"ARC" (space) message & send to 7575

موسیقی

اگر آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم مسلمانوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے کہ جو صرف اس موسیقی کو نا جائز سمجھتے ہیں جو گناہ کی ترغیب دیتی ہو وگرنہ موسیقی کہاں موجود نہیں ہے۔ سننے والے کان ہونے چاہئیں ۔ خالی کمرے تک کاسُرسنائی دے جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جن لوگوں کا اوڑھنا بچھونا موسیقی رہی ہے اور جن کو ہم آج تک حقارت سے میراثی کہتے ہیں (حالانکہ میراثی کو اگر میراث سے مشتق سمجھا جائے تو حقارت کا پہلو غائب ہوتا دکھائی دیتا ہے مگر آخر روایت بھی کوئی چیز ہے۔) یہ میراثی لوگ بھی اچھی اور بری موسیقی میں تفریق کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بے سُرے اور بے تالے شخص کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ سرتال ہی ان لوگوں کے ہاں اچھائی اور برائی کا معیار ہوتا ہے ۔ اپنی ریڈیو کی ملازمت کے دوران میراواسطہ میوزک سیکشن کے لوگوں سے کافی رہا ہے جن میں اکثریت ہوتی تھی گانے والے، گانے والیوں اور سازندوں کی۔ ساٹھ کی دہائی کے آخری حصے میں کراچی ریڈیو اسٹیشن پر بطور پروڈیوسر میری پوسٹنگ ہوئی تو وہاں تقسیم ہند کے پہلے میوز ک ڈائریکٹر اور ایکٹر کے طورپر شہرت پانے والے فنکار رفیق غزنوی بھی آیا کرتے تھے وہاں ایک موٹر مکینک ہوتے تھے مجھے ان کا نام یاد نہیں۔ موصوف کلاسیکی راگ گانے کے شوقین تھے اور ان کے بارے میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ بہت برا گاتے ہیں۔ افسروں کی گاڑیاں چونکہ خراب ہوتی رہتی تھیں جن کو وہ مفت مرمت کرکے کسی افسر کی سفارش سے ریڈیو کراچی کے چینل نمبر 2کے شوقیہ گانے والوں کے پروگراموں میں اکثر گھس جایا کرتے تھے۔ اس موٹر مکینک کی گائیکی سننے کے بعد ایک روز رفیق غزنوی بہت بدمزہ تھے۔ کہنے لگے۔ گلے دوقسم کے ہوتے ہیں۔ ایک گانے کے لیے اور دوسرے چھری کے لیے ۔ تھوڑی دیر رک کر بولے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کونسی موسیقی حرام ہے۔ تو وہ موسیقی حرام ہے جسے سن کر انسان کا دیوار کو ٹکرمارنے کو جی چاہتا ہے۔ یہ تو اس حوالے سے کچھ ہلکی پھلکی بات چیت تھی تاہم بعدازاں جب میں لاہور ریڈیو پر تعینات تھا تو یہاں موسیقی کے حوالے سے بڑی سنجیدہ گفتگو بھی سننے کو ملتی تھی۔ ایک صاحب جو موسیقی کو یکسر حرام قرار دیے جانے کے حق میں نہیں تھے ایک مرتبہ اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے عالمانہ انداز میں کہنے لگے مطلق حرام تو پروردگار نے مردار، خون، سور کے علاوہ اس جانور کو قرار دیا ہے جو اللہ کے نام پر ذبح نہ کیا گیا ہو۔ موسیقی تو ان چیزوں میں شامل ہے جو حلال بھی ہوسکتی ہے اور حرام بھی۔ موسیقی مطلق حرام چیزوں میں شامل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زہد اورتقویٰ کو کون برا کہہ سکتا ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ اگر کسی متقی اور زاہد شخص کو اپنے زہد اور تقویٰ کا گھمنڈ ہوجائے اور وہ تکبر کا مظاہرہ کرنے لگے تو بات پھر جائز کی حدود سے باہر نکل جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آج کل موسیقی کے ساتھ جو ویڈیو Videoیعنی حرکت کرتی ہوئی تصویریں شامل ہوگئی ہیں ان کی وجہ سے موسیقی کا کیس بہت کمزور ہوجاتا ہے۔ ایک تو موسیقی کافی لچر ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ جوکھل کر فحاشی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کو دیکھ تو ہم سکتے ہیں مگر اس کا دفاع نہیں کرسکتے۔ موسیقی ایسے ناچ گانے کے ساتھ۔ اس دور کی حقیقت بن چکی ہے اور نہیں معلوم ابھی ہم نے کیا کچھ دیکھنا ہے۔ کہتے ہیں کہ ثقافت کی دنیا میں جو قدم بڑھ جائے اس کو پیچھے ہٹانا کار ے دارد ہوتا ہے۔ مغربی ثقافت نے کئی عشروں میں اتنی فحاشی نہیں پھیلائی جتنی بھارت کی ثقافت نے چند برسوں میں پھیلا دی ہے۔ اب ہماری نئی حکومت بھارت سے دوستی میں اور بھی اضافہ کرنے چلی ہے ۔ تنازعات حل ہونے کی تو امید کم ہی ہے ہاں البتہ یہ بھارتی ’’ثقافت ‘‘ خوب پھلے پھولے گی۔ اس پس منظر میں آپ موسیقی سے مراد وہ موسیقی لیں جو ہماری لوک روایات میں رچی بسی ہے اور جس کو برصغیر میں مسلمان گھرانوں نے کلاسیکی موسیقی کی شکل میں صدیوں فروغ دیا ہے۔ اس موسیقی کی میلوڈی Melodyسن کر بلڈپریشر کی دوائی کی حاجت نہیں رہتی۔ ایسی موسیقی سن کر کسی گناہ کی ترغیب نہیں ہوتی بلکہ اعصابی نظام کو وہ سکون ملتا ہے کہ دشمن کو بھی معاف کردینے کو جی چاہتا ہے۔ پروردگار نے بعض فنکاروں کو پراثر آواز کے ساتھ پرسوز گائیکی کا فن بھی دیا ہوتا ہے ،ایسے فنکار لاکھوں کروڑوں لوگوں کو اپنے فن سے زندگی بھر مسحور کرتے رہتے ہیں۔ ایسے فنکاروں کی ریکارڈنگ تو سب کو میسر ہے مگر جنہیں ان لوگوں کو براہ راست سننے کا موقع ملا ہو وہ اس کو ایک منفرد تجربہ خیال کرتے ہیں۔ کراچی ریڈیو پر ساٹھ کی دہائی میں بھارت کی معروف غزل گانے والی فنکارہ بیگم اختر نے موسیقی کی ایک محفل سجائی تھی ۔پینتالیس برس گزرجانے کے بعد بھی میرے کانوں میں اس فنکارہ کی آوازکی گونج آج بھی شاید اس طرح محفوظ ہے جیسے میں نے اسے کراچی کے سٹوڈیو نمبر 14میں سنا تھا۔ کسی بھارتی شاعر کی غزل گا رہی تھیں۔ ؎ یہ اہل دل کے جو چہروں پہ نور ہوتا ہے کوئی ملال، کوئی غم ضرور ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ہاں غالباً ساٹھ کے عشرے میں بھارت سے ایک نوجوان سنگر افراہیم آیا تھا۔ ریڈیو اور ٹی وی پر اور شاید فلموں میں بھی گانے گایاکرتا تھا۔ برصغیر کے معروف فنکار محمد رفیع کا دیوانہ تھا۔ افراہیم نے بھارت میں محمد رفیع کی موسیقی کی محفلوں میں شرکت کی ہوئی تھی۔ افراہیم نے ایک مرتبہ اس سوال کے جواب میں کہ محمد رفیع کی گائیکی کی کیا خاص بات ہے، کہا کہ جس ہال میں محمد رفیع گا کر چلے جاتے تھے ان کے جانے کے بعد بھی دیواروں سے اُن کے گانوں کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ اس تاثر میں یقیناافراہیم کی محمدرفیع سے بے پناہ محبت شامل ہے مگر جس فنکار کا فن ایسا تاثر اپنے سامعین کے دلوں میں اجاگر کردے وہ موسیقی کا حق ادا کردیتا ہے۔ اور یہی وہ موسیقی ہے جس کو کسی طوربھی ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ باقی جو دوسری موسیقی ہے جس کو آج کل پاپ میوزک کہا جاتا ہے تو اس کا پکا پکا نام ہی پاپ میوزک رکھ دیا جانا چاہیے ، Pop musicتو نگریزی کی اصطلاح ہے مگر اردو میں پاپ میوزک لکھنے سے لفظ پاپ بہت کچھ کہہ دیتا ہے۔ ممکن ہے ہماری لوک روایات میں رچی بسی اور مسلمان گھرانوں کی صاف ستھری کلاسیکی موسیقی کو قابل نفرت سمجھنا چھوڑ دیں اور اس موسیقی کی حدود میں بنائے گئے ان نغموں سے بھی درگزر کرلیں جو بچے اپنے گھروں میں ہردم گنگناتے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں