"ARC" (space) message & send to 7575

نوجوان جمہوریت سے دُور کیوں؟

ہمارا قومی مزاج ایسا رہا ہے کہ ہم لوگ اتفاق رائے سے بہت دور بھاگتے ہیں اور ہمارے ہاں مذہب کی نمائندگی کرنے والے مشاہیر گول مول انداز میں تو ایک دوسرے سے متفق ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں لیکن جب قوانین بنانے کا اصل مسئلہ آتا ہے تو ہرطرف خاموشی چھا جاتی ہے حال ہی میں ہونے والے عوامی آرا کے ایک جائزے میں نشاندہی ہوئی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت جمہوریت کے مقابلے میں اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ کسی اسلامی ملک میں ویسے تو یہ تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے لیکن میری رائے میں اس قسم کا سروے اگر کوئی تیس چالیس برس پہلے ہوتا تو سروے کے نتائج کافی مختلف ہو سکتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کا دور ختم ہونے کے فوراً بعد ایسا سروے ہوتا تو جمہوریت کو بہت زیادہ نمبر ملنے تھے کیونکہ موصوف کے دور میں اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کی کہانی ہمارے ہاں کافی تلخ ہوگئی تھی۔ لیکن اس تلخی کے باوجود یہ یاد رہے کہ ہماری قوم نے کبھی اپنے مسلمان ہونے میں شک کا اظہار نہیں کیا۔ دراصل جس دن سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے شرعی قوانین کا یہاں اس طور سے نفاذ ، جیسا سعودی عرب جیسے ملکوں میں ہے یہاں کی طرزِ حکمرانی سے منسلک نہیں ہوسکا۔ اس کی وجوہ میں جانا میرے لیے محال ہے کیونکہ ہمارا قومی مزاج ایسا رہا ہے کہ ہم لوگ اتفاق رائے سے بہت دور بھاگتے ہیں اور ہمارے ہاں مذہب کی نمائندگی کرنے والے مشاہیر گول مول انداز میں تو ایک دوسرے سے متفق ہوتے دکھائی دینے لگتے ہیں لیکن جب قوانین بنانے کا اصل مسئلہ آتا ہے تو ہرطرف خاموشی چھا جاتی ہے اور صرف آئین کی اس شق پر گزارہ کرلیا جاتا ہے کہ ملک میں قرآن اور سنت رسولؐ کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ لہٰذا میں تو اس بارے میں بہت کم پرامید رہتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کی اسلامی شرعی قوانین کے نفاذ کی خواہش جلد پوری ہوجائے گی لیکن میرا اندازہ ہے کہ یہ خواہش ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں طالبان والے اسلام کے نفاذ کی تڑپ سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ میری نظر میں اس کی ذمہ دار مغربی دنیا ہے جو لٹھ لے کر مسلمانوں کے پیچھے پڑی رہتی ہے یا کم ازکم ہمارے لوگوں تو وہ ایسے ہی نظر آتی ہے۔ اس ترقی یافتہ دنیا نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ان کی اپنی امنگوں کے مطابق زندگی بسر کرنے سے اس لیے روکنا ہے کہ ان کا طریقہ ، مغربی دنیا کے رسم و رواج میں مدغم ہونے سے انکار کرتا ہے۔ ہمارے نوجوان جب دیکھتے ہیں کہ ہمارا مذہب اور ہمارے نبی پاکؐ کی شان میں مغربی دنیا میں ایسی ایسی گستاخیاں ہوتی ہیں جن کا کسی طورپر کوئی جواز فراہم نہیں ہوسکتا اور پھر ان گستاخیوں پر اصرار کرنے کے لیے جمہوریت کو ڈھال کے طورپر اور اس طرز حکومت میں دی گئی آزادی اظہار کو ایک دلیل کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے تو عمومی طورپر ہمارے نوجوانوں کی جمہوریت سے رغبت بڑھتی نہیں بلکہ کم ہی ہوتی ہے۔ بیماریوں کی روک تھام کو چھوڑ کر مغربی دنیا سے جتنی ابلاغی مہمات ہمارے ملک میں غیرسرکاری تنظیموں کی وساطت سے اور مغربی ممالک کے پیسے کی مدد سے پہنچتی ہیں، ہمارے نوجوان ان کے بارے میں یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ آخر ان ملکوں کو خاص انہی شعبوں میں ہماری بھلائی کیوں مطلوب ہے۔ مثال کے طورپر اسلامی ملکوں میں خواتین کی صورت حال کو لے لیں۔ جس طرح مغربی ملکوں میں بیسویں صدی کے اوائل میں عورتیں اپنے حقوق کے لیے منظم انداز میں خود سے اٹھی تھیں ویسی صورت حال تو کسی اسلامی ملک میں نہیں ہے۔ کسی معاشرتی تحریک کا چلنا ایک ایسا عمل ہے جس کی انہی معاشروں میں جہاں یہ تحریکیں اٹھتی ہیں وجوہ بھی موجود ہوتی ہیں ۔اب مغربی دنیا میں جب عورتیں ووٹ کا حق مانگ رہی تھیں تو یہ کام وہ اس دور میں کسی مسلمان ملک کے بھیجے گئے سرمائے یا اس مسلمان ملک کے سرمائے سے چلنے والی کسی NGOکی کوششوں سے تو ایسا نہیں کررہی تھیں۔ ان باتوں کو ہمارے نوجوان سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک ، ہمارے ہاں عورتوں کے حقوق غصب ہونے پر جو اس قدر دکھ محسوس کرتے ہیں تو یقینا اس دکھ کے پیچھے کوئی اور بات بھی ہے۔ نوجوانوں کی سوچ یہ ہے کہ ہم خود سے اپنی عورتوں کے حقوق کے حوالے سے جو ضروری ہوگا کریں گے، یہ باہر سے آکر ہمیں بتانے والے کون ہوتے ہیں۔ یہ سوچ بھی ہمارے نوجوانوں کو مغربی دنیا اور اس کے ساتھ اس کی جمہوریت سے دور کردیتی ہے۔ میں مغربی دنیا کے ایجنڈے کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ یہ کالم اس کی ضخامت برداشت نہیں کر پائے گا لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ سلیبس میں تبدیلی کی باتیں اور ہمارے ہاں تعلیم کے فروغ کے حوالے سے صرف اس تعلیم کی حوصلہ افزائی جو صرف اور صرف مغربی تہذیب کے قریب کرتی ہو ایسی باتیں ہیں جو آج کل کے الیکٹرانک دور میں تو ہماری نوجوان نسل سے چھپ نہیں سکتیں۔ لہٰذا یہ بات طے ہے کہ مغربی ممالک جس شدت سے مسلمان ملکوں میں اپنے ایجنڈے پر، جس کا کہ اب ہماری قوم ہی کو خاطرخواہ اندازہ ہوچکا ہے، عمل کروائیں گے اتنی ہی ان ملکوں کو مزاحمت کا سامنا رہے گا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جو تازہ ترین رپورٹ دنیا بھر میں موت کی سزا کے بارے میں آئی ہے وہ اس سلسلے کی ایک اہم مثال ہے ، کیا مغربی دنیا کو یہ معلوم نہیں کہ مسلمانوں کے مذہب میں قصاص کا قانون ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس قانون کے تحت جس شخص پر وہ جرم ثابت ہوجائے جس کی سزا موت ہے، اس کو موت کی سزادی جانی ہے لیکن پھر بھی ایک مہم کے تحت موت کی سزا ختم کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اگرچہ مغربی دنیا میں بھی خال خال آپ کو موت کی سزا دینے کا عمل ملتا ہے مگر ایمنسٹی کی رپورٹ پر غور کریں تو زیادہ زور مسلمان ملکوں پر ہی دکھائی دے گا۔ عوامی جمہوریہ چین میں مبینہ طورپر سب سے زیادہ موت کی سزا کا استعمال ہے مگر ایمنسٹی کی رپورٹ چند جملوں میں یہ بیان کرکے کہ چین اس معاملے کو خفیہ رکھتا ہے گزرجاتی ہے اور ایران، عراق، سعودی عرب اور یمن کا سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ملکوں کے طورپر ذکر آجاتا ہے۔ درمیان میں امریکہ کو بھی گھسا دیا جاتا ہے کیونکہ وہاں بعض ریاستوں میں ابھی تک موت کی سزا دی جاتی ہے۔ بھارت اور پاکستان میں حال ہی میں جو ایک دو پھانسیاں دی گئی ہیں اس پر ایمنسٹی خوش نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ملک کئی برسوں سے موت کی سزادینے سے پرہیز کررہے تھے۔ ہمارے ہاں تو مغربی پراپیگنڈے کے زیراثر بعض حلقوں میں یہ مطالبہ بھی موجود ہے کہ سزائے موت ختم کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب باتوں سے جوکہ ہمارے نوجوان باور کرتے ہیں کہ مغربی دنیا کی کوششوں کے زیراثر ہو رہی ہیں ایک نتیجہ ہمارے نوجوان ذہنوں میں یہی نکلتا ہے کہ ہمارے معاملات میں مغربی دنیا جمہوریت کے نام پر بلاوجہ ٹانگ اڑا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو جمہوریت سے دور کرلیتے ہیں حالانکہ ہمارے نوجوانوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے ملک کے جوحالات ہیں ان میں فی الوقت شرعی قوانین کا نفاذ بہت بڑا چیلنج ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں