ستر کے عشرے میں جب میں ریڈیوپاکستان لاہور میں ملازم تھا تودفتر میں ہمارے ایک ہیڈکلرک ہوتے تھے رمضان بھٹی صاحب۔ ان کا تکیہ کلام تھا۔ سخیا۔ ہرکسی کو سخیا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ موصوف کی عادت یہ تھی کہ جب کام سے فارغ ہوتے تو دفتر میں گھومتے اور دیکھتے کہ کون سا افسر فارغ بیٹھا ہے ۔ جہاں ان کو کوئی افسر فارغ بیٹھا دکھائی دیتا اس کمرے میں داخل ہوتے اور کرسی پر بیٹھتے ہی اس فارغ بیٹھے افسر سے کہتے ’’لے بھئی سخیا کوئی گل سنا ‘‘ یعنی فرمائش کرتے کہ ان کو کوئی بات سنائی جائے۔ اگرچہ یہ بڑا مزاحیہ سا تقاضا لگتا تھا مگر ریڈیو لاہور کے سٹاف کو بھٹی صاحب کی یہ بات سن سن کر عادت ہوگئی تھی اور سب کو معلوم ہوچکا تھا کہ بھٹی صاحب کوئی بات سننے نہیں آتے بلکہ خود کچھ سنانے آتے ہیں لہٰذا اکثر بھٹی صاحب کی فرمائش کے جواب میں ان سے کہہ دیا جاتا۔ ’’بھٹی صاحب آپ کوئی بات سنائیں۔‘‘ اس کے بعد وہ پھر اپنا فلسفہ بھگارنے لگتے۔ بھٹی صاحب کی گفتگو چونکہ اکثر انوکھی اور بڑی دلچسپ ہوتی تھی لہٰذا جس کمرے میں وہ اپنا بیان شروع کردیں وہاں اور لوگ بھی جمع ہوجاتے تھے اور گھنٹے بھر کے لیے اچھی خاصی محفل جم جاتی تھی۔ بھٹی صاحب کی انوکھی اور دلچسپ گفتگو کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ایک روز فرمانے لگے ’’سخیا ۔ ایس ملک نوں دوچیزاں نے تباہ کردتا اے‘‘ ۔ یعنی اس ملک کو ان کے بقول دوچیزوں نے تباہ کردیا ہے۔ جب ان سے تفصیل پوچھی گئی تو موصوف کا کہنا تھا۔ ایک بھٹو پارٹی اور ایک لنڈا بازار۔ یعنی ایک پاکستان پیپلزپارٹی اور ایک امریکہ وغیرہ سے آئے ہوئے استعمال شدہ کپڑوں کی مارکیٹ جسے لنڈا بازار کہتے ہیں۔ بھٹی صاحب کا استدلال تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی نے آکر بڑے چھوٹے کی تمیز ختم کردی ہے ۔ وہ مثال دیتے تھے کہ چند سال پہلے تک یعنی یحییٰ خاں کے زمانے تک دفتروں میں ڈسپلن ہوتا تھا۔ افسر کی عزت تھی ۔ آفس آرڈر ہوجائے تو سب اس پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن ان کے اندازے میں جوکہ کافی حدتک درست تھا، پیپلزپارٹی کی حکومت نے سب ختم کردیا ہے ۔ (UNIONS)یونین بن گئی ہیں اور ایک کلرک اگر یونین کا صدر ہوتو دفتر کا سب سے بڑا افسر بھی اس کلرک سے خوفزدہ رہتا ہے۔ اس کی اور بھی لمبی تفصیل بیان کرتے تھے۔ اس کے بعد لنڈا بازار نے کس طرح اس ملک کو تباہ کیا ہے، اس بارے میں ان کا بیان یہ تھا کہ جب لنڈا بازار نہیں تھا تو جس شخص نے پینٹ کوٹ پہنا ہو ٹائی لگائی ہو تو فوراً پتہ چل جاتا تھا کہ وہ افسر ہے لہٰذا اس کی عزت ہوتی تھی لیکن لنڈا بازار کے آنے سے ہر ایرا غیرا پانچ دس روپے میں کوٹ پینٹ لے آتا ہے لہٰذا افسر اور ماتحت کی پہچان ختم ہوگئی ہے۔ یہ دو چیزیں تھیں جنہوں نے بھٹی صاحب کے تجزیے کے مطابق ہمارے ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا تھا۔ موصوف کی باتوں کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا لیکن ہم میں سے اکثر دوست جن کے کمروں میں بھٹی صاحب کاآنا جانا تھا، اس بات پر متفق تھے کہ بھٹی صاحب کی سوچ پرانے برطانوی نظام کے تحت تربیت پانے والے ایک کلرک کی اوریجنل سوچ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم سب اس بات پر متفق تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان سے پہلے کے ادوار تک عوام میں جو خوف موجود تھا کہ طاقتور کے آگے بولنا نہیں اس خوف کو بڑی حدتک ختم کردیا ہے۔ یہ جو نیچے کی سطح تک بے خوفی کی فضا بن گئی تھی اس کا بعض اوقات خود پیپلزپارٹی کے کرتا دھرتا لوگوں کو بھی تلخ تجربہ ہوجاتا تھا۔ ریڈیو میں ایک سیکشن ہوتا ہے جو او۔بی سیکشن کہلاتا ہے۔ او ۔ بی کا مطلب ہوتا ہے Outside Broadcast۔ریڈیو سٹیشن سے باہر کسی تقریب کی ریکارڈنگ وغیرہ کرنا اسی سیکشن کے ذمے ہوتا ہے۔ میں اس سیکشن کا نگران پروڈیوسر تھا اور میرے ساتھ جو معاونین تھے ان میں ایک صاحب کا نام دائود جعفری تھا۔ معروف مزاحیہ شاعر سید محمد جعفری کے عزیزتھے مگر ریڈیو میں کام کرنے کا شوق تھا لہٰذا ایک کچے (Casual)ملازم کے طورپر میرے سیکشن میں دن رات کام کرتے رہتے تھے ۔چھٹی بھی نہیں کرتے تھے۔ بھٹو کے دیوانے تھے ۔ پنجاب میں اس دور میں ملک معراج خالد وزیر اعلیٰ تھے اور حنیف رامے وزیر خزانہ تھے۔ دائود جعفری کو میں نے ایک تقریب کی ریکارڈنگ کے لیے بھیجا جس کے مہمان خصوصی حنیف رامے صاحب تھے۔ دفتر کی گاڑی تاخیر سے ملی اور دائود جعفری تقریب میں اس وقت پہنچا جب حنیف رامے تقریر کررہے تھے۔ تقریر کے دوران ہی دائود جعفری نے جاکر اپنا مائیکروفون لگانا شروع کردیا۔ رامے صاحب دانشور آدمی تھے، ان کا بولنے کا انداز بھی مخصوص ہوتا تھا جس میں وہ کسی قسم کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ دائود جعفری کا مائیکروفون سے چھیڑ چھاڑ کرنا رامے صاحب کو برالگا تو انہوں نے یہ کہہ کر جعفری کو ڈانٹ دیا، ’’اگر لیٹ آنا ہو تو ڈسٹرب نہ کیا کریں۔ آگے بیٹھ جایا کریں۔ ہٹائیں یہ اپنا مائیکروفون ۔‘‘ دائود جعفری بھی وہ جیالے تھے جن کا خوف بھٹو صاحب کی عوامی تقریریں سن سن کر دور ہوچکا تھا۔ خاموش رہنے کے بجائے بولے، میں بھی آپ کی ریکارڈنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں رکھتا‘ ظاہر ہے رامے صاحب کو غصہ آیا۔ وہ بولے ۔ کون ہے یہ۔ اس کے جواب میں دائود جعفری نے خود ہی اپنا نام وغیرہ علی الاعلان بتاکر وہاں سے واک آئوٹ کردیا۔ اگلے روز ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر سجاد حیدرصاحب کو رامے صاحب کا ایک تلخ خط ملا جس میں دائود جعفری کو برطرف کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ سجاد حیدر صاحب نے مجھے بلایا اور خط دکھایا۔ میں نے کہا کہ جعفری تو باقاعدہ ملازم ہی نہیں ہے اس کو برطرف کیا کرنا۔ بس اس کا کنٹریکٹ ختم کردیتے ہیں۔ آپ جو اب لکھ کے بھیج دیں کہ جعفری اب ریڈیو میں نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے دائود جعفری کو بتادیا کہ بھائی وزیر خزانہ سے لڑلینا تیرا ہی کام ہے۔ اب بھگتو۔ اس کے جواب میں دائود جعفری سنجیدہ ہونے کے بجائے ہنسنے لگا۔ بولا۔ کوئی پروا نہیں۔ کل سب ٹھیک ہوجائے گا۔ میں نے پوچھا کیسے ؟ کہنے لگا وزیراعلیٰ پنجاب ملک معراج خالد میرے دوست ہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی مگر مجھے اس سے بھی زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب اگلے دن ملک معراج خالد نے خدامعلوم حنیف رامے سے کیا کہا کہ رامے صاحب نے ہمارے سٹیشن ڈائریکٹر کو ٹیلی فون کیا اور کہا کہ دائود جعفری کے خلاف وہ اپنی شکایت واپس لیتے ہیں۔ جولوگ ایوب خاں کے دورتک کے افسروں اور وزیروں مشیروں کی ہیبت سے واقف ہیں وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ بھٹو کا دور کتنا مختلف تھا ۔بھٹو سے پہلے کوئی سرکاری اہلکار اگر اپنے معمولی عہدہ رکھنے والے سپروائزر کے ساتھ بدتمیزی کردے تو اس دور کا سرکاری ماحول اس اہلکار کی زندگی عذاب کردیتا تھا اور اگر کہیں کوئی کسی مشیر یا وزیر سے الجھ جائے تو کیریئر ختم سمجھیں۔ بھٹو دور نے ہماری قومی زندگی میں جو بہت سی تبدیلیاں کیں ان میں ایک اہم تبدیلی یہ تھی انہوں نے عوام کو ہرقسم کے خوف سے آزاد کیا، آج کی پیپلزپارٹی کو دیکھیں جو اپنی انتخابی مہم میں بھٹو کی تصویریں تک استعمال کررہی ہے اس نے عوام کو کیا دیا ہے۔ مجھے تو ہرطرف خوف ہی خوف دکھائی دیتا ہے۔