"ARC" (space) message & send to 7575

معیار تعلیم

تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں کی جوحالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ ادارے تعلیم کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اس کااندازہ آپ ان نوجوانوں کے معیار تعلیم سے کرسکتے ہیںجو ان اداروں کے امتحانات پاس کرکے تعلیم یافتہ کہلاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جو اساتذہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر مامور ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جو اس کام کو محض ایک نوکری سمجھ کر سرانجام دیتے ہیں۔ تعلیم کی یہ صورتحال ہمارے ہاں برسوں بلکہ کئی عشروں سے موجود ہے اور نظام تعلیم مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ اگر آپ ساٹھ کی دہائی میں میٹرک کرنے والے طالب علم کے تعلیمی معیار کا آج گریجویشن کرنے والے طالب علم سے کسی طورموازنہ کرپائیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نصف صدی پہلے کا میٹرک پاس شخص آج کے گریجویٹ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ہماری آبادی اب اٹھارہ اور بیس کروڑ کے درمیان کہیں ہوگی اور اتنی بڑی تعداد میں کم ہی ایسے نفوس ہوں گے جو صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ کہلاسکتے ہوں؛ تاہم یونیورسٹی اور کالج کی ڈگریاں یقینا بہت زیادہ لوگوں کے پاس ہیں۔ اکثریت بہرحال پھر بھی نیم خواندہ یا ان پڑھ ہی کہلاتی ہے۔ اس صورت حال میں ملک کے تعلیمی نظام کو درست کرنا کسی بھی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا اور اگر ہمیں عوامی جمہوریہ چین کی طرز کے کسی تعلیمی منصوبے پر عملدرآمد کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے اور اس کے لیے مالی وسائل کا بھی انتظام ہوجائے تب بھی ہمارا تعلیمی نظام درست ہونے میں برسوں لگ جائیں گے۔ لہٰذا اس مسئلے کو تو حکومتوں کے لیے پتہ نہیں کب تک چیلنج بنا رہنا ہے لیکن جو ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ جتنے بھی تعلیمی ادارے موجود ہیں اور جن کے لیے مالی وسائل بھی رودھو کر مہیا ہوجاتے ہیں ان میں موجود اساتذہ کی تعلیم وتربیت کا انتظام کریں۔ اس کام کے لیے کوئی مربوط نظام بنانا مشکل کام نہیں ہوگا کیونکہ اضافی مالی وسائل جو درکار ہوں گے وہ قابل برداشت ہوں گے۔ یہی ایک کام اگر تعلیم کے شعبے میں ہم کرگزریں تو ممکن ہے چند برسوں بعد ہی ہمارے ہاں ایسے اساتذہ کی خاطر خواہ تعداد ہوجائے جو ہمارے نوجوانوں کے معیار تعلیم کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہو۔ تعلیم کے شعبے میں ہماری اولین ترجیح یہی ہونی چاہیے کیونکہ ہمارے ہاں ہرپڑھا لکھا شخص جانتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ کو مزید تعلیم وتربیت کی سخت ضرورت ہے۔ جس ٹیچر نے جو نصاب تعلیم پڑھ رکھا ہے بھلے وہ Out datedہوچکا ہو وہ وہی پڑھائے جاتا ہے۔ کالجوں سکولوں میں کمپیوٹرموجود ہیں مگر یہ ہمارے تعلیمی نظام میں اکثر صورتوں میں تعلیمی اداروں میں بتیس دانتوں میں زبان کی طرح پڑے رہتے ہیں۔ ہونہار طالب علم اپنی مرضی سے کمپیوٹر وغیرہ سے فائدہ اٹھالے تو اٹھالے ہمارے اساتذہ کی اکثریت اپنے بنائے ہوئے نوٹس سے ادھر ادھر نہیں ہوتی۔ بعض ٹیچر ایسے بھی ہیں کہ بیس برس پہلے جو لیکچر دیتے تھے آج بھی اس میں سرمو کوئی تبدیلی نہیں کرتے۔ ہمارے اساتذہ کے اس رویے کی وجہ سے ہمارے طالب علموں کا تعلیمی معیار اکثرصورتوں میں منجمد ہوتا دکھائی دیتا ہے یہی طالب علم جب زندگی کے مختلف شعبوں میں ملازمتیں حاصل کرکے ملک کا کاروبار چلاتے ہیں تو ان کا تعلیمی معیار چھپائے نہیں چھپتا۔ نوے کی دہائی میں میں ریڈیو پاکستان لاہور میں پروگرام منیجر کے عہدے پر تعینات تھا۔ ایک نوجوان جس نے تین مضمونوںمیں ایم اے کیا ہوا تھا میرے پاس درخواست لے کر آیا کہ اسے انائونسر رکھ لیا جائے۔ دس گیارہ سطروں کی اس کی درخواست میں درجن سے زیادہ غلطیاں تھیں۔ درخواست انگریزی میں تھی۔ میں نے اس نوجوان کو کاغذ اور پین دیا اور کہا کہ اپنی درخواست اردو میں لکھے۔ کوئی آدھ گھنٹے تک وہ مصروف کار رہا اور جب میں نے درخواست دیکھی تو اس میں انگریزی والی سے بھی زیادہ غلطیاں تھیں۔ اس کی پہلی درخواست کے ساتھ اس کی ایم اے کی تینوں ڈگریوں کی فوٹو کاپیاں لگی ہوئی تھیں۔ بڑے غور سے میں نے ڈگریوں کو دیکھا۔ میرا نہیں خیال کہ جعلی ہوں گی۔ کیونکہ جعلی تو ایک ہی کافی ہوتی ہے۔ تین ڈگریاں تو ویسے ہی شک کو دعوت دینے والی بات ہے۔ ریڈیو میں ہمارا ایک پروگرام ہوتا تھا یونیورسٹی میگزین۔ اس میں ایک لیکچرر یا پروفیسر کو مدعو کیا جاتا تھا اور موصوف کے ساتھ تین چار طلباء طالبات کو سوال جواب کے لیے بٹھا دیا جاتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اکثر جو ٹیچر ہوتا تھا وہ اپنا لیکچر بھی لکھ کر لاتا تھا اور طالب علموں کے سوال اور جواب بھی لکھ کر لاتا تھا۔ سوال طالب علموں کو دے دیئے جاتے تھے جب ٹیچر اپنا لیکچر پڑھ کے فارغ ہوتا تو طالب علم باری باری سوال پڑھتے اور پھر ٹیچر پڑھ کر ہی ان کا جواب دیتا۔ میراخیال ہے کہ نوے فیصد اساتذہ اسی طرح پروگرام میں شرکت کرتے تھے باقی دس فیصد فی البدیہہ لیکچر دیتے تھے اور بغیر کسی بریفنگ کے طلبا وطالبات کے سوالوں کے جواب دیتے تھے۔ میری نظر میں یہ جو دس فیصد اساتذہ ہیں ان کو دیگر اساتذہ کی تربیت کا کام دیا جانا چاہیے۔ ہمارے تعلیمی شعبے میں اب بھی بہت ہنر مند اور پڑھے لکھے افراد موجود ہیں مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد بہت کم ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اور بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس تعداد کو بڑھانا ہمارے ارباب حل وعقد کا اولین کام ہونا چاہیے۔ آج کل بھی میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں ایم اے اور بی اے کے طلبا وطالبات کو پڑھاتا ہوں۔ کلاس میں میں ان سے سوال جواب بھی کرتا ہوں اور ان کی تحریریں بھی پڑھتا ہوں۔ انتہائی کم تعداد ہوتی ہے ایسے طالب علموں کی جوزبان صحیح لکھتے ہیں اور بولتے ہیں اور جو مضمون میں پڑھاتا ہوں اس کے بارے میں مناسب علم رکھتے ہیں۔ ان بچوں سے گفتگو میں اکثر یہی پتہ چلتا ہے کہ ان کی یہ قابلیت یا تو گھریلو تربیت کا نتیجہ ہے یا ان کا اپنا تعلیم کا شوق اس کے پس منظر میں ہے وگرنہ جس سسٹم سے وہ پڑھ کر آئے ہیں وہاں کے اساتذہ نے ان کی اس تعلیم وتربیت میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا ہوتا۔ اس انتہائی کم تعداد کے سوا جتنے بھی طلبا وطالبات کلاس میں ہوتے ہیں وہ ہمارے ناقص نظام تعلیم کی منہ بولتی تصویر ہوتے ہیں۔ اس ناقص نظام تعلیم کو درست کرنے کا آغاز ہم اساتذہ کی تربیت کرکے ہی کرسکتے ہیں۔ اگر ہماری توجہ زیادہ تعداد میں سکول کالج یونیورسٹیاں بنانے پر لگی رہی تو معیار تعلیم اور بھی پست ہوتا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں