"ARC" (space) message & send to 7575

ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی

ہمارا معاشرہ اپنے آپ کو آج کل جس قدر لاچار اور بے بس محسوس کررہا ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ 1971ء میں ملک کے دو ٹکڑے ہونے کے بعد ہم نے اپنے معاشرے میں دکھ اور مایوسی تو بہت دیکھی مگر اُس وقت بھی بے بسی کا احساس ہم پر غالب نہیں تھا جبکہ عمومی طور پر محسوس کیا جارہا تھا کہ ہم بھارت سے جنگ ہار گئے ہیں مگر ہم ختم نہیں ہوئے ،ہم پھر سے اٹھیں گے اور ہوسکا تو بدلہ بھی لیں گے۔عوام کی اسی عمومی کیفیت کا ذوالفقار علی بھٹو کو بہت فائدہ ہوا اور بہت کم وقت میں حالات بدلے اور پاکستان میں ہر طرف امید کی کرنیں پھیل گئیں۔ آج کل صورتحال 1971ء کی شکست کے بعد کی صورتحال سے بھی بری دکھائی دیتی ہے کیونکہ جو حالات ، واقعات روزانہ پیش آتے ہیں وہ امیدوں کو ختم کررہے ہیں اور بے بسی کے احساس کو تقویت دے رہے ہیں۔ قوموں کو پُرامید رکھنا سیاستدانوں کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو آرتھر چیمبرلین برطانیہ کے وزیراعظم تھے۔ موصوف چونکہ اپنی قوم کو پرامید نہ رکھ سکے لہٰذا بدل دیے گئے اور ان کی جگہ ونسٹن چرچل نے لی جن کا بہت بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود اپنی قوم میں بے بسی اور لاچاری کا احساس پیدا نہ ہونے دیا اور ان کو پُرامید رکھا۔ ہمارے ہاں اس وقت تین سیاسی جماعتیں ہیں جو بڑی طاقتیں کہلاتی ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ اب پاکستان تحریک انصاف کا نام بھی شامل ہوچکا ہے کیونکہ اس جماعت نے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لیے ہیں ۔ان تینوں جماعتوں کے قائدین تاحال پاکستانیوں کو ایسی کوئی واضح امید نہیں دلاسکے جس سے وہ موجودہ حالات کے سامنے بے بسی محسوس نہ کریں۔ تینوں جماعتیں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کے حق میں دکھائی دیتی ہیں۔ عمران خان تو شروع ہی سے مذاکرات کی بات کررہے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن مرکزی حکومت میں آنے کے بعد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی اپنی پالیسی کا کچھ زیادہ ہی چرچا کررہی ہے۔ عملی طور پر البتہ اب تک طالبان کی طر ف سے دھماکے ہورہے ہیں جن کے جواب میں مذاکرات کے عزم کے پختہ ہونے کا حکومت کی طرف سے اظہار ہوتا رہتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت مذاکرات میں کتنی سنجیدہ ہے ،اس کا ابھی تک کچھ پتا نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی بیانات کی حد تک تو مذاکرات کے حق میں ہے اور اس جماعت کے قائدین کہتے ہیں کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکومت کی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہیں، اس جماعت کے دل میں کیا ہے ،اس کا بھی کچھ پتا نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کے دلوں میں کیا ہے، یہ تو اللہ ہی جانتا ہے مگر ملک میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر ہمارے عوام مایوسی کی طرف جھکے دکھائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں ہمارے سیاستدانوں کو کب احساس ہوگا کہ انہیں قوم کو مایوسی کی طرف بڑھنے سے روکنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے عملی اقدام کرنے چاہئیں ،محض بیانات یہ مقصد پورا نہیں کرسکتے۔ ہمارے سامنے 1971ء میں دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی مثال موجود ہے جس پر من وعن عمل تو نہیں ہوسکتا مگر یہ سبق تو سیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح عوام کو اپنے مستقبل کے بارے میں پرامید کیاجاسکتا ہے۔ بھٹو صاحب کا جوش و جذبہ اور عوام کے ساتھ رابطہ تو بے مثال تھا ہی مگر ساتھ ہی موصوف نے معاشی دشواریوں کے باوجود اپنی کسی بھی پالیسی سے عوام کی بددعائیں نہیں لی تھیں۔بھٹو صاحب کو اگر ملکی کرنسی کی قدر سو فیصد سے بھی زیادہ کم کرنی پڑی تو انہوں نے ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہوں میں محض دس فیصد اضافہ نہیں کیا تھا بلکہ اس زمانے میں تنخواہوں میں اضافہ بھی دو گنا سے زیادہ ہوا اور اس کے ساتھ الائونسز وغیرہ بھی بہت بڑھے تھے۔ ہماری نئی حکومت نے ایسی پالیسیاں اختیار کی ہیں کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے اور تنخواہیں وغیرہ تقریباً منجمد ہیں۔اس بدمزگی کے عالم میں جب قوم کے افراد تقریباً روزانہ ہی اپنے ہم وطنوں کو انتہائی بے رحمی سے دہشت گرد حملوں میں مرتے دیکھتے ہیں اور پھر حکومت سے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کی بات کا اعادہ ہوتا دیکھتے ہیں تو یہ بدمزگی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی صورتحال ہے جو قومی سطح پر بڑھتے ہوئی بے بسی اور لاچاری کے احساس کا سبب ہے۔ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے حال ہی میں جس قدر سرمایہ جنگوں پر خرچ کردیا ہے ،اس سرمائے کے ایک ادنیٰ سے حصے کی مدد سے پورے کرہ ارض کی غربت ختم ہوسکتی تھی۔ اسی طرح ہماری حکومت نے آتے ہی جو پانچ سو ارب روپیہ یعنی پچاس ہزار کروڑ روپیہ گردشی قرضے کی مد میں ادا کیا ہے اس کا ایک چوتھائی بھی اگر عوام کو ریلیف دینے پر خرچ کردیا جاتا تو کسی حد تک تو صورتحال بہتر ہوسکتی تھی۔ اب بھی اگر نیت ہو تو جس طریقے سے گردشی قرضہ ادا کرنے کے لیے پانچ سو ارب روپیہ پیدا کیاگیا ہے اسی طرح مزید دو سو ارب پیدا کرکے عام آدمی کے دکھ درد کم کرنے پر صرف کیاجاسکتا ہے ۔مریض کو بھی ڈاکٹر جب Antibiotic تجویز کرتے ہیں تو ساتھ ہی سکون کے لیے کوئی دوا بھی تجویز کردیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت تجربہ کار ہے ۔ محترم نوازشریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔ کہیں اس تجربے کی وجہ سے وہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار تو نہیں ہوگئے؟ان پر لازم ہے کہ وہ قومی سطح پر پائی جانے والی بے سکونی بھی محسوس کریں جو لوگوں کی معاشی پسماندگی اور ملک میں موجود عمومی مہنگائی سے پیدا ہورہی ہے اور اس بے بسی کے احساس کا بھی ادراک کریں جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ان کے عزم سے خاص طور پر اس وقت زیادہ ہی دکھ دیتا ہے جب طالبان کے دہشت گرد حملوں میں بے گناہ مارے جاتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے عمل اور ساتھ ہی وہاں ان کی محدود موجودگی کے مجوزہ معاہدے سمیت کئی دیگر اہم امور سے ہمیں مستقبل قریب میں نمٹنا ہوگا۔ یہ چیلنجز جب کھل کر سامنے آگئے تو حکومت کے پاس ا ندرون ملک مسائل پر توجہ کے لیے ہوسکتا ہے بہت کم وقت بچے لہٰذا عام لوگوں کو ریلیف دینے کے ضمن میں اور طالبان کی شورش ختم کرنے کے حوالے سے انہی دنوں میں عملی اقدامات کرلیں تو بہتر ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں