قدرت کا انسانوں کی تعلیم و تربیت کا نظام منفرد ہے۔ درسگاہوں میں داخلے کے بجائے جس شخص کو تربیت دینی ہو اس کو کچھ ایسے حالات سے دوچار کر دیا جاتا ہے کہ وہ حالات ہی اس کی درسگاہ بن جاتے ہیں۔ ہمارے مذہب میں اس کی سب سے واضح مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے جس میں پروردگار نے عزیز مصر کے عہدے تک پہنچانے سے پہلے مختلف حالات سے گزار کر اپنے نبی کو کندن بنا دیا تھا۔ میرا دھیان قدرت کے اس تدریسی نظام کی طرف اس وجہ سے گیا کہ ہمارے ہاں بعض مبصرین بڑے بڑے لیڈروں کے ماضی کرید کر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ بڑی مثال ہمارے اپنے قائداعظم کی ہے۔ عرصہ دراز تک ان کی انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ انتہائی مخلصانہ وابستگی رہی۔ اس جماعت میں رہ کر محمدعلی جناح نے جو کچھ دیکھا، جو کچھ محسوس کیا اور پھر ساتھ ہی جس قدر بطور ایک ایک لیڈر کے شہرت پائی وہ میری نظر میں قدرت کی طرف سے اس بے مثال شخصیت کی تربیت کا عمل تھا۔ اس کو کسی طور پر بھی منفی رنگ میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ آپ سوچیے کہ اگر محمدعلی جناح انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت کی بجائے ابتدا ہی سے وہ سیاست کرتے جو انہوں نے عمر کے آخری حصے میں برصغیر کے مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر کی تو صورتحال کیا ہوتی ۔ پہلی بات تو یہ ہوتی کہ ان کے لیے اپنے آپ کو ایک قومی لیڈر منوانا محال ہوجاتا۔ دوسری بات یہ ہوتی کہ ان پر انڈین نیشنل کانگریس کا ہندوئوں کے برصغیر پر غلبے کا جو خفیہ ایجنڈا تھا وہ پوری طرح واضح نہ ہوتا۔ اسی طرح آپ سوچتے جائیے اور گنتے جائیے کہ کن کن پہلوئوں سے قائداعظم نے وہ کچھ سیکھا جس کی مدد سے وہ برصغیر کی سیاست میں مسلمانوں کے لیے ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے قابل ہوئے۔ اسی طرح علامہ اقبال کی قدرت نے تدریس کا جو طریقہ اختیار کیا وہ بھی ملتا جلتا ہے۔ ان کی ابتدائی زندگی میں وطن پرستی کے واضح شواہد ملتے ہیں۔ ان کی شاعری اور خاص طور پر یہ ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے اور آج بھی جب بھارت والے علامہ اقبال کی تعریف کرتے ہیں تو وطن پرستی کے ایسے گیتوں کی وجہ سے کرتے ہیں۔ پھر ان کی سوانح عمری پر نظر ڈالیں تو مولانا جلال الدین رومیؒ سے متاثر ہونے سے پہلے ان کے خیالات اور ان کی شاعری کو تصوف سے دور سمجھ کر تنقید بھی ہوتی رہی۔ اسی طرح بہت طویل سفر کے بعد آپ کو 1930ء کا خطبہ الٰہ آباد ملے گا۔ جو نقطہ نظر اس خطبے میں علامہ اقبال نے پیش کیا اس پر وہ پھر مرتے دم تک قائم رہے اور قوم کے لیے بھی ان کی سیاسی سطح پر رہنمائی ان کی اسی فکر میں پنہاں ہے۔ میری نظر میں قدرت نے علامہ اقبال کو اس فکر تک پہنچنے کے لیے ہی ان تمام حالات اور ذہنی سوچ کے مراحل سے گزارا تھا۔ علامہ اقبال کے حوالے سے بھی آپ اس پہلو پر غور کریں کہ اگر وہ بالکل شروع ہی میں دو قومی نظریے اور مسلمانوں کے الگ تشخص اور موجودہ پاکستان کے بھارت کے مسلمانوں کی تقدیر ہونے کا تصور لیے ہوتے اور ان کی شاعری اور سوچ میں تدریجی ارتقا نہ ہوتا تو وہ شخصیت تو اتنی بڑی ہی ہوتے مگر پورے برصغیر میں ان کی وہ شہرت اور پذیرائی نہ ہوتی جس کی اس لیے ضرورت تھی کہ ان کی باتوں کو انگریز اور ہندو قائدین غور سے سنیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ برصغیر میں ہمارے جتنے بھی بڑے قائدین گزرے ہیں وہ پہلے ہندو مسلم اتحاد کے قائل رہے اور بعد میں قدرت کے اس تدریسی عمل سے گزر کر ہندوئوں کے تعصب سے آگاہ ہوئے اور مسلمانوں کے الگ تشخص کی بات کی۔ یہ تمام لیڈر جن میں سرسید احمد خان، قائداعظم اور علامہ اقبال شامل ہیں، مسلمانوں کے کامیاب ترین لیڈر شمار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے ایک لیڈر گزرے ہیں علامہ عنایت اللہ مشرقی۔ا ہم سیاسی رہنمائوں میں غالباً یہ واحد بڑے رہنما تھے جو اول دن سے ہندوئوں کو متعصب قرار دے کر مسلمانوں کے الگ تشخص کی بات کرتے تھے۔ میری رائے میں موصوف کا نقطہ نظر چونکہ محض علم کی بنیاد پر تھا اور ان کو ہندوئوں کی عصبیت کا وہ تجربہ نہیں تھا جو قائداعظم اور علامہ اقبال کو اس منزل تک پہنچنے کے راستے سے ہوا تھا، اس لیے علامہ مشرقی انتہائی درست موقف رکھنے کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کے ویسے رہنما نہ بن سکے جیسے اقبال اور قائداعظم بنے۔ گویا قدرت نے علامہ مشرقی کو علم تو دے دیا مگر ان کی تربیت کا اسی طرح اہتمام نہ ہوا۔ پاکستان کے بعد کی تاریخ میں ہمیں یہی صورتحال ملتی ہے۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے پرانے سیاسی حریف بھی ایک بڑا لیڈر مانتے ہیں لیکن ان کے بارے میں مخالفین کا یہ طعنہ بھی رہا ہے کہ سکندر مرزا اور ایوب خان کے وزیر رہے اور ایوب خان کو ڈیڈی کہہ کر پکارتے رہے۔ میری نظر میں بھٹو صاحب اگر ان مراحل سے نہ گزرتے اور قدرت ان کی اس طور سے تربیت نہ کرتی تو وہ جس ذہانت سے عالمی سیاست کو سمجھے تھے اس میں کمی رہ جاتی ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ قومی لیڈر بننے سے پہلے وہ پورے پاکستان میں مشہور و معروف سیاسی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 1965ء کی جنگ کے دوران انہوں نے بطور وزیرخارجہ اقوام متحدہ میں جو تقریر کی تھی وہ تو پاکستان بھر کے پڑھے لکھے لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں اور طالب علموں کے دلوں میں گھر کر چکی تھی۔ بھٹو صاحب اگر براہ راست سیاست میں آتے اور ان کو یہ پس منظر نہ ملتا جس میں قدرت ان کی مکمل تربیت کر چکی تھی تو ان کا اتنا بڑا لیڈر بننا محال ہوجاتا۔ قابلیت ان کی وہی ہونا تھی مگر پذیرائی ایسی نہ ملتی۔ اس کے بعد اس پذیرائی کو سیاسی کامیابی بنانا بھی ان کی اسی تربیت کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ اسی طرح ہمارے وزیراعظم نوازشریف کی بھی عرصہ دراز تک فوجی حکمرانوں کے زیرسایہ تربیت ہوئی لیکن 1993ء میں وہ بھی تربیت مکمل کرکے گریجوایٹ ہوگئے تھے۔ عمران خان کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہہ نہیں سکتا۔ آیا وہ ابھی قدرت کے تدریسی نظام سے گزر رہے ہیں یا گریجوایٹ ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے مستقبل قریب میں قدرت ہی اس ضمن میں کوئی رہنمائی فرما دے۔