"ARC" (space) message & send to 7575

ریڈیو پاکستان اور سلیم گیلانی

قومی نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان کی حالت زار پوری قوم پر واضح ہے۔ حکومت نے شروع سے اس ادارے کو اپنے مکمل کنٹرول میں رکھا اور کبھی ایسے مواقع فراہم نہ کیے کہ یہ ادارہ مکمل خود کفیل نہ سہی کم ازکم اپنے اخراجات کا نصف ہی خود کما لے۔ نتیجہ سامنے ہے۔ ٹیلی وژن کے آنے سے ریڈیو پاکستان کی اہمیت کم ہوگئی اور اب ایف ایم پر چلنے والے نجی ریڈیو اسٹیشنوں نے اس ادارے کو قومی خزانے پر ایک ناقابلِ برداشت بوجھ میں تبدیل کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت خفیہ طور پر اگر ریڈیو پاکستان کی بہتری کے لیے اس کی تشکیل نو پر غور کر رہی ہے تو پتا نہیں وگرنہ جوکچھ سامنے ہے وہ تو یہی ہے کہ اس پرانے جہازکے محض ڈوبنے کا انتظارکیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے آخری حکمران جن کو ریڈیو پاکستان کی بہتری میں دلچسپی تھی وہ جنرل ضیاء الحق تھے۔ وہ خود باقاعدگی سے ریڈیو کے بعض پروگرام سنا بھی کرتے تھے اور ڈائریکٹر جنرل کو فون کر کے پروگراموں کے بارے میں اپنی رائے بھی دیا کرتے تھے۔ ضیاالحق اس بات پر بہت نالاں رہتے تھے کہ ریڈیو پر آواز صاف سنائی نہیں دیتی۔موصوف کی شکایت پر ریڈیو میں کئی مرتبہ اعلیٰ سطح پر انکوائریاں بھی ہوئیں مگر اللہ بھلے کرے ریڈیو پاکستان کے شعبہ انجینئرنگ کا کہ انہوں نے کبھی یہ تسلیم ہی کر کے نہیں دیا کہ ریڈیو پرآواز صاف سنائی نہیں دیتی۔ 
میں جب ریڈیو کی ملازمت میں تھا تو شعبہ انجینئرنگ کے ایک سینئر افسر علوی صاحب میرے دوست تھے۔ایک روز میں نے ان سے تنہائی میں پوچھا کہ علوی صاحب اصلی مسئلہ کیا ہے؟ مسکرائے،کہنے لگے، ایک لفظ میں بتائوں۔ میں نے کہا بولیے۔ کہنے لگے''غربت‘‘۔ پھر اس کی تفصیل یوں بیان کی کہ ٹرانسمیٹرز پرانے ہیں، ان کی جگہ نئے ٹرانسمیٹر لگانے کے لیے حکومت پیسے دینے کو تیار نہیں کیونکہ خرچہ واقعتاً بہت زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہی ٹرانسمیٹرزکو بڑی محنت سے ہمارے انجینئر چلا رہے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں ان کے فاضل پرزے(Spare Parts)بھی نہیں ملتے ، تو پھرکیا کریں؟
میں نے کہا جب انکوائری ہوتی ہے تو آپ لوگ کیوں اس پر اصرار کرتے ہیں کہ سب ٹھیک چل رہا ہے ، یہ باتیں حکومت کے علم میں لانی چاہئیں۔ علوی صاحب ہنسے، بولے: مسائل ان لوگوں کے علم میں لائے جاتے ہیں جن کو معلوم نہ ہو۔وزارت خزانہ کے سیکشن افسر سے لے کر سیکرٹری تک سب کو معلوم ہے کہ اصل مسئلہ مالی وسائل کا ہے۔ لہٰذا ریڈیو پاکستان کے شعبہ انجینئرنگ نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ جو افسر کسی ہائی پاور ٹرانسمیٹر پر تعینات ہوتا ہے وہ فرض کر لیتا ہے کہ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی شکایت ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ثابت کرو کہ آواز صاف سنائی نہیں دیتی ، پھر کوئی کتنے ثبوت دے ہم نہیں مانتے۔
اس صورتحال کو صحیح معنوں میں صرف ریڈیو پاکستان کے ایک ڈائریکٹر جنرل نے سمجھا ،ان کا نام سلیم گیلانی تھا۔ وہ ضیاء الحق حکومت کے آخری دنوں میں ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ان کے ریٹائر ہونے کے کئی برس بعد ایک روز میں ان سے ملنے ان کے گھرگیا تو ریڈیو پرکرکٹ کمنٹری چل رہی تھی اور مسئلہ یہی تھا کہ آواز صاف سنائی نہیںدے رہی تھی۔ جھنجھلا کر بولے ریڈیو پاکستان سے لوگوں کو صاف آواز سنائی دے، یہ بات غالباً اللہ کو ہی منظور نہیں ۔ ظاہر ہے ، ایسے جملے کے بعد لازمی ہو جاتا ہے کہ وضاحت کی درخواست کی جائے۔ میرے سوال کے جواب میں بولے: ضیاء الحق نے اگست 1988ء میں ریڈیو کے مسئلے پر تفصیل سے بات کی تھی۔ جواب میں جب تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو جنرل صاحب نے کہا مختصر بتائو کہ مسئلہ کیا ہے ، تو میں نے جواب میں کہا سر! مسئلہ ہے غربت ، مالی وسائل نہیں ہیں۔ تنخواہوں، پنشن، بجلی کے بل کے بعدکچھ بچتا نہیں۔گیلانی صاحب کے کہنے کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے وعدہ کیا کہ وہ 18اگست کو ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کے دورے پر آئیں گے اور یہ مسئلہ حل کر دیں گے۔ اس کے بعد وہ خاموش ہو گئے۔ مجھے ان کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ جنرل ضیاء الحق 17اگست کو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
گیلانی صاحب کوئی سیاسی وابستگی رکھنے والی شخصیت نہیں تھے۔ ان کی وابستگی زندگی بھر محض ریڈیو پاکستان کے ساتھ ہی رہی۔ میرا ان کے ساتھ 1968ء میں کراچی میں جب تعارف ہوا تو اس وقت بھی وہ محمد عمر نامی ایک پروڈیوسر کے پروگرامThe Story of Indusکی تعریف کر رہے تھے۔عمر صاحب کا کہنا تھا کہ مرکزی خیال تو گیلانی صاحب آپ سے گفتگو کے بعد ہی میرے ذہن میں آیا تھا۔ ریڈیو میں گیلانی صاحب کے مخالفین بھی بہت تھے مگر ریڈیو کے میڈیم کے لیے ان کی خدمات کا سبھی اعتراف کرتے تھے۔ مہدی حسن اور ریشماں جیسے عظیم فنکاروں کا نام عروج پر پہنچا جوگیلانی صاحب کی کوششوں کا نتیجہ تو تھا ہی مگر انہوں نے پروگراموں کے دیگر شعبوں میں بھی تاریخ ساز خدمات انجام دیں۔ ستر کی دہائی کے آخری حصے میں میری جب لاہور میں پوسٹنگ تھی توگیلانی صاحب لاہورکے سٹیشن ڈائریکٹر تھے۔ جب پیپلز پارٹی برسراقتدار تھی تو بھٹو صاحب کے اصلاحات کے ایجنڈے پرگیلانی صاحب نے''روشنی کے گیت‘‘کے نام سے نغمے ریکارڈ کیے جواگرچہ بظاہرایک سیاسی نوعیت کی کارروائی دکھائی دیتی ہے مگر انہوں نے یہ کام محض ایک براڈ کاسٹر کے طور پر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو بھٹو دور میں بھی کوئی اعزاز وغیرہ نہیں ملا ۔اسی طرح ضیاء الحق کے زمانے میں انہوں نے سیرت پر ربیع الاول کے دنوں میں سیمیناروں کا جو سلسلہ شروع کیا وہ غالباً ریڈیو پر آج تک جاری ہے ؛تاہم ضیاء دور میں بھی گیلانی صاحب کوکوئی تحفہ وغیرہ نہیں ملا۔
ایک روز میں نے گیلانی صاحب سے کہا کہ سر آپ کیسفارش پردرجنوں افرادکوپرائیڈ آف پرفارمنس مل چکے ہیں لیکن آپ کو ابھی تک کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔کہنے لگے ، میں اب خودتو اپنی Citation نہیں لکھ سکتا، وہ تو خود ستائی ہو جائے گی۔کافی دیر خاموش رہے، پھر بولے:''میرا نظریہ یہ ہے کہ انسان جہاں تعینات ہو،جب اس مقام سے ہٹے تو وہ جگہ پہلے سے بہتر ہونی چاہیے۔ بس میں جب بھی کسی یونٹ سے ٹرانسفر ہوتا ہوں تو ایمانداری سے اس کا موازنہ کرتا ہوں اُس صورت حال سے جب میں نے چارج لیا تھا اور آج تک یہ ریکارڈ قائم ہے کہ میں کچھ نہ کچھ بہتری پیداکرکے ہی آگے بڑھتا رہا ہوں‘‘۔
اُن کے اس بیان کی روشنی میں جب میں نے لاہور سٹیشن کا جائزہ لیا کہ گیلانی صاحب کے آنے سے پہلے کیا صورت تھی اور بعد میں جب وہ ڈائریکٹر سے آف پروگرام ہوکراسلام آباد چلے گئے توکیا صورت تھی تو مجھے ان کی بات بلاشبہ صحیح معلوم ہوئی۔ انہوں نے چند برسوں میں لاہور سٹیشن کی کایا پلٹ دی تھی۔ 
ریٹائرمنٹ کے بعد ان سے کھل کرگفتگو ہوتی تھی۔ میں نے ایک روز دریافت کیا کہ آپ کے افسراکثر آپ سے خوش نہیں ہوتے تھے،آپ کواس سے الجھن نہیں ہوتی تھی؟بولے، سچی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی پوری سروس میں ہمیشہ اپنی مرضی کی ہے، لہٰذا افسران کا ناخوش رہنا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔کچھ دیر چپ رہے پھر بولے:کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ میں اپنی تمام تنخواہ کا حساب کر کے پوری رقم ریڈیو پاکستان کو واپس کردوں کیونکہ میں تواس ادارے میں اپناکام ہی کرتا رہا ہوں۔
ہمارے دوست مرتضیٰ جب ریڈیو کے ڈی جی تھے توانہوں نے گیلانی صاحب کے لیے سرکاری اعزازکی سفارش کی مگر اس دوران میں ریڈیوکا یہ بے مثال ڈائریکٹر جنرل اس جہان سے رخصت ہو چکا تھا۔ سرکاری اعزاز بعد ازاں ان کے کسی عزیز رشتہ دار نے وصول کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں