موسیقی کی دنیا میں کچھ آوازیں ہوتی ہیں جنہیں کورس کی آوازیں (Chorus Voices) کہا جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارے ہاں موسیقی کے شعبے سے وابستہ اکثر لوگ معاشی پسماندگی کا شکار رہتے ہیں۔ مگر یہ جو کورس کی آوازیں ہوتی ہیں یہ جن فنکاروں کی ہوتی ہیں وہ تو بالکل ہی پِسے ہوتے ہیں۔ موسیقی کی دنیا میں چند فنکار جو معروف ہو جاتے ہیں ان کو چھوڑ کر باقی اکثریت موسیقی کی جس قدر خدمت کرتی ہے اس حساب سے اُنہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے اور کورس کے فنکاروں کو ان میں بھی سب سے کم معاوضہ ملتا ہے۔ سازندوں کے تو پھر بھی کبھی کسی پروگرام کے آخر میں فنکاروں کے ہمراہ نام نشر ہو جاتے ہیں مگر کورس وائسز کو محض ساتھی یا سکھیاں کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ اتنی کم پزیرائی کے باوجود کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کورس کے فنکاروں کی ضرورت پڑی ہو اور وہ دستیاب نہ ہوئے ہوں۔ ریڈیو والوں کو بھی مل جاتے ہیں‘ ٹی وی والوں کو بھی مل جاتے ہیں اور فلم میں اگر ضرورت ہو تو وہاں کورس فنکاروں کو فیس بھی کچھ بہتر ملتی ہے اس لیے وہاں یہ بھاگے بھاگے جاتے ہیں۔ پاپ میوزک کے فنکاروں کو بھی اگر ضرورت پڑے تو کورس کے فنکار ہر دم میسر ہوتے ہیں۔
ہماری قومی تاریخ میں ریڈیو پاکستان ہی ایسا ادارہ رہا ہے جہاں منظم انداز میں آڈیشنز کیے جاتے ہیں۔ میوزک سیکشن میں ان لوگوں کے خطوط موصول ہوتے تھے جو اپنی آواز ٹیسٹ کروانے میں دلچسپی کا اظہار کرتے تھے۔ ان لوگوں کو آڈیشن لیٹر بذریعۂ ڈاک بھیجے جاتے تھے۔ جبکہ جو لوگ ہمت کر کے یا کسی سفارش کے ذریعے ریڈیو سٹیشن پہنچ جائیں تو ان کو براہ راست آڈیشن سلپ جاری کردی جاتی تھی۔
یہ آڈیشن لیٹر انگریزی میں ہوتا تھا اور اس کا مضمون وہی ہوتا تھا جو غیر منقسم ہندوستان میں آل انڈیا ریڈیو کے قیام کے وقت اس ادارے کے پہلے سربراہ Lionel Fielden کی نگرانی میں مرتب ہوا تھا۔ اس خط میں یہ واضح کیا ہوتا تھا کہ اگر آپ کو یہ لیٹر مل گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اب آپ منتخب کر لیے جائیں گے بلکہ یہ محض آپ کو ایک ٹیسٹ کا موقع فراہم کرتا ہے اور آپ فلاں تاریخ کو فلاں وقت ریڈیو سٹیشن اپنے خرچ پر تشریف لائیں۔ ڈرامہ سیکشن کے آڈیشنز ہفتہ وار ہوتے تھے مگر موسیقی کے آڈیشنز عام طور پر ایک ماہ بعد ہوتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی موسیقی کے آڈیشنز کے لیے باقاعدہ سازندوں کی بھی ضرورت ہوتی تھی اور ججز کے لیے موسیقی کے ایک دو اساتذہ کی بھی ضرورت ہوتی تھی۔ ان آڈیشنز میں اکثر جو لوگ آتے تھے ان کا گانا ایک آدھ منٹ سے زیادہ سننا محال ہو جاتا تھا کیونکہ گانے کے شوقین لوگ کم ہی ایسے ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ ان کو گانا نہیں آتا؛ تاہم ریڈیو والوں کی مجبوری تھی کہ سننا پڑتا تھا اور پھر اپنی ہنسی پر بھی کنٹرول کرنا پڑتا تھا۔ اس سب کے باوجود ایک دو آوازیں ایسی ضرور سامنے آتی تھیں جن کو سُر کی تھوڑی بہت پہچان ہوتی تھی۔
ان آوازوں کو ابتدائی طور پر سی کیٹگری میں Approve (منظور)کر لیا جاتا تھا۔ باقی لوگوں کو بذریعۂ ڈاک خطِ معذرت بھیج دیا جاتا تھا۔ یہ معذرتی خط بھی Lionel Fielden کی نگرانی میں تیار ہوا تھا۔ اس میں بھی نہایت ادب سے عرض کیا جاتا تھا کہ آپ کا بہت شکریہ! آپ نے زحمت کی اور آڈیشن کے لیے تشریف لائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ فی الوقت ہم آپ کی آوازمنظور نہیں کر سکے۔ آپ چاہیں تو چھ ماہ بعد پھر کوشش کر سکتے ہیں۔
ان آڈیشنز میں جو آوازیں سی کیٹگری میںمنظور ہوتی تھیں ان کو شروع میں شوقیہ گانے والوں کے پروگرام میں موقع ملتا تھا اور ان میں سے ہی چند ایک اگر بہتر گانے لگیں تو ان کی کیٹگری بی ہو جاتی تھی اور پھر عرصے بعد اے کیٹگری میں بھی چانس بن جاتا تھا۔ تاہم اکثریت سی کیٹگری سے آگے نہیں بڑھ پاتی تھی۔ یہی فنکار بعدازاں کورس کی آوازوں کے طور پر ریڈیو میں ریکارڈ ہونے والے نغموں کے لیے بک ہوتے رہتے تھے۔ بہت زیادہ شوق کسی شے کا بھی ہو نقصان ہی پہنچاتا ہے لیکن گانا گانے کا شوق تو بالکل کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ کورس کے فنکار جب ریڈیو کی کینٹین پر بیٹھے ہوتے تو ا ن کی آپس کی گفتگو میں اکثر آپ کو یہ سننے کو ملتا کہ فلاں بڑا فنکار بھی ہمارے ساتھ شوقیہ فنکاروں میں ہوتا تھا۔ ایسا کہتے ہوئے اس امید کا اظہار ہوتا تھا کہ ممکن ہے ہم بھی کبھی بڑے فنکار بن جائیں۔ ریڈیو کے انہی کورس فنکاروں میں سے کسی کو اگر فلمی کورس میں بکنگ مل جائے اور اس فلمی کورس میں سنگر نور جہاں یا مہدی حسن ہو تو وہ بڑے فخر سے اپنے ساتھیوں کو پورے گانے کی ریکارڈنگ روداد سناتا۔ ان کورس فنکاروں کی زندگی اسی طرح گزر جاتی ہے۔
ریڈیو میں کورس کی آوازوں کی کم مائیگی کا احوال اپنی جگہ، مگر اسی ادارے میں کبھی کبھی ایسے موقع بھی آئے کہ بڑے بڑے فنکاروں کو ایک گیت کی ریکارڈنگ کی میں کورس کی آوازوں کے طور پر شریک ہونا پڑا۔
مجھے یاد ہے ذوالفقار علی بھٹو شملہ مذاکرات کے لیے جا رہے تھے۔ انہوں نے لاہور کے ہوائی اڈے سے روانہ ہونا تھا۔ مولانا کوثر نیازی وزیر اطلاعات تھے۔ مجھے نہیں معلوم یہ کس کاآئیڈیا تھا مگر حکم یہ ملا کہ آرٹسٹ کورس کی شکل میں اس وقت ''ہے جمالو‘‘ گائیں گے جب بھٹو صاحب روانہ ہو رہے ہوں گے۔ ان بولیوں میں نمایاں آواز یعنی Lead singer سائیں اختر حسین ہوں گے اور کورس میں مہدی حسن‘ فریدہ خانم سمیت جتنے بھی نامور فنکار مہیا ہوں شامل ہوں گے۔ سلیم گیلانی صاحب اس پروگرام کے نگران تھے۔ وہ ریہرسل کے لیے ان سب فنکاروں کو لاہور کے ہوائی اڈے لے گئے۔ ان فنکاروں کے لیے زرق برق لباس بھی بنوائے گئے تھے۔ جن بولیوں پر ریہرسل ہوئی ان میں سے ایک بول مجھے آج بھی یاد ہے۔ وہ اس طرح تھی جسے سائیں اختر Lead کر رہے تھے۔
اُچا شملے دا پہاڑ نی ہے جمالو
اوتھے رج کے گلاں ہون گِیاں ہے جمالو
وج گج کے گلاں ہون گِیاں ہے جمالو
ہے جمالو۔ واہ واہ جمالو (کورس کی آوازیں بس ہے جمالو اور واہ واہ جمالو ادا کر رہی تھیں)
اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ شملہ کے اونچے پہاڑ پر جی بھر کے اور گھن گرج کے ساتھ بات چیت ہوگی۔
ریہرسل کے دوران کسی بڑے آدمی کو غالباً احساس ہوا کہ یہ زور شور قبل از وقت ہے۔ لہٰذا یہ پہلو جب گورنر مصطفی کھر تک اور پھر ان کے ذریعے بھٹو صاحب تک پہنچا تو یہ پروگرام کینسل ہو گیا؛ تاہم ریڈیو والے ان تمام فنکاروں کو ریڈیو سٹیشن لائے اور اسی ''ہے جمالو‘‘ کی ریکارڈنگ کرنے کے بعد تمام فنکاروں کی فیسیں ادا کر دی گئیں۔ گویا کورس کے فنکار اگرچہ انتہائی غیر اہم سمجھے جاتے ہیں مگر کبھی کبھی بڑے فنکاروں کو بھی کورس کی آوازوں میں شامل ہونا پڑتا ہے۔