اللہ اور بندے کا رشتہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جس طرح معین ہے اس کے درست ہونے میں کسی کو کلام نہیں لیکن اسی دنیا میں آپ کو بعض لوگ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے اور بعض صورتوں میں صاحبِ علم ہونے کے باوجود بھی خالقِ کائنات سے اپنا تعلق اپنی مرضی کے مطابق جوڑا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے ،میرے ایک دوست کے دادا تھے جو کہا کرتے تھے کہ میں شیخ الحدیث ہوں۔ انہوں نے کچھ کتابچے وغیرہ بھی چھپوا رکھے تھے جن میں کئی شرعی مسائل پر علما کو چیلنج کر رکھا تھا۔ میں اور میرا دوست بہت کم عمر تھے لہٰذا ہمیں ان شرعی مسائل کی نوعیت کا کچھ معلوم نہیں لیکن جب ہم نے ایک دن دیکھا کہ میرے دوست کے دادا پھرتی سے نماز ادا کر رہے ہیں تو ہمیں بہت حیرت ہوئی۔ جس طرح پرانے زمانے کی چارلی چپلن کی فلم میں مختلف کردار حرکت کرتے دکھائی دیتے تھے تقریباً اسی انداز اور رفتار سے میرے دوست کے دادا حرکت کررہے تھے۔ خیر ہمت کر کے ہم نے جب موصوف سے دریافت کیا کہ آپ تو اس قدر تحمل اور خشوع و خضوع سے نماز ادا کیا کرتے تھے لیکن اب کیوں اتنی تیزی دکھا رہے ہیں تو ہلکا سا مسکرائے اور بولے ، دیکھو میاں!اس قادر مطلق نے (انگلی سے اشارہ آسمان کی طرف) نماز فرض کی ہے ،اُس کی ادائیگی سے تو مفر نہیں لیکن میاں جتنی توجہ وہ دے رہا ہے اتنی ہم دے رہے ہیں۔ وہ بڑھا دے ہم بھی بڑھا دیں گے۔ بعدازاں میرے دوست نے بتایا کہ دادا ابا آج کل پریشان ہیں۔ زمینوں کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وکیل بہت پیسے مانگ رہے ہیں۔ جیتنے کی امید بھی کم ہے۔ مجھے نہیں معلوم بعد میں کیا ہوا کیونکہ مجھے تو بچپن کی یہ بات لطیفے کے طور پر یاد ہے کہ بعض اچھے خاصے صاحبِ علم لوگوں نے بھی اللہ سے اپنا تعلق اپنی مرضی کے مطابق رکھا ہوتا ہے۔ اسی طرح میرے ایک دوست تھے جو نماز‘ روزے کے فرائض ادا کرنے سے تو غافل تھے مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی ذات میں پکا یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر اگر آپ تبلیغ بھی کریں تو وہ بے اثر ہی رہتی ہے ۔لہٰذا میرے یہ دوست اسی ڈگر پر قائم تھے۔ موصوف پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ بہت سی مصیبتوں میں گھِر گئے۔ کاروبار میں منافع برائے نام رہ گیا۔ بیگم سخت بیمار ہو گئیں ، لہٰذا بہت پریشان رہتے تھے۔ میں ایک روز موصوف کی بیگم کی عیادت کو گیا تو مجھے کہنے لگے : رات میں نے اللہ میاں سے جی بھر کے لڑائی کی۔ مجھے حیرت ہوئی اور تفصیل پوچھی تو انہوں نے تنہائی میں مولا کریم کو جو اپنے دکھ بیان کیے اس کو وہ لڑائی کرنا کہہ رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ اس لڑائی کا آخر نتیجہ کیا نکلا۔ کہنے لگے میں اللہ میاں سے شکوے کرتا رہا اور ساتھ ہی میرا دل میری اپنی غلطیوں کی نشاندہی کرتا رہا اور آخر میں‘ میں نے نتیجہ نکالا کہ سب قصور میرا ہی ہے۔ آپ کا خیال ہوگا کہ اس کے بعد میرے دوست کی زندگی تبدیل ہو گئی ہوگی اور وہ کم از کم شرعی فرائض ادا کرنے لگے ہوں گے لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ موصوف جس نوعیت کی زندگی گزار رہے تھے اسی معمول پر قائم رہے اور اس میں سرِ مو کوئی تبدیلی میرے دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ دو مثالیں تو میں نے آج کے دور کی دی ہیں لیکن اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو بندوں کے پروردگار کے ساتھ اپنی مرضی سے قائم کردہ تعلق کی اور بھی عجیب و غریب مثالیں ملیں گی۔ حجاج بن یوسف اسلامی تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش کردار ہے۔ اس شخص کا قہر ضرب المثل کا درجہ رکھتا ہے اور ذاتی طور پر ایسی بے خوف شخصیت ممکن ہے تاریخ عالم میں بھی نہ مل پائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تصنیف ’’انسانیت موت کے دروازے پر‘‘ میں حجاج بن یوسف پر جو باب تحریر کیا ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ جنگوں کے علاوہ حالتِ امن میں حجاج نے ایک لاکھ پچیس ہزار آدمی قتل کیے تھے۔ بڑے بڑے اکابر و امرا مثلاً سعید بن جبیر وغیرہ کی گردنیں اڑادیں۔ مدینے میں بے شمار صحابہؓ کے ہاتھوں پر سیسے کی مہریں لگا دیں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت عبداللہ بن عمر جیسے جلیل القدر صحابیوں کو قتل کیا۔ حضرت حسن بصریؒ کہا کرتے تھے کہ حجاج اللہ کا عذاب ہے۔ کوفے میں ایک لاکھ عرب موجود تھے۔ حجاج بارہ سوار لے کر آیا اور سب کو غلام بنا لیا۔ اس جابر اور قہرمان شخص کی موت کا جب وقت آیا تو اس نے اللہ سے معافیاں مانگنی شروع کردیں۔ حجاج کے معدے میں کیڑے پیدا ہوگئے تھے اور اس کے جسم کو ایسی سخت سردی لگتی تھی کہ آگ کی بہت سی انگیٹھیاں بدن سے لگاکر رکھ دی جاتی تھیں مگر پھر بھی سردی میں کوئی کمی نہ ہوتی تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں کہ جب حسن بصریؒ عیادت کو آئے تو حجاج نے اپنی تکلیفیں بیان کیں ۔حسن بصریؒ نے کہا: ’’میں تجھے منع نہیں کرتا تھا کہ نیکوکاروں کو نہ ستا مگر افسوس تم نے نہیں سنا۔‘‘ اس پر حجاج نے خفاہوکر کہا :’’میں نے تم سے یہ نہیں کہا کہ اس مصیبت کے دور کرنے کی دعا کرو۔ میں تجھ سے یہ دعا چاہتا ہوں کہ اللہ جلد میری روح قبض کرلے اور اب زیادہ عذاب نہ دے۔ ‘‘ اسی اثناء میں ابومنذر یعلیٰ بن مخلہ مزاج پرسی کو پہنچے اور حال پوچھا۔ حجاج نے کہا ’’کیا پوچھتے ہو؟ شدید مصیبت! سخت تکلیف! ناقابل بیان الم!ناقابل برداشت درد! سفردراز ! توشہ قلیل ! آہ میری ہلاکت ! اگر اس جبار وقہار نے مجھ پر رحم نہ کھایا۔ ‘‘ اس پر ابومنذرنے کہا :’’اے حجاج!اللہ انہی بندوں پر رحم کھاتا ہے جو رحم دل اور نیک نفس ہوتے ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو فرعون وہامان کا ساتھی تھا۔ تیری سیرت بگڑی ہوئی تھی۔ تو نے اپنی ملت ترک کردی تھی، راہ حق سے ہٹ گیا تھا۔ تو نے نیک انسان قتل کرکے ان کی جماعت فنا کرڈالی۔ تابعین کی جڑیں کاٹ کر ان کا پاک درخت اکھاڑ پھینکا، تو نے مخلوق کی اطاعت کی، خون کی ندیاں بہادیں، جانیں لیں، آبروئیں برباد کیں، تو نے خاندانِ مروان کو عزت دی مگر اپنا نفس ذلیل کیا۔ آج تیرے لیے نہ نجات ہے نہ فریاد۔ راوی کہتا ہے کہ حجاج بن یوسف یہ سن کر مبہوت ہوگیا۔ دیر تک سناٹے میں رہا۔ پھر اس نے ٹھنڈی سانس لی، آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ آسمان کی طرف نظر اٹھاکر کہا : الہٰی ! مجھے بخش دے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ تو مجھے بخشے گا نہیں۔ اس کے بعد ایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ ہے: الٰہی بندوں نے مجھے ناامید کرڈالا حالانکہ میں تجھ سے بڑی ہی امید رکھتا ہوں‘‘۔ یہ کہہ کر حجاج بن یوسف نے آنکھیں بند کرلیں۔ مرتے وقت حجاج نے جوکہا تھا وہ حضرت حسن بصری ؒ سے بیان کیا گیا تو پہلے تو وہ متعجب ہوئے : ’’کیا واقعی اس نے یہ کہا‘‘بتایا گیا: ’’اس نے ایسا ہی کہا‘‘ ۔ اس پر حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا:’’ تو شاید ! ‘‘یعنی اب شاید بخشش ہوجائے۔ آپ خود اندازہ کرلیں حجاج جیسے جابرو قاہر شخص نے مرتے وقت پروردگار سے کیسے اپنے ایک انوکھے سے تعلق کا مظاہرہ کیا۔