ہمارے ہاں آج کل طالبان کے ساتھ مذاکرات کا موضوع ایک انتہائی اہم موضوع اس وجہ سے بنا ہوا ہے کہ حکومت نے بظاہر کسی نہ کسی طور طالبان سے بات چیت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ پاکستان میں کچھ حلقے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے تھے لیکن اب حکومت کے طرزِ عمل کی وجہ سے ان ممکنہ مذاکرات کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے کیونکہ امکان غالب ہے کہ اس حوالے سے جس ڈانواڈول سی صورتحال میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس کا فیصلہ ہوجائے گا۔ مثبت نتیجہ نکلا تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے اور اگر مذاکراتی عمل ناکام ہوگیا تو پھر فوجی آپریشن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ کیا ہونے جارہا ہے، یہ تو اللہ کو معلوم ہے لیکن اگر ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامیوں اور ان مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں کے اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے مخالف حلقے، طالبان کو شخصی آزادیوں کا دشمن سمجھتے ہیں اور چونکہ ان حلقوں نے جو طرز ِحیات ایسا اپنایا ہوا ہے ، اگر طالبان کی اسلام کی قبائلی انداز کی تشریح کے شکنجے میں آگیا تو ان سب کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوگا۔ لہٰذا کسی طور بھی وہ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان حلقوں میں کثیر تعداد مغرب زدہ لوگوں کی ہے۔ آزاد قبائلی علاقے میں طالبان جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں وہ پاکستان کے شہری علاقوں کے جو طرزِ زندگی سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے دیہی علاقے بھی آہستہ آہستہ ہمارے رہنے سہنے کے شہری انداز کی طرف بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ فرق بہت ہے مگر ہماری دیہی آبادی کی خواہش یہی ہے کہ ان کا بودو باش بھی ہماری شہری آبادیوں کی طرح ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات سے مسلسل آبادی شہروں میں منتقل ہورہی ہے اور ماضی کی نسبت شہری آبادی میں کافی اضافہ ہوچکا ہے۔ اس پس منظر میں ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آزاد قبائلی علاقے کے علاوہ باقی پورے ملک کے عوام میں کہیں یہ خواہش موجود نہیں ہے کہ وہ ایسی زندگی گزارنے لگیں جیسی طالبان قبائلی علاقوں میں گزار رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ سوچیں گے کہ جو لوگ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کررہے ہیں کیا ان کو خوف نہیں آتا کہ طالبان، اسلام کے نام پر ایک گھٹن کی فضا قائم کر دیں گے جو ہر گز علامہ اقبال اور قائداعظم کے تصورِ حیات کے مطابق نہ ہو گی۔ علامہ اقبال نے واضح طور پر مذہبی فکر کی تشکیلِ نو کی بات کی ہے۔ وہ تشکیلِ نو یہی ہے کہ اسلامی اقدار کو اس انداز سے معاشرے پر نافذ کیا جائے کہ گھٹن کا احساس نہ ہو۔ میری رائے میں جو لوگ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کررہے ہیں وہ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ اسلامی اقدار ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ اس انداز سے نافذ ہوتی جائیں کہ نفاذ کے ساتھ ساتھ وہ جدید دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ بھی ہوتی جائیں۔ ان افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ بھی طالبان کی اسلام کی قبائلی انداز کی تشریح سے خوفزدہ تو رہتے ہیں مگر یہ بات کہتے نہیں۔ یہ لوگ بظاہر یہ خواہش رکھتے ہیں کہ اگر طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان میں سود ختم ہوجائے، فحاشی کو لگام دے دی جائے اور نظامِ عدل میں موثر تبدیلیاں آجائیں تو سودا بُرا نہیں ہے۔ یہ تمام باتیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوسکتی ہیں۔ حکومت کیا چاہتی ہے؟ بعض حلقے شک کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت، طالبان کو مذاکرات کا ایک موقع دے کر فوجی کارروائی کی طرف بڑھے گی۔ یہ تو شک کی بات ہوئی۔ لہٰذا حکومت کو چھوڑیں کیونکہ ہم بات کررہے ہیں ان لوگوں کی جو ان مذاکرات کے حق میں ہیں یا مخالف ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کے حامی لوگ باور کرتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت مغربی دنیا کے دبائو میں رہ کر ملک کے اندر ایسی اصلاحات سے گریزاں رہتی ہے جو اسلامی اقدار کے نفاذ کی خاطر ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ ان میں ایسا نظامِ عدل وضع کرنا شامل ہے جس میں قرآن اور سنت سے رہنمائی حاصل کرکے معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کر دی جائے۔ سعودی عرب میں کتنے چوروں کے ہاتھ کٹتے ہیں؟ تحقیق کرکے دیکھ لیں بالکل معمولی تعداد نکلے گی۔ چوری مگر اس ملک میں شاذو نادر ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں اب بلا سود معیشت کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ان اصلاحات میں سود سے چھٹکارا بھی شامل ہے۔ آزادیِ اظہار کے تو سب قدر دان ہیں مگر اس کی آڑ میں اعضاء کے اظہار کی کھلی چھٹی پر تو قدغن لگ سکتی ہے۔ جو افراد طالبان سے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ میری رائے میں دراصل وہ یہ چاہتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کی آڑ میں پاکستانی حکومت کو مغربی دنیا کے مذکورہ بالا اسلامی اصلاحات کے خلاف دبائو سے نکالا جائے۔ یہ حلقے باور کرتے ہیں کہ اگر یہ خود ان اسلامی اصلاحات کے لیے تحریک چلائیں تو اسے ملک میں کٹر مذہبی رجحان کی مالک اقلیت ہائی جیک کرلے گی اورتحریک کی قیادت ان ملُائوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے ع دینِ ملّا فی سبیل اللہ فساد 11مئی کے انتخابات کے نتائج پتہ دیتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف ووٹوں کی تعداد کے حساب سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں طالبان سے مذاکرات کی حامی ہیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی بھی ان کی ہمنوا بنی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام بھی مذاکرات کے حق میں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ان جماعتوں کے قائدین کے دل میں کیا ہے مگر میرے رائے میں ان جماعتوں کے حق میں ووٹ دینے والے بیشتر پاکستانی، اسلام کے نام پر گھٹن کے جس ماحول کی طالبان دعوت دے رہے ہیں اس کے خلاف ہیں مگر وہ دل سے یہ چاہتے ہیں کہ مغربی دنیا کی طرف سے جو دبائو ہمیں اپنے فیصلے خود کرنے سے روک رہا ہے وہ ختم ہونا چاہیے۔ یہ سب پاکستانی باور کرتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اگر پاکستان میں اسلامی اقدار کی روشنی میں ایسی اصلاحات ہوجاتی ہیں جو مغربی دنیا کے دبائو میں ہماری حکومت نہیں کر پا رہی تو اس سے ایک طرف تو ہم اس ملک کو اقبال اور قائداعظم کے تصور پاکستان کے قریب لے جانے میں کامیاب ہوں گے اور دوسری طرف ممکن ہے کہ طالبان کی تحریک ہی دم توڑ دے۔ اگر سود ختم ہو جائے ، نظامِ عدل، اسلامی اقدار کا آئینہ دار ہوجائے، عریانی اور فحاشی کے کلچر کو لگام دی جائے تو پھرآپ خود سوچ لیں کہ تحریکِ طالبان کا مستقبل کیا ہوگا۔ ایسی کافی لوگوں کی سوچ ہے تو جناب طالبان سے مذاکرات کے حامی لوگ تو یہ چاہتے ہیں اور مغربی دنیا کیا چاہتی ہے اور ہمارا پرانا دوست امریکہ کیا چاہتا ہے، یہ بھی آپ کو معلوم ہے اور امریکہ جو چاہتا ہے وہ کس شدت سے چاہتا ہے یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ لہٰذا یہ بتانا اب ضروری نہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں آج تک کوئی حکومت بھی مغربی دنیا اور امریکہ کے دبائو کے آگے کبھی ٹھہر نہیں سکی۔ لگتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی لوگوں کی طالبان سے مذاکرات کی آڑ میں ملک میں اسلامی اصلاحات کرنے کی خواہش محض خواہش ہی رہے گی۔