"ARC" (space) message & send to 7575

نظریاتی گتھیاں

چند روز پہلے امریکی محکمہ خارجہ نے سال 2012ء کے لیے Country Reports on Terrorismجاری کی ہیں۔ ان رپورٹوں کے آخر میں بیان کیا گیا ہے کہ 2012ء کے دوران میں دنیا کے پچاسی ملکوں میں دہشت گرد حملوں کی وارداتیں ہوئیں مگر حالیہ برسوں میں ہونے والے کل حملوں کا 55 فیصد محض تین ملکوں کے حصے میں آیا… پاکستان، عراق اور افغانستان۔ اسی طرح دہشت گرد حملوں میں جوکل اموات ہوئیں ان کا 62فیصد انہی تین ملکوں کے رہنے والے بنے اور کل زخمیوں کا 65فیصد حصہ بھی انہی تین ملکوں کے لوگ تھے۔ آئندہ برسوں میں ان ملکوں میں دہشت گردی کم ہو پائے گی یا نہیں، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ تجزیے بہت موجود ہیں، پیش گوئیاں بھی ہورہی ہیں‘ مغربی دنیا میں تو لاتعداد تھنک ٹینکس اور کچھ کرہی نہیں رہے سوائے اس موضوع پر ماہرانہ سوچ بچار کو مسلسل رپورٹوں کی شکل میں شائع کرنے کے۔ ہم پاکستانی ہیں اور اگرچہ بحیثیت مسلمان ہمیں عراق اور افغانستان کے حالات پر بھی خاصی تشویش رہتی ہے مگر ہمارا بنیادی مسئلہ آج کل خود اپنا ملک بناہوا ہے جس میں ہرطرف مسائل ہی مسائل دکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری نئی حکومت توانائی کا بحران دورکرکے ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اچھی حکمرانی اور بدعنوانی سے پاک نظام قائم کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا ایجنڈا لے کر آئی ہے۔ یہ سب باتیں بہت اہم ہیں اور ہونی بھی چاہئیں مگر ہمارے ہاں جو چیز مسائل کی ماں ہے اس کی طرف ویسی توجہ دکھائی نہیں دیتی جیسی معیشت کی بحالی سمیت دیگر مسائل کی طرف ہے۔ ہمارے ہاں جتنے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کا بیشتر حصہ اس وجہ سے ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ واضح نہیں کہ بحیثیت قوم ان کا نظریہ کیا ہے۔ اگرچہ ہم اپنے آپ کو ایک نظریاتی مملکت کہتے ہیں مگر اس کی تشریح ایک نہیں ہے۔ جومختلف تشریحات ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے سے اس قدر مختلف ہیں کہ ان کو کسی مشترکہ نقطے پر لانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہوچکا ہے کہ کوئی حکومت اب اس طرف توجہ کرنے سے بھی گھبراتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اسلام کو پاکستان کے نظریے کے طورپر اپنایا جائے تو فوراً جنرل ضیاء الحق کا گیارہ سالہ دور سامنے آجاتا ہے۔ موصوف بہت طاقتور حکمران تھے اور قدرت نے ان کو اپنی پالیسیاں نافذ کرنے کے لیے اچھا بین الاقوامی ماحول بھی عطا کررکھا تھا۔ مغربی دنیا امریکہ کی قیادت میں سوویت یونین سے نبرد آزما تھی اور جنرل ضیاء الحق ان کی مددکررہے تھے لہٰذا مغرب جنرل ضیا کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ اس صورتحال میں اگر ہماری قسمت اچھی ہوتی تو وہ اس ملک کو قابل عمل قسم کا اسلامی نظام قائم کرکے دے سکتے تھے جو علامہ اقبال کی فکر کا عکاس ہوتا اور جس میں اجتہاد کے ذریعے ہمارے اکابرین تمام نظریاتی گتھیاں سلجھالیتے۔ مگر جنرل ضیاء الحق کی پہلی ترجیح یہ رہی کہ ان کا اپنا اقتدار قائم رہے۔ اسی کی خاطر انہوں نے پاکستان کو مسلسل اپنی پالیسیوں کے شکنجے میں کسنے کی کوشش کی۔ نتیجہ جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ ان کے قائم کردہ زکوٰۃ کے نظام کا کیا حشر ہوا وہ اس کی ایک بیّن مثال ہے۔ جن لوگوں نے جنرل ضیاء الحق کا دور دیکھا ہے ان میں آپ کو آج ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جو موصوف کی اسلامی اصلاحات کو ان کی پرخلوص کوشش سمجھتا ہو۔ ان کے پروردہ سیاستدان بھی اب بظاہر ان کی اسلامی اصلاحات سے تائب ہوچکے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ سامنے رکھیں تو واصف علی واصف مرحوم کے اس دعائیہ جملے کی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ’’یااللہ اسلام کو مسلمانوں سے محفوظ رکھ‘‘ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں جب اسلامی نظام کے نفاذ پر زوردیتی ہیں تو پاکستانی لوگ ان سے متفق توضرورہوتے ہیں مگر وہ یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ جماعتیں اسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی قابل عمل ایسی صورت بھی توپیش کریں جو جدید مغربی جمہوریت سے بہتر طرز حکمرانی کی نقیب ہو۔ پاکستانی تو ان جماعتوں کے اتحاد واتفاق ہی کوترستے رہتے ہیں۔ دوسرا نظریہ جو ہمارے ہاں جنرل ضیاء الحق کی اصلاحات کی مانند پٹا ہے وہ جنرل پرویز مشرف کا سیکولر نظریہ ہے جس کا ٹیپ کا بند’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ تھا۔ ان صاحب کا ذہنی حصار بھی جنرل ضیاء الحق کے برابر ہی تھا۔ جتنی لگن ضیاء الحق کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کی تھی اتنی ہی لگن پرویز مشرف کو حکومت میں رہنے کی تھی۔ دونوں کا مقصد ایک تھا بس حکمت عملی مختلف تھی۔ ان دونوں حکمرانوں کے ادوار میں جوکچھ ہوا اس وجہ سے ہماری قوم نظریے کی بحث سے بہت خوفزدہ ہوچکی ہے۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ حکومتیں بھی اس طرف قدم بڑھانے سے ڈرنے لگی ہیں؛ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ جس قوم کا کوئی واضح نظریہ نہ ہو، اس کا بطور ایک قوم کے کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ اب طالبان کی طرف سے ہمارے ملک کو جو خطرات پیدا ہوئے ہیں ان سے فوج تو عسکری طورپر نمٹ رہی ہے لیکن نظریاتی محاذ پر ان لوگوں کا کوئی مقابلہ نہیں کررہا۔ طالبان کٹر قسم کے مذہبی رجحانات کو قبائلی روایات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے اپنا ایک ایسا نظریہ قائم کرچکے ہیں جس کے تحت وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آج وزیرستان پھر پاکستان، اس کے بعد بھارت، نیپال، بنگلہ دیش اور برما پر ایک روز ان کا پرچم لہرائے گا۔ قارئین کو ان کا یہ دعویٰ بھلے مزاحیہ معلوم ہو لیکن یہ موجود ہے اور بدقسمتی سے یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں ایک ایسے جدید پاکستان کی خواہاں ہے جس میں اجتہاد کے ذریعے اسلامی اقدار کو جدید عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرلیا جائے مگر اکثریت کی اس سوچ کو کوئی نظریے کے طورپر پیش نہیں کرپاتا۔ نئی حکومت چاہے جتنی اصلاحات کرلے جب تک یہ نظریاتی گتھی نہیں سلجھائے گی نہ دہشت گردی ختم ہوگی اور نہ ہی ہمارے مسائل کم ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں