آج کے دورمیں سادہ طبیعت کے مالک صاف ستھرے لوگ کم کم ہی ملتے ہیں ، لیکن ہمارے اسی ملک میں ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ لوگوں میں منافقت ‘ تعصب اور دھوکہ دینے کا رجحان برائے نام تھا۔ ساٹھ کے عشرے میں جب میں نے تعلیم مکمل کر کے ملازمت اختیار کی تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رشوت خور شخص کے بچوں کے رشتوں کی راہ میں اس کی حرام کمائی رکاوٹ بن جاتی تھی۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اکثریت منفی رویوں سے دور تھی۔
اس دور میں سادہ مزاج لوگ قومی زندگی کے طبقے اور شعبے میں پھیلے ہوئے تھے ، ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی اگلی نسلیں اپنے بڑوں کی اقدارکو خیر باد کہہ کر اس قدر دنیا دار ہو جائیں گی کہ بھلے برے کی تمیزتک غائب ہو جائے گی۔ میں جب تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اس دور کے ان سادہ مزاج لوگوں میں مجھے خاص طور پر ان شخصیتوں نے بہت متاثر کیا جو کہیں سرکاری یا غیر سرکاری نوکری کرتے تھے‘ تنخواہ سے بچے پال رہے تھے اوراس کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے تھے۔ ان میں کافی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو ہندوستان سے 1947ء اور اس کے بعد کے برسوں میں پاکستان آئے تھے۔ان لوگوں کا ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا‘اپنے اپنے اشعار سنانا‘ہندوستان میں جس مقام سے نقل وطن کر کے آئے تھے اس کا ذکر کرنا مرغوب مشاغل تھے،وہ زیادہ تر انہی میں مصروف رہتے تھے۔ نظر امروہوی مرحوم جن کا حال ہی میں کراچی میں انتقال ہوا ایسے ہی لوگوں میں شامل تھے۔ میں جب کالج میں زیر تعلیم تھا تو نظر امروہوی کے بڑے بیٹے اقبال نظر میرے دوست تھے۔اقبال نظر بینکر ہیں اور آج کل ادبی رسالہ'' کولاژ ‘‘ (Collage)نکالتے ہیں۔ اقبال نظر ‘ اپنے والد کو بھائی کہہ کر بلاتے تھے، لہٰذا میں بھی ان کو بھائی ہی کہتا تھا۔ بھائی ریلوے میں ملازم تھے۔ ہمیشہ شیروانی پہنتے‘بال اکثر بکھرے ہوتے تھے۔ جب دیکھا بھائی کو کسی سوچ میں گم دیکھا، لیکن ناخوش کبھی نہ دیکھا؛ حالانکہ ان کے ناخوش رہنے کی بہت سی وجوہ موجود تھیں۔
بھائی کا تعلق سادات امروہہ سے تھا۔ حضرت شاہ ولایتؒکے خانوادہ کے وارثوں میں تھے۔ امروہہ میں ان کا خاندان گھڑیال والوں کا خاندان کہلاتا تھا جس کے دیوان خانے میں جگر مراد آبادی اور خمار بارہ بنکوی جیسے شعراء کاآنا جانا رہتا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ بھائی پر بھی شاعری چھا گئی اور نظر تخلص کیا اور نظر امروہوی کہلائے وگرنہ ان کا نام علی منصرم خان نقوی الواسطی البخاری تھا۔اقبال نظر کا کہنا تھا کہ ان کے دادا کے دادا علی منظم خاں نقوی ‘حضرت امیر مینائی کے تلامذہ میں سے تھے۔
اتنا اہم خاندانی تشخص تھا مگر یہاں پاکستان آ کر اولاد کی کفالت کرنا محال ہو رہا تھا۔حکومت نے جو زرعی زمینیں ان کے خاندان کی بھارت میں جائیداد کے عوض الاٹ کیں ان کی ملکیت کے کاغذات تو غالباً اب تک خاندان کے وارثوں کے پاس ہوں گے مگر ان زمینوں کا قبضہ آج تک اس خاندان کو نہیں مل سکا۔ جو لوگ ساٹھ کے عشرے میں قابض تھے آج ان کی اولادیں قابض ہیں۔
اس صورت حال میں اگر نظر امروہوی ناخوش رہتے توکوئی تعجب کی بات نہ ہوتی مگر میں نے کبھی ان سے اس حوالے سے شکوہ شکایت نہ سنا۔ ہاں ان کی شاعری میں لوگوں کی منافقت پر طنز ضرور ملتا ہے ۔نظر امروہوی کا شعر ہے ؎
میری آنکھوں سے اپنے چہروں کو
لوگ دیکھیں نظر تو ڈر جائیں
نظر امروہوی اپنے خاندان کے ہمراہ ساٹھ کے عشرے کے وسط میں لاہور سے کراچی چلے گئے۔1968ء میں ریڈیو پاکستان میں بطور پروڈیوسر جب میرا تقرر ہوا تو مجھے کراچی سٹیشن پر تعینات کیا گیا۔کراچی پہنچ کر شروع میں میرا قیام اقبال نظر
کے گھر میں رہا تو وہاں معلوم ہوا کہ ریڈیو پاکستان کراچی میں ہمارے سٹاف آرٹسٹ شعیب حزیں ‘ نظر امروہوی صاحب کے شاعری میںاستاد ہیں۔شعیب حزیں کوئٹہ سے کراچی آئے تھے اورریڈیو سٹیشن پر احمد ہمدانی صاحب کے کمرے میں بیٹھتے تھے ۔ ہمدانی صاحب خود بھی شاعر تھے اور ان کے پاس ہر وقت شاعروں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ اس ہجوم میں شعیب حزیں سب سے بے نیاز پروگراموں کا خلاصہ لکھنے میں مصروف رہتے۔ایک روز فرصت میں میں نے نظر امروہوی کا ذکر کیا تو انہوں نے بھائی کے بارے میں بہت سی باتیں بتائیں۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بھائی کے بارے میں جواہم باتیں مجھے معلوم ہوئیں وہ دوسرے لوگوں سے معلوم ہوئیں ، خود انہوں نے مجال ہے کہ کبھی ایک لفظ بھی اپنے خاندان کی اہمیت یا اپنی شعری کوششوں کے بارے میں کہا ہو۔ رازمراد آبادی بھائی کے خاندان سے بھی واقف تھے اور ان کے شعری سفر پر بھی ان کی نظر تھی۔انہوں نے بھائی کے بارے میں ایک مضمون تحریر کیا تھا جس کے مطابق نظر امروہوی نے اٹھارہ برس کی عمر میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے پہلا آل انڈیا مشاعرہ پڑھا جس کا ایک شعر تھا :
نہ کوئی کارواں ہے نہ رہ گزر نہ کوئی منزل نہ راہبر ہے
مقام ہوش وخبر سے آگے تمام عالم غبار سا ہے
اس کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں میں شکیل بدایونی‘ نخشب جارچوی‘ محشر بدایونی اور تابش دہلوی جیسے شعراء کے ہمراہ مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ جب میں کراچی میں تھا تو محشر بدایونی ریڈیو کے پندرہ روزہ رسالے آہنگ کے ایڈیٹر ہوتے تھے اور تابش دہلوی سٹاف آرٹسٹ کے طور پر سکول براڈ کاسٹ سیکشن سے منسلک تھے۔ تابش دہلوی صاحب سے میری ملاقات رہتی تھی ، وہ خود بھی نظر امروہوی کی طرح بالکل سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ اگرچہ شاعری میں ان کا بڑا مقام تھا مگر انکساری اس قدر کہ احساس تک نہ ہوتا تھا کہ آپ ایک بڑی شخصیت سے ہمکلام ہیں۔ تابش دہلوی سے معلوم ہوا کہ نظر امروہوی بھی برسوں جگر مراد آبادی کی صحبتوں میں رہے تھے۔
آج نظر امروہوی مرحوم کو یاد کرتے ہوئے مجھے اس دور کے بہت سے ایسے لوگ یاد آ رہے ہیں جن میں سے کچھ کا میں نے ذکر کیا ہے اور باقی کا ذکر شروع کروں تو بات بہت طویل ہو جائے گی۔اس دور کے یہ لوگ آج مجھے اس وجہ سے بھی بہت یاد آ تے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کے مزاج میں سادگی دیکھی‘ پرخلوص انکساری دیکھی۔ یہ لوگ مجھے تعصب اور منافقت سے بہت دور نظر آئے۔ بشری کمزوریاں سب میں ہوتی ہیں لیکن مجموعی طور پر یہ لوگ بہت اچھے تھے۔ نظر امروہوی 92برس کی طویل عمر پانے کے سبب غالباً اس قبیل کے آخری چند لوگوں میں سے ایک ہوں گے۔آج جبکہ پرانی اقدار ختم ہو چکی ہیں‘بھلے برے کی تمیز نہیں رہی اور دنیاداری مکمل طور غلبہ حاصل کر چکی ہے، مجھے ایسے لوگوں کو یاد کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔