"ARC" (space) message & send to 7575

مشرقی پاکستان

جب مشرقی پاکستان ہمارے ملک کا حصہ ہوتا تھا، اس دور میں کراچی، لاہور اوراسلام آباد سمیت موجودہ پاکستان کے اکثر شہروں میں ہمارے بنگالی بھائی بھی دیکھے جاتے تھے۔ اسلام آباد اور کراچی میں تو ان کی اچھی خاصی تعداد باقاعدہ رہائش پذیر تھی۔ اکثریت یہاں وفاقی حکومت کے ملازمین کی تھی۔ لاہور میں کئی تعلیمی اداروں میں ہمارے ہم جماعت بنگالی بھی ہوتے تھے۔ یہ مشرقی پاکستان سے Inter-wing سکالر شپس پر مغربی پاکستان تعلیم حاصل کرنے آتے تھے اور بعض بنگالی گھرانے بھی اپنے بچوں کو یہاں پڑھنے بھیجتے تھے۔ میں جب 1963ء میں تھرڈ ایئر میں پڑھ رہا تھا تو میراایک بنگالی کلاس فیلو ہوتا تھا۔ اے ٹی ایم حیدر… وہ حیدر کو Haiderکے بجائے Hyderلکھتا تھا اور کالج کے ہرحاضری رجسٹرمیں اپنے نام کے ہجے درست کرواتا رہتا تھا۔ اسی زمانے میں پاکستان رائٹرزگلڈ کے زیراہتمام بنگلہ زبان سیکھنے کی مفت کلاسز ہوتی تھیں۔ سی سی داس نامی ایک بنگالی یہ کلاسز لیا کرتے تھے۔ موصوف مسیحی تھے اور تقسیم ہند سے قبل رائل ایئرفورس کے ملازم تھے۔ بعد میں کسی وجہ سے مستعفی ہوکر لاہور ہی کے ہوگئے تھے۔ اس دور میں لاہور کے ثقافتی حلقوں میں سی سی داس ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ بنگلہ زبان کی ان کی کلاس میں اشفاق احمد اور نثار عثمانی جیسی شخصیات بھی ابتدائی طورپر شریک تھیں کیونکہ یہ لوگ قومی یکجہتی کا پیغام دینا چاہتے تھے مگر کچھ عرصے بعد سی سی داس کے شاگردوں میں محض وہ لوگ رہ گئے تھے جو سنجیدگی سے بنگلہ زبان سیکھنا چاہتے تھے اور ان کے پاس وقت بھی تھا۔ میرا ایک دوست مظہرالحق منہاس مجھے بنگلہ کلاس میں لے گیا تھا اور بعدازاں میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوگیا، جو سی سی داس کے اچھے اور ہونہار طالب علم شمارہوتے تھے۔ چند ماہ میں‘ میں اچھی خاصی بنگلہ زبان بولنے لگا تھا اور تھوڑا بہت لکھ بھی لیتا تھا۔ پڑھنے میں البتہ دقت ہوتی تھی۔ بنگلہ زبان میں میری دلچسپی کی وجہ سے اپنے بنگالی کلاس فیلو اے ٹی ایم حیدر سے میری دوستی ہوگئی تھی۔ دیگر دوستوں کے ہمراہ ہم اکٹھے گھومتے پھرتے تھے۔ انگریزی ، اردو اور بنگلہ تینوں زبانوں میں ملی جلی گفتگو کرتے تھے۔ حیدر کو گانے کا بہت شوق تھا۔ وہ سہگل کے علاوہ رفیع‘مکیش ‘احمد رشدی وغیرہ کے گائے گانے بھی گاتا تھا۔ اردو چونکہ اس کی مادری زبان نہیں تھی لہٰذا بعض اوقات اس کے گائے گانے ہمارے لیے لطیفہ بن جاتے تھے۔ مثلاً وہ بھارتی فلم دیدار کا نغمہ ’’دیکھ لیا میں نے‘ قسمت کا تماشہ دیکھ لیا‘‘ اس طرح گاتا تھا ’’دے کے لیا میں نے‘ قسمت کا تماشہ دے کے لیا‘‘ جب ہم اس کی غلطی درست کروا دیتے تو پھر غلطی دہراتا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ یہ مسئلہ بھی رہتا تھا کہ وہ ج کو ز اور زکو ج بولتا تھا۔ اس کو ہم سومرتبہ بھی ٹھیک کروائیں مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ بنگالیوں کی اس عادت کے حوالے سے ایک لطیفہ مشہور تھا کہ اس دور کے معروف ادیب اور کالم نگار مجید لاہوری اور معروف مزاحیہ شاعر ظریف جبل پوری مشرقی پاکستان گئے تو ڈھاکہ میں ہوٹل کے کائونٹر پر مجید لاہوری سے جب نام پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’مجید لاہوری‘‘ مگر بنگالی منیجر نے لکھا ’’مزید لاہوری‘‘۔پتہ اس لیے چل گیا کہ موصوف لکھتے ہوئے ساتھ نام بول بھی رہے تھے۔ جب ظریف جبل پوری سے نام پوچھا گیا تو وہ بولے ’’جریف زبل پوری‘‘۔ یہ سن کر بنگالی منیجر نے لکھا ’’ظریف جبل پوری‘‘۔ اس کے بعد مجید لاہوری اور ظریف جبل پوری ہنسنے لگے اور منیجر حیران تھا کہ کس بات پر ہنس رہے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی اے ٹی ایم حیدر کی باتوں پر ہنستے رہتے تھے۔ ہمارے گھر بھی وہ آتا تھا۔ ہرایک سے بڑی محبت سے ملتا۔ بڑوں کی عزت کرتا۔ بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ اس کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا۔ جب 1965ء کی جنگ ختم ہوئی تو ہم لوگ گریجویشن کرچکے تھے۔ اس دور میں شارٹ سروس کمشن کے ایک اشتہار کے جواب میں حیدر ریکروٹنگ آفس گیا اور اس طرح وہ آرمی کی ٹیپو کمپنی میں کاکول میں ٹریننگ لینے لگا۔ میرے کئی اور دوست بھی ان دنوں آرمی میں بھرتی ہوئے ان میں ایک کا نام وحید تھا شاید۔ اس کا ذکر اس لیے کہ وہ کاکول اکیڈمی میں حیدر سے تھوڑا سا سینئر تھا ۔ حیدر جب چھٹیوں میں لاہور آیا تو اس وقت قدرتاً وحید بھی ہم دوستوں کو ملنے آیا ہوا تھا۔ وحید نے ہمارے سامنے حیدر کی وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کاکول اکیڈمی میں اگر کوئی سینئر ہوتو جونیئر ایک طرح سے اس کا تابعدار ہی ہوتا ہے۔ خیر ہم دوستوں نے وحید کی بہت بے عزتی کی اور وہ ناراض ہوکر چلا گیا۔ اس کے بعد حیدر پریشان۔ اس کا کہنا تھاکہ وہ اپنے سینئر کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ خیر اسی ڈسپلن میں اے ٹی ایم حیدر سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوا، پھر لیفٹیننٹ اور پھر کیپٹن ۔ اس کے بعد میرا اس کے ساتھ رابطہ خط وکتابت سے رہا کیونکہ اس کی پوسٹنگ مشرقی پاکستان ہوگئی تھی۔ وہاں جب 1971ء کی جنگ ہوئی تو اے ٹی ایم حیدر میجر ہوچکا تھا۔ مارچ 1971ء میں یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آرمی ایکشن شروع کیا تھا۔ اس کے بعد میرا اے ٹی ایم حیدر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ دسمبر 1971ء میں جب جنگ زوروں پر تھی تو میں لاہور ریڈیو پر پروڈیوسر تھا۔ میری ڈیوٹی ان دنوں دومرتبہ جنگی محاذوں پر بھی رہی۔ ایک سلیمانکی سیکٹر میں جہاں بریگیڈیئر امیر حمزہ سیکٹر کمانڈر تھے۔ وہاں سٹاف آفیسر کیپٹن الطاف ہمارے میڈیا گروپ کے ساتھ ڈیوٹی پر تھے۔ جس رات میں وہاں پہنچا اسی رات وہاں میجر شبیر شریف کی شہادت ہوئی تھی۔ کیپٹن الطاف ہم سب کو وہاں لے گئے جہاں میجر شبیر شریف شہید کا جسد خاکی رکھا تھا۔ ہمیں انہوں نے وہیں بتادیا تھا کہ سیکٹر کمانڈر میجر شبیر شریف کے لیے نشانِ حیدر کے اعزاز کی سفارش کررہے ہیں۔ دوسری مرتبہ میں غیرملکی صحافیوں کے ہمراہ برکی سیکٹر میں گیا تھا۔ وہاں پر ایک غیرملکی اخباری نمائندہ مجھ سے باتیں کرتا رہا اور آخر میں کہنے لگا کہ میری بات کا برا نہ ماننا۔ پاکستان یہ جنگ ہارچکا ہے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے کہا کہ تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟ اس نے ایک ٹیلیکس رپورٹ مجھے دکھائی۔ اس کا متن یہ تھا کہ مشرقی پاکستان میں فوج کی نقل وحرکت ممکن نہیں رہی ہے اور مکتی باہنی نے وہاں تمام اہم پل ڈائنامائیٹ سے اڑا دیئے ہیں۔ بی بی سی کے نامہ نگار کی اس رپورٹ کے آخر میں لکھا تھا کہ پلوں کو ڈائنامائیٹ سے اڑانے کے اس آپریشن کی کامیابی مکتی باہنی کے میجر اے ٹی ایم حیدر کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد سے اے ٹی ایم حیدر کا میں نے کسی حوالے سے کوئی ذکر نہیں سنا۔ میرے دل میں وہ البتہ آج تک ایک سوال بن کر موجود ہے۔ میرا اسی نسل سے تعلق ہے جو مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعددائمی طورپر اداس ہوگئی تھی۔ میں سوچتا ہوں کہ جب ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو برداشت کرلیا تو ہم کچھ بھی برداشت کرسکتے ہیں۔ لیکن شاید ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ 1971ء میں تو ہم آدھے رہ گئے تھے لیکن اب اگر ہمارے حکمرانوں نے دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو پھر بات زبان پر لانے والی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں