انسانی نفسیات ہے کہ جو حالات وواقعات گزرچکے ہوں اور ماضی بعید کا حصہ بن گئے ہوں ان کے بارے میں ذہن میں جو تصور ہوتا ہے وہ حقیقت سے کافی مختلف ہوجاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انسانی ذہن کیمرے کی مانند کام نہیں کرتا کہ جو تصویر جیسے لی گئی ویسی ہی محفوظ ہوگئی۔ اس میں تصویر بدلتی رہتی ہے۔ بچپن میں اگر آپ نے کوئی مقام دیکھا ہوتو برسوں بعد اس مقام کا آپ کے ذہن میں جوتصور ہوگا، اس کی حقیقت آپ کے دوبارہ اس مقام پر جانے سے کھل جائے گی اور آپ کی حیرت ہوگی کہ اپنے پرائمری سکول کا مرکزی ہال جوآپ کے ذہن میں ایک وسیع وعریض ہال کے طورپر موجود تھا۔ اصل میں ایک چھوٹا سا ہال تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معلوم نہیں کیسے آپ کے ذہن میں اتنا وسیع ہوگیا تھا۔ اس بات کا تجربہ آپ کو پورے شہر کے بارے میں بھی ہوسکتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ہزاروں لاکھوں لوگ گھربار چھوڑ کر پاکستان آئے۔ برسوں ان کا آبائی وطن ان کے تخیل میں رہا اور اس دوران میں تصوراتی دنیا میں وہ کچھ کا کچھ ہوگیا۔ جن لوگوں کو بعدازاں بھارت جاکر اپنا آبائی علاقہ دیکھنے کا موقعہ ملا ان میں سے ہرکوئی آپ کو یہی بتائے گا کہ جب وہ بھارت میں اپنے آبائی وطن پہنچا تو حقیقت ان کے تصور سے بہت مختلف تھی۔ یہ تو میں نے ایسی مثالیں دی ہیں جن میں ممکن ہوا کہ آپ واپس اس مقام پر جاسکے جس کو برسوں پہلے آپ نے خیرباد کہہ دیا تھا لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ آپ کے شعور میں ماضی کا گزرا زمانہ ہو اور وہ حسین ماضی بن چکا ہو تو چونکہ وقت کو پیچھے کی طرف موڑا نہیں جاسکتا لہٰذا اس حسین ماضی کی حقیقت کھل نہیں سکتی۔ اس تمہید کے بعد آپ اس بات پر غور کریں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں 1999ء کے حالات وواقعات کو اپنا حسین ماضی سمجھ کر اس میں پھنسی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ کسی ٹائم مشین کے ذریعے اگر ان کا 1999ء کا دور واپس لادیا جائے تو ممکن ہے انہوں نے اس دور کے بارے میں جو تصور قائم کررکھا ہے اس کی حقیقت کھل جائے لیکن چونکہ ایسا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہمارے وزیراعظم کا یہ اصرار کہ بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا سلسلہ وہیں سے شروع کریں گے جہاں 1999ء میں منقطع ہوا تھا، اس وقت ہماری پالیسی بنا ہوا ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاں ایسے لوگ کافی تعداد میں ہیں جو 1999ء میں بھی بھارت کی دوستی کی نیت کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے لیکن شک کرنا چونکہ ایک منفی رجحان ہوتا ہے لہٰذا مان لیتے ہیں کہ 1999ء میں بھارت اور پاکستان واقعی باہمی جھگڑے ختم کرنے والے تھے کہ جنرل مشرف نے گڑبڑ کردی۔ پہلے کارگل کیا اور پھر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اب چودہ برس بعد سوچنے کی بات ہے کہ کیا بھارت وہی بھارت ہے جو 1999ء میں تھا اور کیا پاکستان وہی پاکستان ہے جو نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں تھا۔ بھارت نے چودہ برسوں میں کافی ترقی کرلی ہے جبکہ ہم ان چودہ برسوں میں بظاہر تنزلی کی طرف ہی مائل رہے ہیں۔ 1999ء میں بھارت کی نسبت ہماری معاشی صورت حال قدرے بہتر تھی جبکہ اب بھارت معاشی طورپر ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے بارے میں بھارت کی طرف سے شروع ہی سے چھچھورپن کا مظاہرہ ہوتا رہا ہے مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ سے بھارت کا جوخصوصی تعلق قائم ہوا ہے اس نے پاکستانیوں کے لیے بھارتی چھچھورپن اور بھی واضح کردیا ہے اور معاشی طورپر تھوڑی تیز ترقی کرنے کے عمل نے بھارت کے احساس برتری کو محض تقویت ہی دی ہے۔ بین الاقوامی منظر پر آج کل بھارت نے جو طرزعمل اختیار کر رکھا ہے‘ وہ واضح طورپر اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت اپنے آپ کو جنوبی ایشیا کا تھانیدار بننے کے بہت قریب سمجھتا ہے۔ ان حالات میں اگر ہماری حکومت یہ سوچے کہ بھارت کی سیاسی سوچ بھی وہیں اٹکی ہوئی ہوگی جہاں 1999ء میں تھی تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ چودہ برس قبل اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف نے لاہور میں جو معاہدہ کیا تھا اس کے تسلسل میں اب آگے کچھ نہیں ہوسکتا کیونکہ دونوں طرف صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ موجودہ حالات کے مطابق چلنا ہوگا اور ماضی کی ان حسین یادوں کو فراموش کرنا ہوگا جو محض اس وجہ سے حسین معلوم ہوتی ہیں کہ پھر سے اس دور میں پہنچا نہیں جاسکتا۔ ہمارا بڑا مسئلہ اس وقت ہماری مغربی سرحد ہے۔ کوئی نہیں کہتا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کی جائے یا کشیدہ تعلقات رکھے جائیں۔ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ وقت بھارت کے ساتھ دوستی کی کوشش کا نہیں ہے۔ بھارت کے ساتھ دوستی کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات۔ ان دونوں کا نتیجہ صفر ہی نکلے گا۔ جب تک ہم معاشی طورپر مضبوط نہیں ہوجاتے اس وقت تک ہمیں بھارت کے ساتھ نہ دوستی اور نہ دشمنی کی پالیسی رکھنا ہو گی۔ بھارت چونکہ اپنے آپ کو چین کے مقابلے کی معاشی طاقت بنانا چاہتا ہے لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ’’نہ دوستی نہ دشمنی‘‘ کی پالیسی کو اپنے لیے قابل قبول بنالے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان حل طلب مسائل منجمد رہیں گے اور اس دوران میں دونوں ملک تھوڑی بہت تجارت بھی کرتے رہیں گے۔ یہ ضرور ہے کہ بھارت ہماری مغربی سرحد پر افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے تنگ کرتا رہے گا لیکن یہ اس وقت تک ہی ہوگا جب تک ہم بحیثیت قوم طالبان کے خلاف کسی فیصلہ کن اقدام کی سبیل پیدا نہیں کرتے۔ ابھی تو ہمارے ہاں طالبان سے نبرد آزما ہونے کے حوالے سے مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر اسی طرح رہنے والی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس مسئلے پر قومی سطح پر متحد ہونے کے سوا اور کوئی آپشن ہی نہیں ہے۔ آج یا کل ہمیں متحد ہوکر اپنا ملک بچانا ہے۔ یہی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ بھارت کو ہم بعد میں دیکھ لیں گے۔ اس وقت احساس برتری کے مارے ہوئے اس ملک کو فاصلے پر رکھنا ہی بہتر ہوگا۔