"ARC" (space) message & send to 7575

الزام کا جواب الزام

ویسے تو بحث مباحثہ چیز ہی ایسی ہے کہ اکثر اوقات یہ وقت کا ضیاع ہی ثابت ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں ٹی وی نیٹ ورکس پر جو ٹاک شوز ہوتے ہیں انہوں نے مکالمے اور بحث و مباحثے کا بالکل مفہوم تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ یہاں تو زیادہ تر الزام تراشی کا مقابلہ دیکھنے میں آتا ہے ا ور ناظرین اپنی قومی زندگی کی ہر اہم شخصیت پر جو الزامات عائد ہوتے ہیں ان سے واقفیت حاصل کر چکے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عوام کو عمومی طور پر اپنی قیادت پر اعتماد نہیں رہا۔ ہر وقت کرپشن کا چرچا رہتا ہے۔ بدانتظامی کا ذکر رہتا ہے۔ لیڈروں کی بیرون ملک دولت اور جائیداد زیربحث رہتی ہے اور اہم شخصیات کی اخلاقی کمزوریاں اس طرح بیان ہوتی ہیں جیسے بیان کرنے والے ان باتوں کے عینی شاہد ہوں۔ قومی زندگی میں اہمیت کے حامل یہ لوگ اتنے برے نہیں ہیں جتنا یہ خود ایک دوسرے کو کہتے ہیں اور ہمارے ٹاک شوز میں خاص طور پر ان میں سے ایک دوسرے کے حواری جو باہمی پول کھولتے رہتے ہیں وہ بھی کافی حد تک مبنی برحقیقت نہیں ہوتے۔حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ ایک دور ایسا آنیوالا ہے جب باعمل صاحب ایمان کے لیے شرعی حدود میں زندگی گزارنا اتنا مشکل ہوگا جتنا دہکتی آگ ہتھیلی پر رکھ کر چلنا۔ اگر ہم آج کے دور کو دیکھیں تومجھے لگتا ہے کہ یہ تو وہی زمانہ ہے۔ اس زمانے میں کم ہی کوئی ملے گا جس کے کردار میں کیڑے نہ نکالے جاسکتے ہوں۔ ان حالات میں اور فی زمانہ اپنے لیڈران سے انتہائی بلند اخلاقی اقدار کی مکمل پاسداری کی توقع رکھنا زیادتی ہے۔ تاہم ان کو کھلا بھی نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں احتساب کا نظام ہے جو ایسے عناصر کو قابو میں رکھتا ہے۔ ہمیں بھی ایسے ہی نظام کی ضرورت ہے۔ خوش قسمتی سے اگر ہمارے ہاں بے لاگ احتساب کا نظام نافذ ہوگیا تو پھر عوام کا اپنی قیادت پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوجائے گا۔تب تک آپ کو ٹاک شوز میں یہی کچھ دیکھنا پڑے گا کہ ایک طرف سے الزام عائد ہوتا ہے تو دوسری طرف سے الزام کا جواب دینے کے بجائے جوابی الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں اور ٹاک شوز میں وہی لوگ کامیاب شرکاء سمجھے جاتے ہیں جو بروقت حریف پر کوئی الزام لگا کر بحث کا رخ موڑ دیں۔ یعنی سوال ہوتا ہے اور اس کے جواب میں سوال ہی داغ دیا جاتا ہے۔یہ صورتحال دیکھ کر اکثر مجھے ایک پرانا فلمی گیت یاد آتا ہے جو کچھ اس طرح ہے: ایک سوال تم کرو، ایک سوال میں کروں ہر سوال کا سوال ہی جواب ہو اب انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ انتخابات کے دوران تو ویسے ہی حریف کو نیچا دکھانے کے لیے نئے نئے گر آزمائے جاتے ہیں اور ہمارے ہاں پہلے ہی جو سوال کا جواب سوال سے دینے کا سلسلہ جاری ہے اس کو پیش نظر رکھا جائے تو صورتحال مزید گھمبیر ہوجانے کا خدشہ ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ایک پروگرام میں مختلف نکتہ ہائے نظر رکھنے والے شرکاء کو دعوت دے کر جو لڑائی جھگڑا کروایا جاتا ہے وہ سلسلہ محدود ہونا چاہیے کیونکہ ایسے پروگراموں سے ناظرین کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ان کو سیاسی جماعتوں یا ان کے رہنمائوں کی استعداد کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ پاکستان میں ہماری نشریاتی تاریخ کا آغاز ریڈیو سے ہوتا ہے۔ یہ ادارہ شروع ہی سے حکومت کے کنٹرول میں رہا ہے اور ریڈیو پاکستان تو اب تک سرکاری ادارہ ہی ہے۔ اگرچہ نام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ہے۔ ایف ایم چینلز کی کافی تعداد البتہ نجی شعبے کی ملکیت ہے۔ ریڈیو پاکستان کے سرکاری کنٹرول میں رہنے کی وجہ سے عوام کو اس میڈیم پر سیاسی بحث کے ایسے پروگرام تو کبھی سننے کو نہیں ملے جیسے آج کل نجی ٹی وی چینلز پر پیش ہوتے ہیں مگر ریڈیو پاکستان کی سماجی، معاشرتی اور تعلیمی موضوعات پر بحث مباحثے کے پروگرام پیش کرنے کی بڑی قابل قدر روایات ہیں۔ مثال کے طور پر پچاس اور ساٹھ کے عشروں میں ریڈیو پاکستان ’’دانش کدہ‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام پیش کیا کرتا تھا جس میں ہفتہ وار کسی ایک موضوع پر ملک کے بہترین ماہرین کو مدعو کرکے سامعین تک اس موضوع کے حوالے سے انتہائی جامع معلومات اس انداز سے پہنچائی جاتی تھیں کہ بات سادہ اور قابل فہم رہے۔ اسی طرح جو لوگ کسی شعبے کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان کو سامعین کے انہی کے شعبے سے متعلق سوالات کی فہرست دے دی جاتی تھی اورکہا جاتا تھا کہ ان سوالوں کی روشنی میں وہ ایک لیکچر تیار کریں۔ پھر سٹوڈیو میں کچھ سامعین کی موجودگی میں وہ ماہرین اپنا لیکچر دیتے تھے جس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ ہوتا تھا۔ گھنٹے بھر کے اس پروگرام میں موضوع کا جس انداز میں احاطہ کیا جاتا تھا وہ ہر لحاظ سے سامعین کی عمومی تسلی کا باعث بنتا تھا۔ ان پروگراموں سے ملتے جلتے پروگراٰم آج بھی نیٹ ورکس پر دیکھنے کو مل جاتے ہیں مگر فرق یہ ہے کہ آج کوشش یہ نہیں ہوتی کہ ناظرین اور سامعین کو موضوع کے حوالے سے زیادہ ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو ان کے دل میں موجود سوالوں کا جواب دیں بلکہ اکثر کوشش یہی ہوتی ہے کہ متحارب نکتہ نظر رکھنے والے گروپ آمنے سامنے بٹھا کر سامعین کی موجودگی میں تماشا کیا جائے۔ ایسے پروگراموں میں کم ہی کوئی بات سامنے آتی ہے اور جس جماعت یا گروپ کا جو موقف موجود ہوتا ہے اس کا اعادہ ہوتا رہتا ہے اور تالیاں بجتی رہتی ہیں۔ اب انتخابات کے زمانے میں خدشہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ایسے ہی بے سود سے پروگرام ہوں گے جن میں شورشرابا اور لڑائی جھگڑا تو بہت ہوگا مگر ناظرین و سامعین کے ذہنوں میں موجود سوالوں کے جواب نہیں ہوں گے اور دوسری طرف وہ پروگرام ہوں گے جو جماعتیں یا افراد ائیر ٹائم خرید کر نشر کروائیں گے۔ ان پروگراموں میں محض تعریف و توصیف ہوگی اور کچھ نہیں ہوگا۔ انتخابات کے حوالے سے پروگرام پیش ہونے ایک طور سے شروع ہوچکے ہیں۔ اگر آپ کے دل میں خواہش ہو کہ معلوم کریں کہ مسلم لیگ ن کس طرح دو برسوں میں لوڈشیڈنگ ختم کرے گی تو کوئی پروگرام آپ کی تسلی کے مطابق اس کا جواب نہیں دے سکے گا۔ اگر آپ جاننا چاہیں گے کہ پیپلزپارٹی کس دلیل پر دوبارہ اقتدار چاہتی ہے تو اس کا تسلی بخش جواب بھی آپ کو کسی پروگرام میں نہیں ملے گا۔ اسی طرح تحریک انصاف کس طرح تبدیلی لائے گی اس کی وہ تفصیل جو آپ جاننا چاہتے ہیں کسی پروگرام میں پیش نہیں ہوگی۔ ہوگا کیا؟ بس زیادہ زور اس پر ہوگا کہ جو مخالف ہے اس کے بارے میں یہ تاثر پختہ کر دیا جائے کہ وہ مخلص نہیں ہے یا وہ بے ایمان ہے یا پھر وہ ملک دشمن ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ پروگراموں میں لڑائی جھگڑے ہوں گے۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑایا جائے گا اور سب سے اہم کام ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائیں گے۔ جس اندازمیں ہمارے ٹاک شوز کے شرکاء اور ہمارے لیڈر ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں اس کو دیکھ کر ایک لطیفہ یاد آتا ہے۔ ایک دیہاتی اپنے کھیت میں ہل چلا رہا تھا۔ ہل ٹیڑھا چل رہا تھا مگر اس کو خبر نہ تھی۔ ایک شخص جو وہاں سے گزرا اس نے اسے آواز دی کہ تمہارا ہل ٹیڑھا چل رہا ہے۔ دیہاتی نے دیکھا اور شرمندہ ہونے یا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس نے پلٹ کر اس شخص کو کہا ’’تمہاری بھی بیٹی ہمسائے کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔‘‘ اس شخص نے حیران نے ہو کر کہا کہ اس کا تمہارے ہل چلانے سے کیا تعلق ہے تو دیہاتی نے جواب دیا ’’بس اسی طرح بات سے بات نکلتی ہے۔‘‘بس اب انتخابات میں آپ دیکھیں ہر طرف آپ کو اسی انداز میں بات سے بات نکلتی دکھائی دے گی۔ اور بس۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں