"ARC" (space) message & send to 7575

معاشی پسماندگی اور رویے

غربت کا ایک انتہائی ردعمل علیحدگی پسندی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ غربت کے علیحدگی پسندی کے ساتھ تعلق کا اگر سماجی، معاشرتی یا تمدنی بنیادوں پر عملی نوعیت کا تجزیہ کیا جائے تو بات انتہائی طویل، خشک اور غیر دلچسپ ہو جائے گی تاہم اس کو بآسانی سمجھنے کے لیے آپ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مثال لے سکتے ہیں۔ ایک قوم کو الگ الگ خانوں میں بانٹنے والا کون سا عنصر ہے جو امریکہ میں بدرجہ اتم موجود نہیں ہے۔ مختلف خطوں کے لوگ، مختلف زبانیں، مختلف ثقافتیں۔ بعض نے تو امریکہ کے اندر ہی اپنے ٹائون بنائے ہوئے ہیں۔ کون سامذہب ہے جسے کے پیروکار اس ملک میں نہیں رہتے۔ جن مذاہب کو دنیا کے دیگر ملکوں نے اپنے ہاں سے جبری نکال دیا وہ بھی امریکہ میں بخوشی رچ بس گئے۔ یورپ میں ایک ایسا مذہب تھا جس کے ماننے والے Shakersکہلاتے تھے۔ یہ لوگ شادی نہیں کرتے تھے، صرف لاوارث بچوں کو گود لے لیتے تھے۔ ان کو جب یورپ سے بے دخل کیا گیا تو امریکہ میں پناہ ملی۔ شادی نہ کرنے کے باعث یہ لوگ آہستہ آہستہ خود ہی معدوم ہو گئے، وگرنہ آج بھی امریکی ریاستإزتھثکنمیں ان کا شہرShaker Townموجود ہے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود امریکی عوام نے بطور ایک قوم کے، بے مثال یکجہتی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس ملک میں مسلسل خوشحالی رہی۔ جنگ عظیم اول اورجنگ عظیم دوم بھی معاشی لحاظ سے امریکہ کے لیے نیک فال ثابت ہوئیں اور موجودہ صدی کے آغاز میں معاشی بحران کا سامنا ہونے سے پہلے تک امریکی معیشت دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتی رہی لہٰذا جب 11ستمبر 2001ء والا دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو امریکی قوم نے بے مثال یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ 
میں نے موجودہ صدی کے آغاز میں امریکہ میں آنے والے معاشی بحران کا ذکر کیا ہے تو وہ اس غرض سے کہ ابھی اگرچہ امریکی قوم کو کوئی بڑا معاشی خطرہ در پیش نہیں ‘لیکن محض اس بحران کے بعد ہی بعض امریکی ریاستوں سے علیحدگی پسندی کی نحیف سی آوازیں آنے لگی ہیں۔ امریکی ریاست ٹیکساس نے 1845ء میں جب ریاستہائے متحدہ امریکہ میں شمولیت اختیار کی تو اس وقت ایک معاملہ یہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ مستقبل میں یہ ریاست اگر الگ ہونے کا فیصلہ کرے گی تو یونین سے الگ ہو سکے گی۔ یہ بات 165برس تو کسی کو یاد نہیں آئی مگر اب ٹیکساس کے کچھ حلقوں میں علیحدگی کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اس قسم کی ہلکی ہلکی دراڑوں کے اور بھی شواہد ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ میرا نقطہ نظر اتنی مثال سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ معاشی پسماندگی ہو یا پھر محض اس کا خطرہ ہو تو انسانی ذہن علیحدگی پسندی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ 
غربت اور معاشی پسماندگی کے علیحدگی پسندی کے رجحان کے اس تعلق کے حوالے سے اب ذرا اپنے ملک پر غور کریں۔ سب سے پہلے دھیان سابق مشرقی پاکستان کی طرف جاتا ہے۔ بہت سے عوامل تھے جن کے نتیجے میں بنگلہ دیش بنا لیکن مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کی معاشی حالت کی پسماندگی کا شمار علیحدگی کی بنیادی وجوہ میں ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جس توجہ سے جنرل ایوب خان نے مغربی پاکستان میں ترقیاتی کام کروائے، اگر اتنی ہی توجہ وہ مشرقی پاکستان پر بھی دیتے تو آج بنگالی ہمارے ساتھ ہی ہوتے۔بنگالیوں کی تو یہ حالت تھی کہ وہاں کے کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان جوڑوں کو ہنی مون کے لیے مغربی پاکستان بھیجا جاتا تھا جبکہ مغربی پاکستان کے آسودہ حال لوگ اپنے بچوں کو یورپ یا امریکہ ہنی مون کے لیے بھیجتے تھے۔ 
مغربی پاکستان کے نوجوان کوشاں رہتے تھے کہ یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کریں جبکہ مشرقی پاکستان کے بہت سے نوجوانوں کی خواہش ہوتی تھی کہ مغربی پاکستان کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں جا کر ڈگری حاصل کریں۔ ایوب حکومت نے ایک National Council of Integrationبنا رکھی تھی۔ یہ ادارہ انٹرونگ(Inter wing)سکالر شپس دیتا تھا۔ جن بنگالی طالب علموں کو یہ سکالر شپ ملتا وہ یہاں آ کر بالکل ایسے خوش ہوتے تھے جیسے ان کو ایک بہت بڑا انعام ملا ہے جبکہ ہمارے ہاں سے جن نوجوانوں کو مشرقی پاکستان جا کر تعلیم حاصل کرنے کا انٹرونگ سکالر شپ ملتا تھا ان میں سے کچھ تو جاتے ہی نہیں تھے اور کچھ پڑھائی ادھوری چھوڑ کے آ جاتے تھے۔ 
ایوب خان کی قائم کردہ نیشنل کونسل آف انٹیگریشن کا Logoتھا'' علم وسیلہ اتحاد‘‘ جو کہ الطاف گوہر کی ایوب خان کے لیے لکھی گئی تقریر کے ایک جملے Unity Through Knowledgeکا ترجمہ تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایوب خاں کی حکومت مشرقی پاکستان کی معاشی پسماندگی دور کرنے کے بجائے ملک کے اس حصے کو کس کس انداز سے بہلا رہی تھی۔ یعنی مشرقی پاکستانیوں کو بتایا جا رہا تھا کہ بس علم ہی اتحاد کا وسیلہ ہے۔ 
اس وقت بلوچستان کی جو صورتحال ہے اگر ایسی صورتحال 1972ء میں ہوتی تو نیشنل انٹیگریشن والے ادارے کا رخ ممکن ہے بلوچستان کی طرف موڑ دیا جاتا اور ان کو بھی بتایا جاتا کہ علم ہی اتحاد کا وسیلہ ہے۔ 
ہم حکمرانوں کی طرف سے بارہا ایسے بیانات سنتے ہیں کہ بلوچستان کو اس کا حق دیا جائے گا۔ پھر کچھ دعوے بھی سنتے ہیں کہ قومی خزانے میں سے بلوچستان کو پہلے سے زیادہ رقوم فراہم کی جا رہی ہیں۔ آغاز حقوق بلوچستان کی بات بھی ہم سن چکے ہیں۔ بس حکمرانوں کو اتنی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی عام گھرانے میں غربت اور معاشی پسماندگی ڈیرے ڈال لے تو گھر کے افراد تک میں اتحاد ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے اور ہر فرد علیحدہ ہونے کا سوچنے لگتا ہے۔ بلوچستان تو ایک صوبہ ہے۔ بہت بڑا علاقہ ہے اور اس قدر پسماندہ ہے کہ اس کی تفصیل سن کر سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ ہم نے جو زیادتیاں کی ہیں اور کیے جا رہے ہیں ان کا بدلہ ہمیں فاٹا میں مل رہا ہے۔ تھر میں قحط کی خبریں آئی ہیں تو سب اس طرف متوجہ ہو گئے ہیں جبکہ بلوچستان کے دور دراز دیہی علاقے اس سے ملتی جلتی کیفیت سے مستقل نبرد آزما ہیں۔ کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں۔ 
پاکستان یقیناً کوئی خوشحال ملک نہیں لیکن معاشی طور پر جو صورتحال باقی ملک کی ہے جب بلوچستان کی بھی ایسی ہی صورت ہو جائے گی تو پھر وہاں آپ کو ڈھونڈنے پر بھی کوئی علیحدگی پسند نہیں ملے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں