں گے‘ اس کو تفصیل سے بتائیں اور یہ یاد رکھیں کہ آج کے الیکٹرانک دور میں عوام کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب آپ تھرکول سے بجلی پیدا کرنے کی بات کرتے ہیں تو لوگ منٹوں میں جان لیتے ہیں کہ ایک زمانے میں چین ہماری اس سلسلے میں مدد کر رہا تھا مگر ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ان کو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ تھرکول کتنا معیاری ہے۔ ان تک یہ بات بھی پہنچ جاتی ہے کہ ہمارے سرکلر ڈیٹ کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کار ہمارے اس شعبے میں سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ تو بھائی سنبھل کے بولیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں