"ARC" (space) message & send to 7575

انٹرویو اور بڑی خبر

آئی ایس پی آرکے سابق ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ میجر جنرل اطہر عباس کا بی بی سی کو اپنا مشہور و معروف انٹرویو دینے کے بعد وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ بی بی سی کے رپورٹر شمالی وزیرستان میں آپریشن پر ایک مفصل رپورٹ بنا رہے تھے جس کے لیے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ یہ آپریشن پہلے کیوں نہ کیا جا سکا ان کی کہی ایک بات نے (one of his comments)ان کے بقول ''بدقسمتی سے ایک بہت بڑی خبر (lead story)بنا دی‘‘۔آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ضمن میں ان کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ وزیرستان آپریشن میں تاخیر کی قوم نے جو قیمت ادا کی ہے اس کی ہمیں ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔اس انٹرویو میں بھی انہوں تسلیم کیا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے امریکہ کی طرف سے اصرار کیا جانا مسائل کا باعث تھا۔آپریشن ضرب عضب کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ۔اس آپریشن کی کامیابی کے بارے میں پُرامید ہیں؛ تاہم ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس آپریشن کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب حکمت عملی ہونی چاہیے۔
مجھے اس انٹرویو میں ریٹائرڈ میجر جنرل اطہر عباس کا یہ جملہ بہت دلچسپ محسوس ہوا جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ بدقسمتی سے ان کی کہی ہوئی ایک بات ایک بہت بڑی خبر بن گئی ۔آئی ایس پی آر جیسے ادارے میں اتنا عرصہ کام کرنے کے بعد بھی اگر موصوف کو اندازہ نہیں تھا کہ جو بات وہ کہنے جا رہے ہیں اس کی کیا اہمیت ہے تو اس پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔
فوج تو ہمارے ہاں ملک کا سب سے منظم اور بہت بڑا ادارہ ہے جبکہ اس قسم کا تبصرہ تو ہمارے کسی چھوٹے اور نسبتاً غیر منظم ادارے کے بارے میں بھی اگر کیا جائے تو اس کو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ کسی ادارے میں کوئی شخص کتنا ہی باخبر کیوں نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی بڑے فیصلے کے پیچھے موجود تمام عوامل کا اس کو علم ہو۔لہٰذا سمجھداری کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ایسے تبصروں سے گریز کیا جائے۔
جہاں تک رپورٹروں کا تعلق ہے تو وہ ہر حربہ آزماتے ہیں کہ ان کو کوئی ایسی خبر مل جائے جو ہلا کے رکھ دے۔مجھے نہیں معلوم کہ کیا صورتحال تھی جس میں محترم ریٹائرڈ میجر جنرل اطہر عباس صاحب نے وہ بات کہہ دی جو ان کے بقول بدقسمتی سے ایک لیڈ سٹوری بن گئی ،لیکن مجھے اس میں کافی کمال اس رپورٹر کا لگتا ہے جس نے بی بی سی کے لیے اطہر عباس صاحب کا انٹرویو کیا۔
مغربی دنیا میں تو (kiss and tell books)کی روایت موجود ہے۔اس میں kissسے مراد ہوتی ہے to kiss goodbyeاور tellسے مراد ہوتی ہے اپنے پاس موجود دلچسپ معلومات بتا دینا یعنی عہدے سے فارغ ہونا اور پھر راز کھولنا ۔ ایسی کتابیں وہ عہدیدار لکھتے ہیں جب وہ کسی عہدے سے فارغ ہو جاتے ہیں تو وہ ان معلومات سے مالی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں،جو عہدے پر کام کرنے کے دوران ان کے علم میں آتی ہیں۔اگرچہ یہ عمل خیانت شمار کیا جاتا ہے مگر مغربی دنیا میں بہت لوگ ہیں جو یہ خیانت کر چکے ہیں۔کوئی بڑا عہدیدار فارغ ہو‘ یا عہدے سے برطرف کر دیا جائے یا خود استعفیٰ دیدے تو اس کے پاس بڑے بڑے پبلشرز پہنچتے ہیں اور اپنی یادداشتیں لکھنے کے لیے اس عہدیدار کو بھاری رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔پبلشرز یہ تک سہولت دینے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ وہ عہدیدار بس انٹرویو کی شکل میں گفتگو کر دے کتاب وہ کسی اورشخص سے لکھوا لیتے ہیں۔ہمارے ہاں kiss and tell booksکی روایت اس طرح کی تو نہیں ہے جیسی مغربی دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں بعض عہدیدار ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یادداشتیںتحریری شکل میں شائع ضرور کروا چکے ہیں۔تاہم کسی تحریر نے آج تک تہلکہ نہیں مچایا اور نہ ہی وہ لیڈ سٹوری بنی ہے ۔اس لحاظ سے ریٹائرڈ میجر جنرل اطہر عباس کا انٹرویو منفرد ہے۔ میرے حافظے میں ایک اور انٹرویو ہے جو لیڈسٹوری بنا تھا مگر اس کی صورت کافی مختلف تھی اس انٹرویو کا اطہر عباس صاحب کے انٹرویو سے موازنہ نہیں ہو سکتا ۔اس انٹرویو کی تفصیل کچھ یوں تھی۔
1982ء میں جب اردو کے معروف شاعر جوش ملیح آبادی کا انتقال ہوا تو اگلے روز اخبار میں ابوالاثر حفیظ جالندھری کا اس سانحے پر جو تبصرہ چھپا اس کا مفہوم کچھ اس طرح کا تھا کہ مذہب کا دشمن رخصت ہو گیا ہے۔یہ تبصرہ bad tasteمیں تھا اور غالباً اسی وجہ سے یہ تبصرہ بڑی خبر کے طور پر صفحہ اول پر شائع ہوا تھا۔ان دنوں حفیظ صاحب ریڈیو سٹیشن باقاعدگی سے آیا کرتے تھے کیونکہ میں ان کی زندگی اور کارناموں پر ایک دستاویزی پروگرام تیار کر رہا تھا۔
ریڈیو میں یہ پرانی روایت رہی ہے کہ کسی شعبے کی کوئی بھی انتہائی معروف شخصیت جب عمر رسیدہ ہو جائے تو ان کی زندگی میں ہی ان کے کارناموں پر مبنی دستاویزی پروگرام ان کے تعاون سے تیار کر لیا جاتا تھا، جس کو اس شخصیت کی سالگرہ کے دن نشر کر کے سنبھال کے رکھ لیا جاتا تھا کہ جب اس شخصیت کا انتقال ہو تو یہی پروگرام پھر تعزیتی پروگرام کے طور پر کام آ سکے۔
اسی غرض سے مجھے اپنے سٹیشن ڈائریکٹر سلیم گیلانی کا حکم ملا تھا کہ حفیظ جالندھری صاحب کی سالگرہ آ رہی ہے اور اس کے لیے ایک خصوصی دستاویزی پروگرام تیارکرو۔ جب جوش ملیح آبادی کی موت پر حفیظ صاحب کا مذکورہ تبصرہ چھپا تو انہی دنوں میں نے موقع جان کر حفیظ صاحب سے پوچھ لیا کہ آپ کو کیا ضرورت تھی ایسا منفی بیان دینے کی۔
حفیظ صاحب کی عادت تھی کہ کوئی بات اگر سنجیدگی سے کسی کو بتانی ہو تو پہلے اس کی کلائی مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے۔لہٰذا انہوں نے ایسا ہی کیا۔میری کلائی مضبوطی سے پکڑی اور بولے
''برخوردار میں تو کچھ بھی کہنا نہیں چاہتا تھا۔ہوا یہ کہ ایک رپورٹر نے مجھے رات دس بجے فون کیا اور کہا کہ جوش ملیح آباد کا انتقال ہو گیا ہے آپ کچھ کہنا چاہیں گے۔میں نے معذرت کر لی ۔میں نے کہا میں کچھ نہیںکہنا چاہتا ۔اس کے بعد اسی رپورٹر نے پھر مجھے گیارہ بجے فون کیا۔میں نے پھر معذرت کر لی‘‘یہ کہنے کے بعد بولے کہ میں رات کو ساڑھے گیارہ اور بارہ کے درمیان سو جاتا ہوں۔ہوا یہ کہ ابھی میری آنکھ لگی تھی کہ پھر اس رپورٹر نے فون کر کے جوش ملیح آبادی کے بارے میں کچھ کہنے پر اصرار کیا۔خاموش ہو گئے پھر بولے ۔پھر کیا تھا مجھے سخت غصہ تھا ۔میں نے اس رپورٹر کو بھی سنائیں اور جوش کے بارے میں وہ باتیں منہ سے نکل گئیں جو شائع ہوئی ہیں۔اس رپورٹر نے وہ تو نہیں چھاپا جو کچھ میں نے اس کو کہا تھا ۔جوش کے بارے میں جو کہا تھا چھاپ دیا۔کہنے لگے صبح اخبار میں دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ اخبار کے ایڈیٹر سے شکایت کروں کہ دوستوں کے فون آنے شروع ہو گئے۔ہر کوئی میری جرات کی داد دے رہا تھا۔ بس جب اس قدر تعریفیں ہوئیں تو میں پھر خاموش ہو گیا۔تو یہ کہانی ہے اس انٹرویو کی جو ایک رپورٹر نے زبردستی کیا،اس کو انٹرویو بھی نہیں کہا جا سکتا۔لیکن 1982ء میں وہ لیڈ سٹوری بن گیا تھا ۔ اطہر عباس صاحب کے انٹرویو کے حالات اگرچہ یکسر مختلف ہیں۔لیکن یہ ماننا مشکل ہے کہ اس کا کوئی پس منظر نہیں ہو گا کیونکہ ایسی اہم بات کہ ملک کے ایک چیف آف آرمی سٹاف کی وجہ سے وزیرستان آپریشن نہ ہو سکا بر سبیل تذکرہ یا (one of the comments)نہیںہو سکتی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں