میرے گھر میں لگے یو پی ایس میں بیٹری خراب ہو گئی تو ایک بیٹری والے کی دکان پر گیا ۔پرانی بیٹری دے کر نئی بیٹری کا سودا کیا ،نئی بیٹری چارج کروا کر گاڑی میں رکھی اور چلتے ہوئے دکاندار سے کہیں یہ کہہ بیٹھا کہ ہو سکتا ہے ،اس بیٹری کے بعد پھر کبھی بیٹری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔دکاندار نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا :''کیا ملک سے باہر جا رہے ہیں؟‘‘میں نے کہا :نہیں،ایسی بات تو نہیں ہے‘میرا کہنے کا مطلب تھا کہ حکومت ہزاروں میگاواٹ کے منصوبے شروع کر رہی ہے،لہٰذا توقع ہے کہ لوڈشیڈنگ دوایک برس میں ختم ہو جائے گی اور یہ جو نئی بیٹری لی ہے اس سے بھی توقع ہے کہ دو ایک برس تو چل ہی جائے گی۔دکاندار ،جو غور سے میری گفتگو سن رہا تھا،میری بات ختم ہونے کے بعد اس زور سے ہنسا کہ مجھے شرمندگی محسوس ہونے لگی۔دراصل میں نے دکاندار سے یونہی کہہ دیا تھا کہ ممکن ہے دوبارہ میں پرانی بیٹری دے کر نئی بیٹری لینے نہ آئوں۔ پھر میں نے سوچا کہ یہ بات کیوں میرے منہ سے نکلی۔نتیجہ یہ نکالا کہ دراصل یہ میری خواہش تھی ، جس کے اظہار نے مجھے دکاندار کی نظروں میں رسوا کر دیا۔
دکاندار کی ہنسی بالکل بجا تھی۔بھلا یہ لوڈشیڈنگ جلد ہمارا پیچھا چھوڑ سکتی ہے۔ہرگز نہیں۔موجودہ حکومت کے دعووں پر غالباً کم ہی لوگ یقین کر رہے ہیں لیکن چونکہ خواہش اس بات کی شدید ہے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے لہٰذا ایسے خوش گمان لوگ مل جاتے ہیں جو کہتے پھرتے ہیں کہ جلد ہی اس مسئلے پر قابو پا لیا جائے گا۔خواہش ہی کے زیر اثر میرے منہ سے ایسی غیر ذمہ دارانہ بات نکلی کہ رسوا کرا گئی۔لوڈشیڈنگ کے ضمن میں توانائی کے شعبے کے ماہرین کی گفتگو سن سن کر آپ یقینا تھک چکے ہوں گے۔ ایک ماہر جو بات کہتا ہے،دوسرا اس کی نفی کر دیتا ہے۔دلیل دونوں کے پاس وزنی ہوتی ہے۔کوئلے کے ملکی ذخائر کا ذکر سن سن کر کان پک چکے ہیں ،مگر ملک میں جو توانائی کے منصوبے لگ رہے ہیں ان میں درآمد شدہ کوئلہ استعمال ہو گا۔پانی سے ہم ہزاروں میگاواٹ سستی بجلی پیدا کر سکتے ہیں مگر کالا باغ ڈیم کو تو چھوڑیں کوئی دوسرا ڈیم بھی نہیں بن پایا،نہ بھاشا ڈیم نہ واسو ڈیم۔
مجھے یاد ہے کہ نوے کے عشرے میں جب آئی پی پیزکو کنٹریکٹ دیے گئے تو ہمارے ہاں اسی طرح ہر قسم کی آرا موجود تھیں۔بے نظیر بھٹو کی حکومت پر سخت تنقید کی جاتی تھی کہ ایسے معاہدے کئے گئے جو قومی مفاد میں نہیںہیں۔کمشن کھانے کے الزامات تو اب تاریخ کا حصہ ہیں۔اس دور میں غالباً 30ڈالر کا ایک بیرل تیل بین الاقوامی منڈی سے ملتا تھا،لہٰذا یہ معاہدے کافی حد تک قابل برداشت رہے۔سچی بات ہے مجھے آج تک معلوم نہیں ہوسکا کہ واقعتاً یہ معاہدے اس وقت قومی مفاد میں تھے یا نہیں لیکن توانائی کے شعبے میں سب سے زیادہ خوشحال یہی لوگ ہیں۔110ڈالر کا ایک بیرل تیل ہوجانے سے حکومت کی تو کمر ٹوٹ گئی ہے مگر بجلی والوں کے منافع کو آپ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عیش ہو رہے ہیں ۔اس تجربے کی روشنی میں جب موجودہ حکومت کے کوئلے سے پیدا کرنے کے منصوبوں پر غور کرتا ہوں تو بات یہی سمجھ میں آتی ہے کہ اپنے کوئلے کے ذخائر تو بس بیانات تک ہی محدود رہیں گے ۔ان منصوبوں کے لیے کوئلہ درآمد ہی ہو گا۔آج کل بین الاقوامی منڈی میں کوئلے کا جو بھائو ہے اس سے ممکن ہے ایسی قیمت پر بجلی پیدا ہو جائے جو ہمارے ملک کے لیے فی زمانہ قابل برداشت ہو بالکل اسی طرح جیسے 1990ء کے عشرے میں آئی پی پیز کے لیے 30ڈالر بیرل کی قیمت قابل برداشت تھی۔لیکن جس طرح تیل کی قیمت اب 110ڈالر بیرل ہو چکی ہے اگر چند برسوں میں بین الاقوامی منڈی میں کوئلے کی قیمت بھی دوگنا یا تین گنا ہو گئی تو پھر ہم کیا کریں گے۔اسی طرح ان کو بھی بھگتیں گے جس طرح دوسروں کو کو بھگت رہے ہیں۔
اگر آپ کے دل میں یہ خیال آ رہا ہے کہ ممکن ہے اس وقت تک ہمیں اپنے ملکی ذخائر سے کوئلہ دستیاب ہو جائے تو اس خیال کو دل سے نکال دیں ۔ جو لوگ ،بھلے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا غیر ممالک کے‘کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے۔محترم آصف زرداری کے دور میں کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں سے ہم نے نقصان اٹھایا اور اب یہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے بھی ہمیں نقصان ہی پہنچائیں گے۔
یہ جاننے کے لیے کوئی ماہر ہونا ضروری نہیں کہ پاکستان کے توانائی کے مسائل کا حل محض اس بات میں ہے کہ سستی توانائی پیدا کی جائے۔ ہمارے ہاں وہ صرف پانی سے بجلی پیدا کر کے ممکن ہے۔پن بجلی کے منصوبوں کا ہم ذکر تو بہت سنتے ہیں۔کالا باغ ڈیم کی بحث سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے اگرچہ یہ مسئلہ نہ بڑوں کی سمجھ میں آتا ہے اور نہ چھوٹوں کی مگر حقیقت یہ ہے کہ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کے بعد ہم نے ایسا کوئی تیسرا ڈیم نہیں بنایا۔صرف تیسرے ڈیم کاکالا باغ ڈیم کے طور پر محض ذکر ہی کیا ہے۔
ستر کا عشرہ گزرا‘اسی کا عشرہ ‘ پھر نوے کا عشرہ ‘ پھر اس صدی کا پہلا عشرہ اور اب ہم اس صدی کے دوسرے عشرے میں آ چکے ہیں۔پانی سے بجلی پیدا کرنے کی باتیں ہی سن رہے ہیں۔اب حکومت واسو ڈیم اور بھاشا ڈیم بنانے کی بات کر رہی ہے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ توجہ کوئلے سے چلنے والے کارخانوں کے قیام کی طرف ہے۔
آج کل سیاسی میدان میں حکومت وقت پر مخالف جماعتوں کا دبائو بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔دو ہی نتیجے نکل سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس حکومت کی چھٹی ہو جائے یا پھر یہ کہ مخالفین دب کر بیٹھ جائیں۔پہلی صورت میں جو نئی حکومت آئے گی اس کے عزائم کو بھگتنے کے لیے تیار رہیں اور دوسری صورت میں اگر یہی حکومت رہتی ہے تو پھر تیل کے اجارہ داروں کے بعد کوئلے کے اجارہ داروں کو بھگتیں ۔لوڈشیڈنگ پھر بھی رہے گی ،کم ضرور ہو سکتی ہے، کیونکہ توانائی کے بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ٹرانسمشن لائنوں کا نظام ہمارے ہاں اس قدر پرانا ہے کہ اگر لوڈشیڈنگ کے ذریعے اس نظام کی تھکاوٹ دور نہ کی جاتی رہے تو یہ چل ہی نہیں سکتا۔موجودہ حکومت کی طرف سے جس حساب سے بجلی کی قیمتیں بڑھائی جا رہی ہیں تو اس کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بل کے خوف سے آپ خود ہی گھر میں بجلی بند کر کے بیٹھے رہیں اور حکومت کی طرف سے ایسے اشتہار چلنے شروع ہو جائیں جن میں زیادہ سے زیادہ بجلی استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہو،کیونکہ جب طلب برائے نام رہ جائے گی تو کم مقدار میں پیدا ہونے والی بجلی بھی ملک میں وافر ہو جائے گی اور وزارت بجلی کی اشتہاری مہم میں ایسے بینر بھی دکھائی دے سکتے ہیں جن پر تحریر ہو گا''ہم تومائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں‘‘