"ARC" (space) message & send to 7575

رائے عامہ کے جائزے

انتخابات میں دھاندلی کے ضمن میں سب سے زیادہ جو کہانی سننے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ رات کو ایک امیدوار جیت رہا ہوتا ہے لیکن صبح اٹھنے پر اس کو خبر ملتی ہے کہ وہ تو ہزاروں ووٹوں سے ہارچکا ہے۔ اصلی جھوٹ سچ کا پتہ تو قیامت والے دن ہی چل سکے گا لیکن ہمارے ہاں جیتنے والے امیدوار کا سچ اور ہارنے والے امیدوار کا سچ دونوں کبھی ہم رنگ نہیں ہوپاتے اور یہ کہانی برسوں چلتی رہتی ہے کہ جی رات کو جیت رہے تھے، صبح سوکر اٹھے تو ہمیں ہروایا جاچکا تھا۔ اس صورت حال پر لوک داستان سسی پنوں کا یہ حصہ یاد آتا ہے جو گیت کی شکل میں ہے اور جس میں شاعر سسی سے کہتا ہے۔ نی سسیے جاگدی رئیں راہ تکدی نیند نمانی اونٹھاں والے لے جان گے فیرلبھدی پھریں گی ہانی نی سسیے جاگدی رئیں اس میں پنوں کی محبوبہ سسی سے کہا گیا ہے کہ نیند کو قریب نہ آنے دینا اور جاگتی رہنا کیونکہ اگر تم سوگئی تو پنوں کو تم سے چھین کر وہ لوگ لے جائیں گے جو اونٹوں کے ایک قافلے کی شکل میں موجود ہیں۔ وہ لے گئے تو پھر تم اپنے ساتھی پنوں کو ڈھونڈتی ہی پھرو گی۔ اس داستان میں آگے آتا ہے کہ سسی سوئی رہ جاتی ہے اور اونٹوں والے اس کے پنوں کو اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ شاعری کا ترجمہ کرتے ہوئے قصداً میں نے سسی پنوں کے حصے کی کچھ کچھ تفصیل بھی ساتھ شامل کردی ہے تاکہ قارئین کے ذہنوں میں اس قصے کا وہ حصہ تازہ ہوجائے جو ان اشعار سے متعلق ہے‘ پھر ان کو اندازہ ہوگا کہ یہ اشعار کس طرح ہمارے ان امیدواروں پر منطبق ہوتے ہیں جو رات کے وقت جزوی طورپر انتخاب جیت کر سوگئے اور ساتھ ہی انہی امیدواروں کے بقول ان کی قسمت بھی سوگئی اور اونٹوں والوں نے یعنی دھاندلی کرنیوالوں نے ان کا محبوب یعنی الیکشن ہی ان سے چُرالیا۔ اگر ہم 2013ء کے انتخابات کے نتائج کا موازنہ رائے عامہ کے ان جائزوں سے کریں جو قابل اعتماد اداروں نے جاری کیے تھے تو معلوم ہوگا کہ نتائج میں حیرانگی کا کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تقریباً ایسے ہی نتائج متوقع تھے۔ جہاں تک دھاندلی کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں کیسے ممکن ہے کہ یہ ناپیدہوجائے۔ کونسی شے ہے ہمارے ملک میں جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ تو پھر انتخابات ملاوٹ سے پاک کیسے ہوسکتے ہیں۔ آپ دعوے سنتے رہیں لیکن یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ جب تک معاشرتی سطح پر ہم بدعنوانی میں کمی نہیں لائیں گے انتخابات میں کچھ نہ کچھ دھاندلی ہوتی رہے گی۔ اور اسی طرح سیاسی جماعتیں اپنے حق میں آنے والے رائے عامہ کے اندازوں اور جائزوں کو تو قبول کرتی رہیں گی اور جن جائزوں میں نتائج ان کی پسند کے نہ ہوں گے ان کو یہ کہہ کر مسترد کرتی رہیں گی کہ یہ سروے ہمارے سیاسی مخالفین نے کروایا ہے۔ اصل میں مؤقر اور قابل اعتماد ادارے جو سروے کراتے ہیں وہ سائنسی بنیادوں پر کیے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں رائے عامہ کے جائزوں میں جوکچھ بیان کیا جاتا ہے اس کو بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو سیاسی جماعتیں ان جائزوں کی روشنی میں مرحلہ وار اپنی حکمت عملی تک تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں جس طرح کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے اسی طرح سیاسی جماعتیں اپنے خلاف نتائج دیکھ کر چشم پوشی کرتی ہیں۔ اگرچہ تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض اوقات رائے عامہ کے اندازے اتنے درست نہ نکلے مگر زیادہ تر رائے عامہ کے جائزوں کے نتائج صحیح سمت کی طرف ہی نشاندہی کرتے ہیں۔ بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جارج گیلپ نامی ایک امریکی نے سائنسی بنیادوں پر ایک سروے کے ذریعے یہ نتیجہ نکالا کہ 1936ء کے امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار روزویلٹ (Roosevelt) جیتیں گے حالانکہ اس کے مقابلے میں پرانے غیر سائنسی طریقے سے 23لاکھ ممکنہ ووٹرز کی رائے معلوم کرنے کے بعد یہ نتیجہ منظر عام پر آچکا تھا کہ روزویلٹ کے مقابلے میں ری پبلکن پارٹی کے امیدوار Alf Landonجیت رہے ہیں۔ یہ 23لاکھ لوگوں کا سروے چونکہ محض ان علاقوں میں کیا گیا تھا جہاں عمومی طورپر ری پبلکن پارٹی کے حامی رہائش پذیر تھے لہٰذا غلط ثابت ہوا اور جارج گیلپ کا اس کے مقابلے میں سائنسی بنیادوں پر ہونے والا نسبتاً چھوٹا سروے کامیاب رہا جس میں روزویلٹ کی بھاری اکثریت سے کامیابی کی پیش گوئی موجود تھی۔ 1945ء میں برطانیہ کو سرونسٹن چرچل کی قیادت میں دوسری جنگ عظیم میں فتح نصیب ہوئی تھی۔ اسی برس برطانیہ میں ہونے والے عام انتخابات میں کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ چرچل کو شکست ہوجائے گی۔ برطانیہ میں گیلپ نے اپنی ایک چھوٹی سی شاخ کھول رکھی تھی۔ پورے برطانیہ میں واحد آواز گیلپ کی ایک چھوٹی سی شاخ کی تھی جس کا کہنا تھا کہ 1945ء کے انتخابات میں ونسٹن چرچل کی کنزرویٹو پارٹی کی حریف لیبر پارٹی جیت جائے گی۔ جب لیبر پارٹی جیت گئی تو امریکہ کے بعد برطانیہ میں بھی گیلپ کی ساکھ قائم ہوگئی۔ بعدازاں پچاس کی دہائی میں تو دنیا کے تقریباً سبھی جمہوری ملک رائے عامہ کے ان جائزوں کو سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کے پیمانے کے طورپر تسلیم کرنے لگے تھے۔ جس طرح ہمارے ہاں ہرکام ایک نمبرون ہوتا ہے اور ایک دو نمبر کا ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ دونمبر کے رائے عامہ کے جائزے بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں‘ مگر ان کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا۔ حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ جو ہماری غیر مقبول جماعتیں تھیں اور جواب الیکشن میں بھی ایک طرح سے ہارچکی ہیں، ان جماعتوں نے گیلپ وغیرہ کے مقابلے میں کچھ اپنے حق میں سروے وغیرہ کروائے تھے مگر ہمارے عوام نے ان کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ان انتخابات میں جس طور رائے عامہ کے قابل اعتماد اداروں سے کیے گئے سرویز صحیح ثابت ہوتے ہیں تو امید کی جانی چاہیے کہ ہماری سیاسی جماعتیں رائے عامہ کے اندازوں کو سنجیدگی سے لیا کریں گی اور ممکنہ طورپر اپنی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے ان جائزوں سے استفادہ بھی کیا کریں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں