"ARC" (space) message & send to 7575

لمحۂ فکریہ

دنیا بھر میں حکومتوں کی پالیسیاں اس قدر واضح ہوتی ہیں کہ عوام کی سمجھ میںآجاتی ہیں تبھی تو کچھ لوگ ان پالیسیوں کے حامی ہوتے ہیں اور کچھ لوگ مخالف۔ ہمارے ہاں صورتحال ذرا مختلف ہے۔ ہمارے عوام کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ کسی خاص معاملے پر حکومت وقت کی حکمت عملی کیا ہے۔ جب معلوم ہی نہیں ہو پاتا تو پھر کسی پالیسی کی حمایت یا مخالفت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر کوئی ایک کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ اپنے موجودہ ملکی حالات کا جائزہ لے کر سچے دل سے پوچھیے کیا ہمیں معلوم ہے کہ ہم کس سمت میں جارہے ہیں؟قوموں کے لیے سب سے اہم بات وہ نظریہ ہوتا ہے جس پر تمام قوم متفق ہوتی ہے۔ حکومت تو یہ کہہ کر فارغ ہوجاتی ہے کہ ہمارا نظریہ اسلام ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ اسلام کے نظریے پر کس شکل میں عمل کیا جائے گا۔ علامہ اقبالؒ کو مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ انہوں نے جدید دورمیں اسلامی اصولوں پر عملدرآمد کے ضمن میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ ہماری حکومت اس سے دور دور ہی رہتی ہے۔ اس ضمن میں بس آئین پاکستان پر گزارا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی قانون ایسا نہیں بنے گا جو خلاف اسلام ہو۔ عملاً یہ ہورہا ہے کہ سودی نظام بھی چل رہا ہے۔ انگریزوں کے دور کے قوانین تقریباً ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ اسلامی قوانین کے نام پر جو قانون سازی کی گئی ہے اس کے غلط استعمال سے کون واقف نہیں۔ منافقت کا یہ عالم ہے کہ جب مجبوراً دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنا مقصود تھا تو اسلامی قانون کا سہارا لیا گیا۔ علامہ اقبال نے جس اجتہاد کا راستہ دکھایا تھا اس پر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی؛ البتہ جب سے القاعدہ اور طالبان وارد ہوئے ہیں صورتحال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ یہ لوگ اسلام کا جو ماڈل پیش کررہے ہیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نظریاتی طور پر ہمارے حکمرانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ ہمارے عوام میں کافی لوگ ایسے ہیں جو القاعدہ اور طالبان کے حامی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کسی کے بھی حامی نہیں ہیں۔ اب تک ہماری کوئی بھی حکومت کوئی واضح قومی نظریہ پیش نہیں کرسکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری پوری قوم کنفیوژن کا شکار ہوگئی ہے اور اسی کیفیت میں وہ کبھی القاعدہ اور طالبان کی طرف جھک جاتی ہے اور کبھی ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے خلاف فوجی کارروائی پر زور دینے لگتی ہے۔ طالبان کے حق میں اور ان کی مخالفت میں یہ جو دو آوازیں ہمارے ملک میں اٹھتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے ہاں کچھ لوگ طالبان کے حامی ہیں اور کچھ لوگ مخالف ہیں؛ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ آج کے حامی کل مخالف‘ اور کل کے مخالف آج کے حامی بنتے رہتے ہیں۔ یہ ہے عوام کا حال۔ جنہیںہم سیکولر کہتے ہیں۔ وہ نعرہ مارتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور فوج ایک صفحے پر آجائیں اور طالبان کا صفایا کردیں۔ دوسری طرف جو مدرسہ پارٹی ہے وہ اس کے برعکس طالبان کے ساتھ مل کر نفاذ اسلام کی داعی ہے۔ حالانکہ یہ دونوں ہی گروپ بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ان کے نعرے قابل عمل نہیں ہیں۔ حکومت نے معیشت کو اپنی ترجیح بنایا ہوا ہے اور انرجی کے بحران قابو پانے کے لیے کوشاں ہے۔ اپنی جگہ یہ باتیں بہت اہم ہیں لیکن قوم کو نظریاتی کنفیوژن سے نجات دلانا کس کی ذمہ داری ہے؟ طالبان کے اس طرح کھل کر سامنے آجانے کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا کہ آپ نظریاتی کنفیوژن دور کیے بغیر حکومت کرتے چلے جائیں۔ جب تک ہمارے لوگ اس کنفیوژن کا شکار رہیں گے جس کو ہم دہشت گردی کہتے ہیں وہ ختم نہیں ہوگی اور اگر یہ ختم نہیں ہوگی تو معیشت بھی درست نہیں ہوگی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم اس صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جیسی اس وقت مصر میں موجود ہے یعنی قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ایک حصہ مغربی ثقافت کا حامی سیکولر خیالات رکھتا ہے اور دوسرا حصہ اسلامی بنیاد پرستوں پر مشتمل ہے۔ میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں۔ ہمارے ہاں مذہبی بنیاد پرستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ سیدھی سادی اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے حق میں اکثریت ہے جو تھوڑے بہت گناہ کرکے اللہ سے معافی مانگ لیتی ہے اور کبیرہ گناہ کرنے والوں سے نفرت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں نہ کبھی کوئی جماعت مذہب کے نام پر الیکشن جیتی ہے اور نہ مذہب کی مخالفت کرکے الیکشن جیتی ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی اگر سوشلزم کو اپنی معیشت قرار دیا تھا تو اس کے ساتھ ہی اعلان کیا تھا کہ اسلام ہمارا دین ہے۔ اس وقت پاکستان میں بدامنی کی بنیادی وجہ بھی یہی کنفیوژن ہے۔ ہمارے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ ہماری ریاست کس نظریے پر کاربند ہے۔ لہٰذا اگر وہ حمایت کریں تو کس بات کی کریں اور اگر مخالفت کریں تو کس کی۔ لہٰذا چھوٹے چھوٹے گروپوں میں بٹ کر لڑتے رہتے ہیں۔ اب امریکہ کو دیکھیں ان کا آئین Life,Liberty & the Pursuit of Happiness سب امریکیوں کے لیے مساوی حقوق کا نظریہ پیش کرتا ہے جس سے پوری قوم متفق ہے اور اس کے اندر رہتے ہوئے ری پبلکن پارٹی اور ڈیمو کریٹک پارٹی اپنی اپنی سیاست کرتی رہتی ہیں۔ ہمارے آئین میں ویسے تو بہت کچھ لکھا ہے مگر اتفاق رائے نام کو نہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور میں جو آئینی ترمیمیں ہوئیں ان میں بھی نظریاتی پہلو کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ ہماری نئی حکومت کا ابھی تو ہنی مون کا زمانہ چل رہا ہے مگر حالات بتا رہے کہ ان کو جلد احساس ہوجائیگا کہ جب تک علامہ اقبال کے فکر کی روشنی میں جدید دور کے حساب سے اسلام کے بنیادی اصولوں کی تشریح کا اجتہادی عمل شروع نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک ہماری قوم کنفیوژن کا شکار رہے گی جس کا براہ راست فائدہ طالبان کو پہنچتا رہے گا۔جہاں تک طالبان سے مذاکرات کی بات ہے تو فرض کریں کہ یہ مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں۔ طالبان تو واضح طور پر اپنی سوچ بیان کر دیں گے لیکن ہماری طرف سے اس سوچ کے مقابلے میں کیا پیش کیا جائیگا۔ کنفیوژن؟ لہٰذا یہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ بحیثیت قوم ہم چاہتے کیا ہیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری قوم کا جو اعتدال پسند رجحان ہے اس کو ہم ایک نظریے کی شکل دیں۔ تھوڑی بہت مخالفت بھی ہوگی مگر مجھے یقین ہے کہ بھاری اکثریت اعتدال پسندی کی طرف ہی جھکے گی۔ ایسا کرنے کے بعد ہم طالبان کی انتہا پسندانہ سوچ کو شکست دے پائیں گے۔ ارباب بست و کشاد جان لیں کہ یہ لمحۂ فکریہ ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں