مغربی دنیا کے فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو بعض اوقات بڑی دلچسپ باتیں ملتی ہیں۔ مثلاًتصوف اور سائنس کے باہمی تعلق کے حوالے سے ایک بحث میں Mystic اور Scientist کے فرق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ Both have the same feeling but they think differently (یا اسی قسم کا کوئی جملہ تھا۔ پرانی بات ہے جب یہ بحث زیر مطالعہ آئی تھی)۔ یعنی مغربی دُنیا صوفی اور سائنسدان کے مابین یہ فرق بیان کرتی ہے کہ دونوں کے محسوسات تو ایک جیسے ہوتے ہیں مگر سوچ کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ دونوں ہی کائنات کے راز پانے کی خواہش رکھتے ہیں مگر صوفی جو طریقہ اختیار کرتا ہے وہ اس طریقے سے بالکل جدا ہوتا ہے جو سائنسدان اختیار کرتا ہے۔اب تو کہتے ہیں کہ فزکس نے فلسفے کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ فلسفے کی صوفی اور سائنسدان کے حوالے سے یہ بحث مجھے یوں یاد آئی کہ ہمارے ہاں آج کل بہت دہائی دی جاتی ہے کہ مسلمان سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے۔ یہ بات درست بھی ہے۔ جدید دور کی جتنی ایجادات ہیں ان میں مسلم دنیا کا زیادہ سے زیادہ یہ حصہ نکلتا ہے کہ دسویں، گیارہویں صدی میں مسلمان سائنسدانوں نے جدید سائنس کی بنیاد رکھنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اس کے بعد ان کا یہ حصہ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوگیا اور جدید دور میں کسی بھی ایجاد کا سہرا کسی مسلمان کے سر نہیں ہے۔ ہاں البتہ جس طرح پانی سے گاڑی چلانے والے ایک ’’انجینئر‘‘نے حال ہی میں پورے ملک کو چند روز کے لیے بے وقوف بنائے رکھا۔ویسے سائنسدان ہم نے کافی پیدا کیے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مسلمان سائنس کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں لیکن اگر یہ بات مان لی جائے کہ صوفی اور سائنسدان کے محسوسات ایک جیسے ہوتے ہیں، صرف طریقہ واردات مختلف ہے تو پھر مسلم دنیا نے تصوف کے میدان میں مغرب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جس طرح حقیقی سائنسدانوں کی تعداد مغربی دنیا میں بھی زیادہ نہیںاور درجہ دوم اور سوم کے سائنسدان بے شمار پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح مسلم دنیا میں بھی وہ صوفی انتہائی کم ہیں جو اولیائے کرام کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئے اور جن کی کشف المحجوب جیسی تصنیفات آج بھی دلوں کو سکون فراہم کرنے کا سبب بنتی ہیں؛ تاہم درجہ دوم اور سوم کے نام نہاد صوفیوں کی تعداد ہمارے ہاں یقیناً مغرب کے درجہ دوم اور سوم کے سائنسدانوں سے کہیں زیادہ ہے۔ علامہ اقبالؒ نے تصوف سے متعلق اپنی ایک تصنیف میں اس بات کو جس طرح واضح کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تصوف کی دنیا کو کرہ ارض مان لیا جائے تو مشرق میں اور بالخصوص مسلمانوں میں قطب شمالی پر موجود برف کے برابر پرخلوص اور صحیح تصوف موجود ہے جبکہ باقی جتنا کرہ ارض ہے وہ تصوف کے نام پر دنیا داری ہے۔ لہٰذا اگر آج ہمیں کوئی طعنہ دے کہ ہم سائنس کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں اور مغرب بہت آگے نکل گیا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصوف کے میدان میں اور پیری فقیری کے کراماتی ہنر میں ہم لوگ مغرب کو کہیں پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مغربی دنیا محض حسد کی وجہ سے ہمارے صوفیوں اور پیروں فقیروں کی پذیرائی کرنے کے بجائے ہندوئوں کے جوگیوں اور سادھوئوں کو سر پر بٹھاتی ہے۔ ہمارے کرشماتی قسم کے پیروں فقیروں کی البتہ مقامی طور پر پذیرائی بے مثال ہے۔ حقیقی صوفیوں کے شب وروز تو کسی اور طرح کے ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس جا کر قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ ایمان و یقین میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعلق باللہ کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ دوسری طرف تصوف کی آڑ میں کاروبار چمکانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ضعیف الاعتقادی کا مکروہ استحصال عام ہے۔ مثلاً یہ واقعہ دیکھیں۔ لاہور میں ایک خاتون پر کوئی حافظ جی وارد ہوتے تھے۔ جمعرات کو زور دار قوالی ہوتی تھی جس کے بعد وہ خاتون مردانہ آواز میں سینکڑوں کی تعداد میں آئے سائلوں کے سوالوں کے جواب دیتی تھی۔ دشمنوں پر ضرب لگانے کے طریقے بتائے جاتے تھے جن میں ایک طریقہ یہ تھا کہ ثابت نمک کا دو تین کلو کا ٹکڑا (جس کو ڈلا کہتے ہیں) منگوایا جاتا اور اس پر پھونکیں مار کر سائل کو دے دیا جاتا کہ نمک کے ٹکڑے پر جب ضرب لگائو گے، دشمن کو ضرب لگے گی اور جب نمک کا ڈلا ٹوٹ جائے گا تو دشمن فنا ہوجائے گا۔ نذرانے وغیرہ تو لازمی حصہ تھے۔ ایک نوبیاہتا مریدنی آئی تو حافظ جی نے کہا کہ اگلی مرتبہ اپنے شوہر کو لے کر آنا۔ مریدنی کا شوہر ان پیروں فقیروں کے بجائے مغرب کے سائنسدانوں کا مرید تھا۔ اس نے بیوی کو بھی منع کیا کہ ایسی جگہوں پر نہ جایا کرے مگر ایسی نصیحت کہاں مانی جاتی ہے۔ مریدنی جب اگلی مرتبہ پہنچی تو اس نے حافظ جی کو بتا دیا کہ اس کے شوہر نے آنے سے انکار کردیا ہے۔ اس دن تو حافظ جی خاموش ہوگئے لیکن بات دل میں رکھ لی، صرف اتنا کہا، کوئی بات نہیں، ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ مریدنی ایک مرتبہ بیمار ہوئی تو بیماری ذرا طول پکڑ گئی۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ حافظ جی سے بھی مشورہ کیا تو حافظ جی نے کہا کہ کسی عورت نے تم پر سفلی عمل کروایا ہے اور پانی وغیرہ پڑھ کر دیدیا۔ مریدنی کی بیماری ٹھیک ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ا ور حافظ جی کی بات زور پکڑتی جارہی تھی۔ آخر ایک روز حافظ جی نے اپنا بدلہ لے لیا۔ انہوں نے مریدنی سے کہا کہ تیرا شوہر کسی اور عورت کے پاس جاتا ہے اور یہی عورت تجھے کالے علم کے ذریعے مروانا چاہتی ہے۔ شوہر بیچارہ جس کو اس صورتحال کا کچھ علم نہیں تھا بیوی کا علاج کروا رہا تھا۔ آخر چھ ماہ بعد ایک سپیشلسٹ کے زیرعلاج آنے پر بیوی تندرست ہونے لگی ،تاہم بیوی اس کو حافظ کے تعویذوں کا اثر سمجھتی رہی۔ صحت مند ہونے کے بعد بیوی یعنی مریدنی نے یہ وتیرہ بنا لیا کہ اب اس عورت کو پکڑنا ہے جو اس کے شوہر کے ساتھ ملوث ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ کہانی ختم ہوگئی۔ نہیں جناب یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ شوہر کا چونکہ کسی عورت کے ساتھ کوئی چکر نہیں تھا؛ لہٰذا اس کو پکڑنا ناممکن تھا؛ چنانچہ اس کی بیوی نے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کا شوہر دنیا کا چالاک ترین اور مکار ترین شخص ہے، جس نے اس کامیابی سے ایک اور عورت رکھی ہوئی ہے کہ اس کی ہوا تک لگنے نہیں دیتا۔ اس کے بعد برسوں گزر گئے گھر میں جھگڑے شروع ہوئے، بچے پریشان رہنے لگے، آخر کار بات علیحدگی تک پہنچ گئی۔ مغرب کے درجہ دوم اور سوم کے سائنسدان جو کمالات کرتے ہیں ان سے بہر حال زندگی گزارنے میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن تصوف کی دنیا کے ہمارے درجہ دوم اور سوم کے یہ پیر فقیر اگرچہ دعوے تو بہت کرتے ہیں کہ وہ روحانی طور پر لوگوں کے مسائل حل کر دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ’’ دکھ کے سوداگر‘‘ ہیں۔ جس مریدنی کا میں نے کیا ہے وہ آج بھی اسی عورت کی مرید ہے جس پر حافظ جی آتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ عورت مر چکی ہے اور اس کی گدی اس کی بیٹی نے سنبھال لی ہے اور ذرا سی مختلف آواز کے ساتھ وہی حافظ جی بیٹی پر آنے لگے ہیں اور سائلوں کے مسائل’’حل‘‘ کر رہے ہیں۔