اگر کسی تحریر کا مصنف کوئی یورپی یا امریکی ہو تو ہمارے ہاں جو لوگ پڑھی لکھی کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں اُن کی اکثریت اس تحریر کو سنجیدگی سے پڑھتی ہے۔ ہمارے بعض ساتھی تو کسی مستشرق کی لکھی کتاب کو اُس موضوع پر حرف آخر سمجھتے ہیں جس پر وہ کتاب تحریر کی گئی ہو۔ سائنسی موضوعات پر تو مجھے مغربی دنیا میں تصنیف اور شائع ہونے والی کتابوں پر کبھی اعتراض نہیں ہوا کیونکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب نے جو کارنامے سرانجام دیے اور دے رہا ہے وہ سب پر عیاں ہیں ،لیکن مذہبی موضوعات پر مغربی مصنفین کی تحریروں کو وہ درجہ نہیں دیا جا سکتا جو سائنسی موضوعات پر انہیں حاصل ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے مذہبی موضوعات پر کسی کتاب کا مصنف اگر کوئی انگریز ہو تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس نے درست بات ہی لکھی ہوگی۔ اس کا تجربہ مجھے حال ہی میں ایک محفل میں ہوا جہاں میرے ایک انتہائی تعلیم یافتہ عزیز نے گفتگو کے دوران کسی انگریز مصنف کی کتاب کے حوالے سے اُن حالات پر تبصرہ شروع کردیا جو حضورﷺ کے وصال کے بعد خلیفہ اوّل کے انتخاب کے مراحل میں پیش آئے۔ میں کچھ دیر موصوف کی گفتگو سنتا رہا جس سے اس دور کی عظیم الشان ہستیوں کے بارے میں ایک عامیانہ سا تاثر ابھرتا معلوم ہوتا تھا۔ جب وہ خاموش ہوئے تو میں بھی خاموش ہو گیا کیونکہ ایسے موضوعات پر بات کرنا مجھے بہت مشکل محسوس ہوتا ہے۔ کہیں نہ کہیں ایسی بات منہ سے نکل جاتی ہے جس پر بعد میں افسوس ہوتا ہے کہ نہ کہتے تو اچھا تھا کیونکہ محض ایک جملے سے ہی بعض اوقات آپ کا ایک دیرینہ دوست آپ سے دوری محسوس کرنے لگتا ہے۔ تاہم جب میرے اس عزیز نے میری خاموشی کے بعد بھی گفتگو جاری رکھی اور ہمارے اپنے مذہب کے بارے میں انگریزوں کی تحقیق کی داد دینے لگے تو میں نے عرض کیا کہ قبلہ جس ہستی کے ذریعے ہمیں اسلام جیسا دین ملا‘ قرآن ہم تک پہنچا‘ اللہ نے ان کو تمام جہانوں کے لیے رحمت کہا ،وہ ہستی اپنے صحابہؓ کو بہتر پہچانتی تھی یا یہ انگریزمستشرقین؟ ایسی گفتگو کی میرے اس عزیز کو غالباً مجھ سے توقع نہ تھی کیونکہ ہمارے یہ نام نہاد پڑھے لکھے لوگ اکثر ان لوگوں کو جو حضورؐ کی تربیت کے شاہکار تھے‘ دنیاداری کے عمومی پیمانوں سے ماپ کر اپنی دانشوری کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ بولے ’’یار تم تو اندر سے بالکل مولوی ہو‘‘۔ میرے لیے یہ جملہ سننا معمول کی بات بن چکا ہے لہٰذا مجھے اس کو نظر انداز کرنے کی عادت ہو چکی ہے کیونکہ یہ جملہ خراج تحسین کی غرض سے نہیں بولا جاتا بلکہ اس سے آپ کو ایسا شخص ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو جدید دور کے تقاضوں سے بے بہرہ ہو۔لہٰذا میں نے موصوف کا طعنہ نظرانداز کر کے ان کی خدمت میں عرض کیاکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں مغربی سائنسدانوں کی تحریروں کی جو بین الاقوامی دنیا میں ساکھ موجود ہے اس کا اطلاق ان لوگوں کے مذہبی سکالرز پر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے تقریباً سبھی مذہبی سکالرز نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا۔ ان میں سے جو لوگ سنجیدگی سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں وہ اکثر صورتوں میں خود مسلمان ہو جاتے ہیں۔ یہ مستشرقین اکثر ایسی تحریروں پر انحصار کرتے ہیں جو ان کے اپنے بڑوں نے کتابوں کی شکل میں ان کے لیے چھوڑی ہیں اور انہوں نے یہ کتابیں اسلام کا مطالعہ کیے بغیر لکھی ہوئی ہیں۔ جس محفل میں ہم دونوں گفتگو کر رہے تھے وہ دراصل ایک چھوٹی بچی کی سالگرہ کی تقریب تھی۔ رشتوں کی قربت کی وجہ سے ہم دونوں اس تقریب میں شرکت پر مجبور تھے۔ ہمارے لیے وہاں کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ خاموش رہ سکتے تھے یا گفتگو کر سکتے تھے۔ لہٰذا میری کچھ ’’تلخ‘‘ گفتگو کے بعد خاموشی چھا گئی۔ چند منٹ خاموش رہنے کے بعد میرے اس عزیز نے اپنے موقف کا اعادہ کرنے کے لیے ایک اور ہتھکنڈا استعمال کیا۔ فرمانے لگے ،تاریخی واقعات کو چھوڑیں۔ اس انگریز مصنف نے مصر کی عیسائی آبادی کے حوالے سے ،جن کی مادری زبان عربی رہی ہے‘ قرآن کریم کی زبان پر اعتراضات کی ایک فہرست بھی شائع کی ہے ،لیکن اس معاملے میں ،میں بھی آپ کی طرح مولوی ہوں۔ میں ان اعتراضات کو بالکل بکواس سمجھتا ہوں۔ میرا ایمان ہے ،قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور ہر نقص سے پاک ہے۔ میرے نزدیک بعض ’’دانشوروں‘‘ کا یہ طریقہ واردات ہوتا ہے کہ ایک متنازع بات کی پھلجھڑی چھوڑتے ہیں اور پھر اس پھلجھڑی سے اپنے آپ کو الگ کر لیتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ متنازع بات دوسرے کے ذہن میں سوال پیدا کرنے لگے۔ شبلی نعمانی نے اپنی تصنیف ’’علم الکلام والکلام‘‘ میں ایک واقعہ درج کیا ہے جو خلیفہ مامون الرشید کے دور میں مذہبی مباحث کے دوران پیش آیا تھا۔ وہاں بھی غیر مسلموں کی طرف سے قرآن پاک کی زبان پر اعتراضات کیے گئے ۔دربار میں علم الکلام کی ماہر ’’نظام‘‘ نام کی ایک شخصیت تھی۔ نظام نے اعتراض کرنے والوں سے دریافت کیا کہ تمام اعتراضات کا الگ الگ جواب دیا جائے یا سب کا اکٹھا جواب دے دیا جائے۔ معترضین نے کہا کہ سب سوالوں کا اگر ایک ہی جواب ہو تو بہتر ہے۔ نظام نے کہا ،آپ لوگ مانتے ہیں کہ جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو مکے کے کفار میں عربی زبان کے بڑے بڑے ماہرین موجود تھے۔ انہوں نے کہا، ہاں۔ نظام نے پھر دریافت کیا کہ آپ مانتے ہیں کہ کفار نے قرآن کی مخالفت میں اپنی بہترین کوششیں کیں۔ اس کا جواب بھی معترضین کو ہاں میں دینا پڑا۔ اس پر نظام نے کہا کہ قرآن کی زبان پر جتنے اعتراض آپ لوگ لائے ہیں ان میں سے ایک بھی اعتراض اس دور میں کفار کی طرف سے وارد نہیں ہوا۔ میں نے یہ واقعہ اپنے عزیز کے گوش گزار کیا جس پر وہ عش عش کرنے لگے، مگر پتا نہیں کیوں ،مجھے یقین نہیں آیا کہ وہ خلوصِ دل سے عش عش کر رہے تھے۔