مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے اپنی جماعت کے نومنتخب ارکان سے خطاب کے دوران اپنے بھائی میاں شہباز شریف کے جوش خطابت میں ہاتھ مار کر مائیک گرانے کے بارے میں کہا کہ اپنے بھائی کا یہ انداز ان کو اچھا لگتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک تقریر میں میاں نواز شریف اپنے بھائی کی گائیکی کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں ،’’ مجھے معلوم نہیں تھا کہ شہباز شریف اتنا اچھا گالیتے ہیں ۔‘‘ دونوں بھائی چونکہ سیاسی میدان کی بڑی شخصیتیں ہیں اس لیے ان کی باتوں میں میڈیا کو دلچسپی رہتی ہے۔ اسی طرح ادب وثقافت کے میدان میں ہماری قومی زندگی میں دوبھائی بہت معروف رہے۔ احمد شاہ بخاری پطرس اور ذوالفقار علی بخاری، پطرس بخاری بڑے بھائی تھے جوگورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے، آل انڈیا ریڈیو کے ڈپٹی کنٹرولر تھے اور پھر آزادی کے بعد اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے۔ ذوالفقار علی بخاری اکثر زیڈ اے بخاری کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ شملہ میں انگریزوں کو اردو پڑھاتے رہے اور وہیں برطانوی افسر Lionel Fieldonکے بھی استاد رہے۔ یہی افسر بعدازاں آل انڈیا ریڈیو کا پہلا کنٹرولر بنا اور زیڈاے بخاری کو بھی آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ تقسیم ہند کے بعد زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور آج تک ان کو پاکستان میں نشریات کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں بھائیوں کا باہمی تعلق شریف برادران جیسا نہیں تھا۔ بخاری برادران میں نوک جھونک بھی چلتی رہتی تھی۔ ان کے معاصرین بیان کرتے ہیں کہ کسی محفل میں دونوں بھائی موجود تھے۔ غالباً دروازے پر دستک ہوئی تو پطرس بخاری نے چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا اور فارسی کا یہ محاورہ بولا ’’سگ باش برادر خوردمباش‘‘ یعنی چھوٹا بھائی ہونے سے بہتر ہے انسان کتا ہوجائے۔ ایسا کہنے میں پطرس بخاری کی طرف سے واضح اشارہ تھاکہ چھوٹا بھائی ہونے کی وجہ سے زیڈ اے بخاری کو جاکر دروازے پر دیکھنا چاہیے۔ زیڈ اے بخاری یہ سن کر دروازے کی طرف جاتے ہوئے بولے، اصل میںمحاورہ یوں ہونا چاہیے۔’’سگ باش برادرسگ مباش‘‘ یعنی انسان کتا ہومگر کتے کا بھائی نہ ہو۔ اس پر محفل میں جتنے لوگ موجود تھے سب کھل کر ہنسے۔ سگ کا اردو میں کتا ترجمہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرف سے بدتمیزی کا مظاہرہ ہورہا تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ فارسی میں بولے جانے کی وجہ سے بات تہذیب کے دائرے ہی میں رہتی ہے۔ پطرس بخاری خود بھی بہت بذلہ سنج شخص تھے۔ ان کی تصنیف ’’پطرس کے مضامین‘‘ اردو مزاحیہ ادب کی بے مثال کتاب ہے۔ آل انڈیا ریڈیو میں جب ڈپٹی کنٹرولر تھے تو ریڈیو کی نشریات سے دیگر محکموں کو شکایات بھی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ کسی محکمے کے سربراہ انڈین سول سروس کے کوئی افسر شکایت لے کر غصے میں بھرے پطرس بخاری کے دفتر پہنچے۔ بخاری صاحب کوئی تحریر پڑھ رہے تھے اور اس کو ختم کرکے افسر کی بات سننا چاہتے تھے کہ اس افسر نے غصے سے کہا MR. BOKHARI! YOU KNOW I AM ICS OFFICER. بخاری صاحب کی توجہ اسی تحریر پر رہی اور آہستہ سے ایک جملہ بولا ’’Have two chairs‘‘یعنی اگر آپ بڑے افسر ہیں تو بیٹھنے کے لیے دوکرسیاں لے لیں۔ اس آئی سی افسر پر کیا بیتی ہوگی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔ علم وادب میں پطرس بخاری کا مقام اپنی جگہ مگر وہ نشریات کی ضرورتوں سے بھی واقف تھے۔ ریڈیو میں زبان کیا بولی جائے اس میں انائونسروں وغیرہ پر تو ریڈیو حکام کو کنٹرول حاصل ہوتا ہے لیکن اگر کوئی VIPریڈیو پر انٹرویو وغیرہ دے تو اس کو صحت لفظی پرمجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح آل انڈیا ریڈیو کے کسی پروگرام میں کسی مہمان مقرر نے بول دیا ’’میں نے لکھنو جانا ہے ‘‘ اردو گرامر کے لحاظ سے نے کے ساتھ فعل مصدری آنا، جانا درست نہیں مانا جاتا۔ بحث شروع ہوگئی کہ چونکہ درست یہ کہنا ہے کہ ’’مجھ کو لکھنو جانا ہے‘‘ یا مجھے لکھنو جانا ہے ‘‘ لہٰذا اس بات کا تدارک ہونا چاہیے کہ ’’میں نے لکھنو جانا ہے‘‘ قسم کے جملے ریڈیو پر بولے جائیں۔ بات فیصلے کے لیے پطرس بخاری تک پہنچی۔ سب سن کر فرمایا ’’بھئی میں تو ذرائع ابلاغ کا آدمی ہوں۔ جس ترکیب میں ابلاغ زیادہ ہو اس کے خلاف نہیں جاسکتا۔ مجھے لکھنو جانا ہے کہا جائے تو درست ضرور ہے مگر معلوم صرف اتنا ہوتا ہے کہ موصوف کو لکھنو جانا ہے جبکہ جو یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میں نے لکھنو جانا ہے‘‘ تو اس جملے سے یہ معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ موصوف آکہاں سے رہے ہیں۔‘‘ یہ سن کر سب ہنسنے لگے اور بالواسطہ طورپر یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ریڈیو مہمان مقررین کی زبان درست کرنے کا فریضہ اپنے ذمے نہیں لے سکتا۔ پطرس بخاری کی طرح زیڈاے بخاری بھی کمال کے بذلہ سنج تھے ۔ ریڈیو کے ایک اور سابق ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی راوی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد زیڈ اے بخاری ایک مشیر کے طورپر ریڈیو کے محکمے سنٹرل پروڈکشنز سے وابستہ تھے جب سلیم گیلانی راولپنڈی میں واقع سنٹرل پروڈکشنز کے کنٹرولر ہوتے تھے۔ ریڈیو کے ایک اور معروف افسر گزرے ہیں‘ قاضی احمدسعید‘ جو صدر ایوب کے پریس سیکرٹری بھی رہے اور بعد میں ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل بھی ہوئے۔ یہ سب افسر بخاری صاحب کے ماتحت رہ چکے تھے اور بخاری صاحب ان سب کی عادتوں سے واقف تھے۔ گیلانی صاحب کہتے ہیں کہ ایک روزبخاری صاحب کہنے لگے کہ چلو قاضی سعید سے ملنے چلتے ہیں۔ دونوں گاڑی میں نکلے اور ایک گھر کے آگے گیلانی صاحب نے گاڑی روک لی اور کہا ’’غالباً یہ گھر ہے قاضی سعید کا ‘‘ ۔ اس کے جواب میں بخاری صاحب فوراً بولے’’سلیم، یہ قاضی سعید کا گھر نہیں ہوسکتا۔‘‘ بعد میں پتہ چلا وہ واقعی قاضی صاحب کا گھر نہیں تھا بلکہ ساتھ والا گھر تھا۔ گیلانی صاحب کہتے ہیں میں نے بعد میں بخاری صاحب سے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ قاضی سعید کا گھر نہیں ہے۔ بخاری صاحب بولے وہاں پورچ کی لائٹ جل رہی تھی میں قاضی سعید کو جانتا ہوں۔ اس کا گھر ہو اور پورچ میں فضول لائٹ جل رہی ہو۔ ناممکن، قاضی احمد سعید صاحب بہت عرصہ ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل رہے۔ ان کے تمام دور میں ریڈیو میں قاضی صاحب کی کفایت شعاری یا کنجوسی کے قصے ہی مشہور رہے مگر انہوں نے ہمیشہ ریڈیو پاکستان کو بجٹ کی حدود میں رہ کر چلایا۔ آج کل ہمارے ملک میں شاہ خرچیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہے لہٰذا ہمیں قاضی سعید صاحب جیسے افسروں کی اشد ضرورت ہے۔ بخاری برادران کے اتنے واقعات ہیں کہ ان پرباقاعدہ کتابیں تصنیف ہوسکتی ہیں۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ ان کتابوں کی تصنیف عمل میں آبھی جائے تو ان کو پڑھے گا کون؟ ہمارے ہاں پڑھنے لکھنے کی روایت پہلے ہی کم تھی اب کمپیوٹر دورنے اس کو بھی معدوم کردیا ہے۔ اب لے دے کے اخبارات ہی رہ گئے ہیں۔ ان میں اب ذکر رہے گا شریف برادران کا۔ دونوں بھائیوں نے بیڑہ اٹھایا ہے ملک کو درست کرنے کا۔ پوری قوم کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ اکثر نظریں امید سے بھری ہیں مگر کچھ نگاہیں خوفزدہ بھی ہیں۔ خداکرے کہ خوفزدہ نگاہوں کے خدشات بے بنیاد ثابت ہوں اور امید بھری نظریں بامراد ہوں۔