ملک کے نامور صحافی نثار عثمانی سے کسی اخبار نویس نے یہ دریافت کیا کہ سیاستدان جب حکومت میں آتے ہیں تو ان کو کیا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ ساری قوم کو صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے حکمرانوں کو نظر نہیں آتا۔ نثار عثمانی صاحب بولے: دیکھو بھائی! ایک بیماری ہوتی ہے Night Blindness۔ جس شخص کو یہ بیماری ہو اسے رات کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایک اور بیماری ہوتی ہے Colour Blindness۔ اس بیماری کے شکار شخص کو بعض رنگ دکھائی نہیں دیتے۔ اسی طرح ایک بیماری ہوتی ہے Power Blindness یہ صاحبِ اقتدار لوگوں کو لاحق ہوتی ہے۔ جب یہ لوگ جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں تو ان کو سب کچھ صاف صاف دکھائی دیتا ہے لیکن جونہی حکومت ملتی ہے آہستہ آہستہ پاور بلائنڈنیس شروع ہو جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد وہی ہوتا ہے جس کا آپ نے اپنے سوال میں ذکر کیا ہے۔ یعنی جو کچھ سب کو صاف دکھائی دے رہا ہوتا ہے حکمرانوں کو نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔ پاور بلائنڈنیس کی بیماری ہمیں پچھلی حکومت میں واضح نظر آئی۔ صدر آصف علی زرداری بھی لگتا ہے کہ اسکے زیر اثر رہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ان کی جماعت کے انتہائی مخلص کارکنوں اور رہنمائوں سمیت پوری قوم کے میڈیا نے کرپشن کی مسلسل نشاندہی کی مگر کسی کو کچھ دکھائی نہ دیا۔ حتیٰ کہ انتخابات سے پہلے تک جس جوش و خروش سے میڈیا میں پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابی مہم چلائی اس سے بھی معلوم ہوتا تھا کہ اس جماعت کے کرتا دھرتا خواتین و حضرات کو ان مشکلات کا ہرگز کوئی اندازہ نہیں قوم جن سے دوچار ہے۔ اب جبکہ پیپلز پارٹی انتخابات میں اپنی توقع کے مطابق نتائج حاصل نہیں کر سکی۔ آہستہ آہستہ اس جماعت کے فیصلہ سازوں کو وہ کچھ دکھائی دینے لگا ہے جو عام پبلک پر ہمیشہ عیاں رہا ہے۔ جتنی پاور ہاتھ سے نکل گئی ہے اتنی بلائنڈنیس بھی ختم ہو گئی ہے۔ پاور بلائنڈنیس کتنی جلدی لاحق ہوتی ہے‘ یہ دیکھنے کے لیے جو نئی حکومت قائم ہوئی ہے اس کے برسراقتدار لوگوں کا طرزِ عمل دیکھ لیں۔ انتخابات میں تو عوام کو امیدیں دلائی گئیں لیکن اقتدار کی انتہائی کم مدت میں عام لوگوں پر ایسے ایسے بوجھ ڈال دیے گئے ہیں جو عوام محسوس بھی کر رہے ہیں‘ ان کو دکھائی بھی دے رہے ہیں مگر حکمران اطمینان سے ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں‘ لوگوں کو کسی پہلو بھی ریلیف نہیں دیا جا رہا اور ا یسا معلوم ہوتا ہے حکمران ابھی سے پاور بلائنڈنیس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس وقت لوگ خاموش ہیں اور سب کچھ اس لیے برداشت کر رہے ہیں کہ ان کو لوڈشیڈنگ میں کمی کی امید ہے۔ یہ امید کسی حد تک پوری ہو پائے گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ سب کچھ کرنے کے بعد بھی اتنی لوڈشیڈنگ بہرحال موجود رہے گی جس سے نہ صنعتکار مطمئن ہوں گے اور نہ عام لوگ۔ جس وقت لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے حوالے سے عوامی امیدیں دم توڑنے لگیں گی تو اس وقت تک حکومت نے جو آتے ہی ’’معاشی اصلاحات‘‘ کی ہیں اُن کا ثمر بھی مہنگائی میں اضافے کی شکل میں سامنے آ چکا ہوگا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پوری قوم کو نظر آرہی ہیں مگر اس امر کے شواہد موجود نہیں کہ حکمرانوں کو بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ان کی طرف سے لوگوں کو ریلیف دینے کے بجائے قوم کو قربانیوں کے لیے آمادہ کرنے کے بیانات جاری ہوتے ہیں۔ اب بجلی کی قیمت میں اضافے کی بات ہورہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بجلی پیدا ہوتی ہے اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔جس نرخ پر بجلی صارفین کو دی جاتی ہے وہ پیداواری قیمت سے آدھے سے بھی کم ہے۔لہٰذا حکومت کو اس کام میں اربوں بلکہ سینکڑوں اربوں کا سالانہ خسارہ ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت پاکستان میں بجلی کا بل اکثر گھروں کے دیگر اخراجات کے تقریباً برابر ہی ہوتا ہے۔کسی طور بھی بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنا عام لوگوں میں حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے سوا اور کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ یہ بات اس وقت سب پر عیاں ہے سوائے ہمارے حکمرانوں کے جو آہستہ آہستہ بجلی کے نرخ بڑھا کر یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ اس کو برداشت کرلیں گے حالانکہ یہ کسے معلوم نہیں کہ خنجر آہستہ آہستہ گھونپا جائے یا یکدم اس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ ایک اور بات جس سے حکمران اکثر غافل رہتے ہیں وہ یہ ہے کہ عوام کو حکومت کی ’’ عظیم الشان ‘‘ اور ’’ طویل المیعاد حکمت عملی ‘‘ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں کوئی آرام کے پہلو پیدا ہوئے ہیں کہ نہیں۔مگر آفرین ہے ہمارے حکمرانوں کے کہ وہ عوام کو یہ بتاتے ہوئے تھکتے نہیں کہ ہم نے انرجی پالیسی بنالی ہے ، تعلیمی پالیسی بنالی ہے ، صحت کی پالیسی بنالی ہے۔پھر ان پالیسیوں کی تفصیلات میڈیا پربیان کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کو انہوں نے مطمئن کردیا ہے۔ میرے ایک پرانے دوست کا گارڈن ٹائون کے علاقے میں پانچ مرلے کا مکان ہے۔وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ یہ جو پانچ مرلہ مکانوں پر پھر سے ٹیکس لگایا جارہا ہے اس سے کتنی آمدن ہوجائے گی۔میں نے لاعلمی کااظہار کیا تو بولے چند کروڑ روپوں سے زیادہ تو کسی طور نہیں ہوسکتی۔لیکن ہمارے ملک کو تو سینکڑوں ارب روپے چاہئیں۔اس ٹیکس سے سینکڑوں ارب روپے تو نہیں مل سکتے البتہ بددعائیں بہت مل سکتی ہیں اور یہ آمدن اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوگی۔ میں نے عرض کیا ، حکومت کے عہدیدارکہتے ہیں کہ اسی طرح قطرہ قطرہ کرکے دریا بنتا ہے تو ہنسنے لگے۔بولے دیکھنا یہ قطرے کیا رنگ دکھاتے ہیں۔یہ قطرے لوگوں کو بدمزہ کررہے ہیں اور ان سے بدمزگی کا دریا ہی بن سکتا ہے۔ موصوف چونکہ معاشیات میں ایم اے ہیں لہٰذا ٹیکس کی اہمیت سے تو انکار نہیں کرسکے مگر اس بات پر مُصر رہے کہ ٹیکس ترجیحی طور پر آمدن پر ہونا چاہیے اور غربت زدہ معاشروں میں حکومتوں کو اس وقت لوگوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا چاہیے جب اس کے نتیجے میں بڑے مسائل حل ہوتے دکھائی دیں’’ پانچ مرلہ مکانوں پر ٹیکس سے بظاہر مجھے تو کوئی چھوٹا مسئلہ حل ہوتا بھی دکھائی نہیں دیتا۔مسائل البتہ پیدا ہورہے ہیں۔جو بظاہر حکومت کو دکھائی نہیں دے رہے۔ ‘‘ بات وہیں ختم ہوئی یعنی ’’ دکھائی نہیں دے رہے ‘‘ وہی پاور بلائنڈنیس ۔