"ARC" (space) message & send to 7575

القاعدہ الف لیلیٰ کی مانند ہے

القاعدہ کے بارے میں ہمارے لوگوں کو محض واجبی سی معلومات ہیں۔ مغربی ملک‘ ہوسکتا ہے کہ‘ اس تنظیم کے بارے میں عام مسلمانوں کی نسبت زیادہ جانتے ہوں کیونکہ ان ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ جاری کی ہوئی ہے وہ القاعدہ کے خاتمے ہی کی ان کی مہم ہے اور اس مہم کے دوران بظاہر ان ملکوں کی پالیسی یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہی معلومات عام کی جائیں جن سے القاعدہ کے خلاف ان کی مہم کو تقویت ملتی رہے۔ اسی وجہ سے مغربی میڈیا غالباً القاعدہ کے اغراض و مقاصد کی تشہیر پر توجہ نہیں دیتا۔ میں نے القاعدہ کو سمجھنے کی جتنی کوشش کی ہے اس میں سب سے زیادہ مدد مجھے ہمارے ملک کے نامور صحافی سلیم شہزاد مرحوم کی کتاب \" Inside Al-Qaeda and the Taliban beyond Bin Laden 9/11\" سے ملی ہے۔ جتنی محنت سے سلیم شہزاد نے یہ کتاب تحریر کی ہے اس کو پڑھ کر مرحوم کی موت اور بھی المناک محسوس ہونے لگتی ہے۔ 1979ء کا سال گزشتہ صدی کا ایک اہم ترین سال باور کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے لیے تو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سال ہے اور بین الاقوامی معاملات میں اسی سال ایران میں انقلاب آیا اور یہی سال ختم ہورہا تھا جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجیں داخل کردیں۔ سلیم شہزاد کہتے ہیں کہ اسی سال نومبر میں ایک اور انتہائی اہم واقعہ ہوا جو ہم کم ہی یاد رکھتے ہیں۔ یہ واقعہ تھا خانہ کعبہ پر قبضے کی کوشش۔ یہ کوشش جن لوگوں نے کی ان کے لیڈر کا نام جہیمن بن سیف العتیبی (Jurayman Bin Sayf Al Otaibi) تھا اور یہ اپنے ہمراہ محمد بن عبداللہ التحطانی نام کے ایک شخص کو لے کر گیا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ المہدی ہے (المہدی کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ اس شخص کا نام محمد ہوگا، والد کا نام عبداللہ ہوگا اور والدہ کا نام آمنہ ہوگا اور یہ شخص مکہ میں جب ہوگا تو اس شخص کے نہ چاہتے ہوئے بھی وہاں موجود مسلمان اس کی بیعت کرلیں گے۔ غالباً اسی وجہ سے جہیمن نے محمد بن عبداللہ نام کے اس شخص کو بطور المہدی ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا ہوگا) سلیم شہزاد لکھتے ہیں کہ سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز کی مدد سے یہ بغاوت ختم کی اور اسلامی کیلنڈر کی چودھویں صدی کے پہلے دن ہونے والا واقعہ عرب عسکریت پسندوں کے ذہنوں میں ایک ایسے منفرد واقعے کی حیثیت اختیار کرگیا جس نے ان پر واضح کردیا کہ مسلمانوں کی حکومتیں ہی مغربی مفادات کی حفاظت کررہی ہیں۔ اس بغاوت سے ایک سال پہلے جہیمن بن سیف نے سبعہ رسائل (Seven Letters) کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس کو عرب دنیا میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کتابچے میں نفاذِ اسلام کے لیے جدوجہد کاذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بدعنوان قیادتوں کو ختم کردینا چاہیے اور نئی قیادت کو عرب کے قریش قبیلے سے منتخب کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات کی طرف لے کر جایا جانا چاہیے۔ اس کتابچے میں گویا بڑے منظم انداز میں نوجوانوں پر اس امر کی تبلیغ موجود ہے کہ وہ مغربی مفادات کی حفاظت کرنے والی اپنی حکومتوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ سلیم شہزاد کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد اسّی کی دہائی میں افغانستان کا جہاد شروع ہوا تو عرب دنیا سے بھی بڑی تعداد میں نوجوان اس جہاد میں شریک ہونے افغانستان آگئے اور جہاد کے دوران میں راتوں کو دیگر ملکوں کے جہادی خود تو سوجاتے تھے مگر یہ عرب سبعہ رسائل میں موجود مواد کی روشنی میں بحث مباحثے کرتے رہتے تھے۔ عرب دنیا کے یہ نوجوان اپنے مباحثوں میں جہیمن پر بھی سخت نکتہ چینی کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ محمد بن عبداللہ التحطانی کو المہدی کے طور پر تسلیم کرنا بھی غلط تھا اور خانہ کعبہ پر قبضے کی کوشش میں جس جلد بازی کا مظاہرہ ہوا وہ بھی درست نہیں تھا۔ یہ تنقید اس کے باوجود ہوتی تھی کہ جہیمن کا سبعہ رسائل نام کا کتابچہ عرب مجاہدین میں اس طرح تقسیم ہوتا تھا جس طرح عوامی جمہوریہ چین میں مائوزے تنگ کی ریڈ بک ہر ایک کو دی جاتی تھی۔ سلیم شہزاد کے بقول یہ عرب مجاہدین دیگر اسلامی تحریکوں پر بھی بحث کرتے تھے اور علامہ ابن تیمیہ کا تکفیر کا فتویٰ بھی وہاں زیر بحث رہتا تھا۔ ان میں اخوان المسلمون کے بھی لوگ تھے اور اس حوالے سے سید قطب کی تحریریں بھی توجہ کا مرکز بنتی تھیں۔تو گویا جس وقت جہاد افغانستان جاری تھا تو اس کے ساتھ ہی القاعدہ تیارہورہی تھی۔ مندرجہ بالا معلومات ہیں جو میں نے سلیم شہزاد کی اس اہم کتاب سے اخذ کی ہیں اور جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے FATA کے پہاڑوں میں گھسے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو سب سے اہم لیڈر جو ملا وہ اسامہ بن لادن تھا مگر یہ تحریک لیڈروں کی زیادہ محتاج نہیں ہے۔ سلیم شہزاد کا تجزیہ ہے کہ القاعدہ کی تحریک الف لیلیٰ کی داستان کی طرح ہے جس طرح الف لیلیٰ میں ایک کہانی ختم ہونے لگتی ہے تو اس کا آخری حصہ اگلی کہانی کو جنم دے دیتا ہے اور یوں ایک ہزار ایک داستانوں تک بات پہنچ جاتی ہے اسی طرح القاعدہ کی ایک مہم ختم ہونے سے پہلے ہی دوسری کو جنم دے دیتی ہے۔ ان کے نزدیک فتح و شکست کی حقیقت ثانوی ہے۔ اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ القاعدہ لیبیا سے ہوتی ہوئی مالی پہنچ چکی ہے۔ نہ اُسامہ بن لادن کے مرنے سے یہ تحریک ختم ہوئی۔ عراق میں زرقاوی کو ختم کیا گیا تو پھر بھی القاعدہ ویسے کی ویسی ہی رہی۔ مسلمانوں میں کٹر مذہبی رجحان رکھنے والے افراد بہت جلد القاعدہ کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ سلیم شہزاد نے تحریر کیا ہے کہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز القاعدہ کے زیر اثر آگئے تھے (غالباً اب بھی ہوں گے)۔ موصوف نے اپنے استاد مفتی تقی عثمانی کی بات نہ مانی، خانہ کعبہ کے امام کی بات نہ مانی اور جہیمن والی دھن میں مگن رہے۔ جہیمن کا خیال تھا کہ مکے میں موجود تمام لوگ فوراً اس کے ہمراہ آنے والے مہدی کی بیعت کرلیں گے۔ اس طرح مولوی عبدالعزیز کا خیال تھا کہ ان کے وعظ پر پہلے اسلام آباد اور پھر دیگر ملک ان کے گرد جمع ہو جائے گا۔ ایسا تو بالکل نہ ہوا لیکن جو ہوا وہ بھی اس قدر غلط تھا کہ وہاں بے گناہ بچیوں کے خون بہائے جانے سے ایک نحوست اس ملک پر چھاگئی۔ اس نحوست کو ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس قوم کو اب معاف کردے اور یہ بھی دعا ہے کہ القاعدہ کے مجاہدین کے دل میں کوئی ایسی بات سما جائے کہ ہمارا ملک چھوڑ کر کہیں اور تشریف لے جائیں۔ ویسے بھی مالی میں پہاڑوں کے ساتھ ساتھ صحرائی علاقے بھی ہیں جو عربوں کے لیے یقیناً زیادہ پرکشش ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں