"ARC" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی … کل اور آج

1970ء کے عام انتخابات کے دوران مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے شور میں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو عوام کے دلوں میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا شعور بیدار کر چکے تھے لیکن اُس وقت کے بیشتر سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اس کا ادراک نہ ہوا؛ تاہم جب 1971ء کی جنگ کے بعد بنگلادیش بن گیا اور مغربی پاکستان ہی پاکستان رہ گیا تو پھر یہاں کے اور خاص طور پر دائیں بازو کے سیاستدانوں کو معلوم ہوا کہ وہ صرف 70ء کے الیکشن میں ناکام نہیں ہوئے بلکہ اپنے عوام کا مزاج سمجھنے سے بھی قاصر رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی نے جس طرح عوام کے ساتھ اپنے آپ کو Connect کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ برسوں بعد مجھے اس کی جو وجہ سمجھ میں آئی وہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب کی پاکستان کے بارے میں سوچ ہمارے ملک کے اور خاص طور پر پنجاب کے عوام کے مزاج کے عین مطابق تھی۔ پنجاب کے لوگ شروع ہی سے لبرل مزاج ہیں لیکن ساتھ ہی بھلے با عمل نہ ہوں مگر مذہب کے معاملے میں قدامت پسند (Conservative)ہیں۔ بھٹو صاحب کے یہ نعرے: اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت ہے اور قوت کا سر چشمہ عوام ہیں‘ عام آدمی کی سیاسی جماعت سے جو توقعات ہوتی ہیں اُن پر پورا اترتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی میں اس دور میں ہر قسم کے آدمی فِٹ ہو جاتے تھے۔ ملک معراج خالد جیسے دھیمے مزاج کے دیانت دار شخص سے لے کر انتہائی بے ایمان قسم کے لوگ بھی اس میں سمائے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ موجود ہوتے ہوئے بھی یہ جماعت ایسی تھی کہ اکثریت اسے اپنی جماعت کہتی تھی۔ 
ذوالفقار علی بھٹو کو سیاسی منظر سے ہٹا دیا گیا۔ برسوں مارشل لاء رہا اور اس کے بعد بے نظیر بھٹو میدان عمل میں آئیں۔ موصوفہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں لیکن اُن کے والد پاکستان کے عوام کے ساتھ پیپلز پارٹی کی جو وابستگی پیدا کر گئے تھے وہ آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی گئی؛ تاہم یہ خاتون جان دے کر ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کو یہ موقع فراہم کر گئیں کہ پانچ برس میں اگر یہ جماعت چاہے تو دوبارہ عوام کے دلوں میں گھر کر لے۔ محترم آصف علی زرداری کی سیاست میںمہارت کے بہت قصے ہمارے عوام سن چکے ہیں۔ یہ تک کہا گیا کہ موصوف کے سیاسی ٹیلنٹ پر پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہے مگر جو حقائق سامنے آئے ہیں اُن کی روشنی میں یہ واضح ہو گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ میری نظر میں یہی وجہ ہے کہ عوام زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی سے دوری محسوس کرنے لگے ہیں۔ پاکستان کے عوام تو وہی ہیں مگر پیپلز پارٹی وہ نہیں رہی۔ اس وقت اگر عوام بظاہر مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں تو انہیں زرداری صاحب کی اس جماعت نے ہی اُس طرف دھکیلا ہے۔
گزشتہ برس کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو سندھ تک محدود کر لیا ہے یہ بھی ایک ایسی بات ہے جو سمجھ میں نہیں آتی۔ کیا یہ بات واضح نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کے پیچھے ہٹ جانے سے پنجاب میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا اس میں تحریک انصاف نے قدم جما لیے ہیں۔ مبصرین اس بارے میں سوال اٹھا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے قدم کس قدر مضبوطی سے 
جمے ہیں؟ کیونکہ تحریک انصاف نے ابھی سے حامیوں کو مایوس کرنا شروع کر دیا ہے۔ زرداری صاحب نے موجود سیاسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کا مستقبل شاندار بنانے کے لیے بظاہر جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک اور ذوالفقار علی بھٹو تیار کیا جائے۔ اُن کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو اس کائنات کے مالک نے بھٹو بنایا تھا۔ وہ قدرتی طور پر بھٹو تھا جبکہ زرداری صاحب اپنے صاحبزادے کو مصنوعی طور پر بھٹو بنا رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے بلاول کے نام میں بھٹو شامل کیا اور اب ذوالفقار علی بھٹو کے انداز اختیار کرنے کی اُس نوجوان کو مشق کرائی جا رہی ہے۔ جہاں تک بلاول کی پرفارمنس کا تعلق ہے وہ تو شاندار ہے۔ ایک نوجوان جس نے تمام عمر انگریزی میں تعلیم حاصل کی ہو اُس کا اس طور پر تقریر کرنا قابل ستائش ہے اور اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ انتہائی ذہین اور ٹیلنٹڈہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مصنوعی بھٹو کے طور پر بیچارے کا مذاق ہی اڑ سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک انتہائی مضبوط بدن کے مالک پہلوان نے ایک نو عمر نوجوان پہلوان کو کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا اور دونوں بازار سے گزر رہے تھے۔ نو عمر نوجوان لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ اس پہلوان کو چِت کر کے میں اس کے کندھوں پر سوار ہوا ہوں۔ لوگ سنتے اور ہنس دیتے۔ نوجوان نے جب پوچھا کہ کیوں ہنستے ہو تو اُسے جواب ملا: ہمیں معلوم ہے کس نے کس کو چِت کیا ہو گا اس لیے ہنس رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ ابھی بھی انتہائی اہم اور بالغ نظر سیاستدان وابستہ ہیں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اُن کی آواز مکمل طور پر دب چکی ہے۔ اس جماعت کو اور اس کے قائدین کو ایک مرتبہ پھر غور کرنا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کس طرح اپنی جماعت کو عوام کے دلوں میں بسا دیا تھا۔ انہوں نے حقیقی سیاسی کام کیے تھے اور کبھی مصنوعی چیزوں کا سہارا نہیں لیا تھا۔ سندھ میں اپنی اکثریت پر بھی پیپلز پارٹی کو فخر نہیں کرنا چاہیے۔ ملک کی دوسری سیاسی جماعت چونکہ سندھ کے عوام تک پہنچ ہی نہیں سکی، اس کا بونس پیپلز پارٹی کو ملتا ہے۔ اُن کا اپنا کوئی کمال دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا ٹی وی پر کامران شاہد کے سندھ کے دیہی علاقوں کی کسمپرسی سے متعلق ایک پروگرام میں ایک بوڑھے سندھی سے جب کامران نے یہ پوچھا کہ بابا جب پیپلز پارٹی کچھ نہیں کرتی تو اس کو ووٹ کیوں دیتے ہو تو اس بوڑھے سندھی نے بڑے دکھ سے جواب دیا ''بابا کیا کریں؟ انہیں ووٹ نہ دیں تو کیا ووٹ کو کھا جائیں‘‘ دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے۔ سیاسی کام یہ نہیں ہوتا کہ بڑے شہروں میں ایک دو جلسے کروا دیے۔ سیاسی کام ہوتا ہے عوام کے دلوں میں گھر کرنا۔ اُن کے دلوں میں امید پیدا کرنا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں