انتخابات کے حوالے سے مبینہ دھاندلیوں کا ہرطرف شور سنائی دے رہاہے۔ شکایات کی جانچ پڑتال کے لیے بنائے گئے الیکشن ٹربیونلز نے دوبارہ پولنگ یا گنتی کروانے کے لیے جہاں مناسب سمجھا فیصلے بھی جاری کیے ہیں، مزید فیصلے بھی متوقع ہیں۔ ٹربیونلز کے فیصلوں پر اطمینان نہ ہو تو اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ یہ سارا سسٹم ہمارے آئین میں درج ہے۔ اب ان حالات میں بعض ایسے مطالبات ہورہے ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔ یہ کہ کسی ایک حلقے میں یا چند مخصوص حلقوں میں ووٹوں کی گنتی دوبارہ ہو اور ساتھ ہی یہ بھی چیک کیا جائے کہ کوئی ووٹ جعلی تو نہیں پڑا اور اس کے لیے کہا جارہا ہے کہ ووٹروں کے انگوٹھے کے نشانات کو نادرا کے ریکارڈسے چیک کرکے اس امر کی تصدیق کی جائے کہ جس شخص نے ووٹ دیا ہے‘ وہی ہے ووٹ کی پرچی پر جس کے انگوٹھے کا نشان ہے۔ کہنے کو یہ بڑی سادہ سی بات ہے۔ کئی لوگ کہہ بھی رہے ہیں کہ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ نادرا کے ذریعے یہ چیکنگ کروالی جائے۔ اگر ذرا سا غور کریں تو یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ ہمارے ہاں جتنے حلقوں میں بھی انتخابات ہوئے ہیں اور ان میں جتنے امیدوار ہارے ہیں ان میں شاید ہی آپ کو دوسرے نمبر پر آنے والا کوئی ایسا امیدوار ملے جو یہ تسلیم کرتا ہو کہ وہ ہار گیا ہے یا ہارگئی ہے۔ تو پھر اگر یہ سادہ سی بات مان لی جائے تو پھر الیکشن کمیشن کو سب کی ماننا پڑے گی۔ پھر جب کروڑوں ووٹروں کے ڈالے گئے ووٹوں کی تصدیق کا یہ عمل شروع ہوگا تو کب ختم ہوگا۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ نادرا کے پاس اس کام کے لیے درکار تیز رفتار سافٹ ویئر ہے بھی یا نہیں۔ فرض کریں یہ سب کچھ کربھی لیا جاتا ہے اور تمام ڈالے گئے ووٹوں کی ازسر نو تصدیق کا عمل بھی مکمل کرلیا جاتا ہے تو کون سے حیران کن نتائج سامنے آئیں گے۔ کیا ہم اپنے پاکستانی بھائی بہنوں کو جانتے نہیں۔ کیا لاکھوں کیس ایسے نہیں ہوں گے جہاں دائیں کے بجائے بایاں اور بائیں کے بجائے دایاں انگوٹھا لگ گیا ہوگا۔ پھر Stamp Padجب اس طرح نظر آرہا ہو کہ اس پر نیلی روشنائی تیرتی ہوئی نظر آرہی ہو تو اس کی مددسے لگائے گئے انگوٹھے کے نشان میں کاغذ پر سوائے روشنائی کے دھبے کے اور کیا دکھائی دے گا۔ اس روشنائی کے دھبے سے کسی کی شناخت کرنا کیسے ممکن ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انگوٹھے کے نشان کو تصدیق کے لیے استعمال نہیں کرنا تھا تو اس کی ضرورت کیا تھی۔ جواب یہ ہے کہ اس کی ضرورت اس وقت پڑ سکتی ہے جب الیکشن ٹربیونل یہ محسوس کرے کہ کسی حلقے کے امیدواروں کے درمیان صورتحال ایسی نازک ہوگئی ہے کہ تھوڑے سے ووٹ اِدھر ہو جائیں یا اُدھر ہو جائیں تو فیصلہ بدل سکتا ہے اور ان کو جعلی ووٹ ڈالے جانے کے دیگر ایسے ثبوت پیش کیے گئے ہوں گے جن کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ گویا نادرا تک جانے کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل کرے گا۔ کسی سیاسی جماعت کے لیے الیکشن کمشن اگر ایسا کرے گا تو پھر ہرطرف سے مطالبات آئیں گے اور جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا پھر سب ووٹوں پر انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کروانا لازمی ہوجائے گا۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ان ملکوں میں جہاں جمہوریت کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ایسی صورت حال میں کیا ہوتا ہے جب دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اس کی بہت واضح مثال 2000ء میں ہونے والا امریکہ کا صدارتی انتخاب تھا جس میں جارج بش اور ایل گور Al Goreکے درمیان مقابلہ تھا اور آخر میں اس بات پر صورتحال گھمبیر ہوگئی تھی کہ امریکی ریاست فلوریڈا کے الیکٹورل ووٹ کونسا امیدوار جیتا ہے کیونکہ جو امیدوار اس ریاست کے پچیس الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا وہی انتخاب جیت جاتا تھا۔ فلوریڈا میں ہوا یہ تھا کہ کچھ علاقوں میں جہاں اکثریت کم تعلیم یافتہ سیاہ فام لوگوں کی تھی ووٹنگ کی کچھ نئی مشینیں لگائی گئی تھیں جو ووٹروں کی سمجھ میں نہ آئیں اور کافی تعداد میں ووٹ مسترد ہوگئے۔ ان میں اکثریت ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹوں کی تھی جو ایل گور کو پڑتے تو وہ پوری فلوریڈا ریاست میں اکثریت حاصل کرکے ان 25الیکٹورل ووٹوں کے مالک بن سکتے تھے جو انہیں صدر کے عہدے تک پہنچا دیتے۔ معاملہ عدالتوں میں چلا گیا فلوریڈا کی اعلیٰ کورٹ نے ایسا فیصلہ صادر کیا جو ایل گور کے حق میں جاتا تھا کیونکہ اس میں پورے فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا کہا گیا تھا مگر اس موقع پر امریکہ کی سپریم کورٹ نے معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے فیصلہ دیا کہ چونکہ دوبارہ گنتی بارہ دسمبر کی حتمی تاریخ تک مکمل نہیں ہوسکتی لہٰذا پہلے جو گنتی ہوچکی ہے وہی تسلیم ہوگی اور اس طرح جارج بش فلوریڈا ریاست کے 25الیکٹورل ووٹ جیت کر صدر بن گئے ۔ امریکہ میں ہمیشہ انتخابات نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں پھر ہرمرحلے کی تاریخیں طے ہیں جن سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا کیونکہ جنوری کے تیسرے ہفتے میں ہرصورت اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے۔ انتخابات اقتدار کی منتقلی کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے دوران میں اگر کوئی اونچ نیچ ہوجائے تو اس کو اقتدار کی منتقلی میں حارج نہیں ہونے دیا جاتا ۔ ہاں البتہ یہ ضرور ہوتا ہے کہ جب اقتدار کی منتقلی کے مراحل ختم ہوجاتے ہیں تو پھر جہاں اونچ نیچ ہوئی ہوتی ہے اس کا تفصیلی پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے اس سے سبق سیکھے جاتے ہیں اور اگلے انتخابات میں انہی اسباق کی روشنی میں تبدیلیاں کردی جاتی ہیں۔ 2001ء کے انتخابات کے بعد بھی امریکہ میں یہی ہوا تھا اور پھر ہم نے دیکھا کہ 2004ء میں ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا ہمیں بھی چاہیے کہ انتخابات کے ان نتائج کی روشنی میں آگے بڑھیں اور اگر کوئی اونچ نیچ ہوگئی ہے تو یہ معاملات الیکشن ٹربیونلز اور پھر عدالتوں کے ذریعے حل کرتے رہیں کیونکہ جتنے حلقوں کے انتخابات پر زیادہ اعتراضات ہیں ان کی تعداد اتنی زیادہ بھی نہیں ہے کہ وہ الیکشن کی مجموعی صورت حال کو بدل کے رکھ دیں۔ ہمارے سیاستدانوں کو بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘ احتجاج کا سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ اگر یہ پھیل گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کوئی ترقیاتی کام نہیں ہو سکے گا۔ اقتصادی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ لوڈشیڈنگ بھی اسی طرح جینا حرام کرتی رہے گی۔ اب اگر کچھ بدل سکتا ہے تو وہ آئندہ انتخابات میں ہی بدل سکتا ہے۔ کراچی میں ایم کیوایم کے ساٹھ فیصد ووٹوں کے مقابلے میں اگر تحریک انصاف سترہ فیصد ووٹ لے گئی ہے تو اس کو کامیابی سمجھ کر اگلے انتخابات کا انتظار کرلے۔ ہوسکتا ہے آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ ان جماعتوں کے گلے شکوے بھی دور ہوجائیں جنہوں نے اس مرتبہ تنگ آکر وہاں الیکشن کا بائیکاٹ کردیا تھا۔