ہمارے محترم وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ اس برس 14اگست کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر جشن آزادی کی تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ ان کی حکومت نے گزشتہ برس ہی کرلیا تھا۔ اس کا پس منظر انہوں نے یہ بیان کیا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک پر جشن آزادی کی تقریب کے دوران پرچم کشائی کی روایت موجود تھی جس کو اس برس ان کی حکومت نے زندہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
14اگست کو پرچم کشائی کی جس روایت کا انہوں نے ذکر کیا ہے اس کا احوال یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے ابتدائی دور میں سماجی اور معاشرتی سطح پر ایک افسردگی کا احساس پورے ملک میں اس قدر عیاں تھا کہ وہ فوجی حکمرانوں کو بھی محسوس ہوتا تھا۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت میں اس قدر شور شرابا رہتا تھا اور گہما گہمی دیکھنے میں آتی تھی کہ پاکستانی عوام میلوں ٹھیلوں کے کچھ عادی سے ہوگئے تھے۔ مارشل لاء آیا تو سب کچھ ختم ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے احتجاج کا اس قدر خوف تھا کہ فوجی حکومت نے اقبال کے صد سالہ جشن کی جاری تقریبات کے اختتامی سیشن بھی سخت سکیورٹی میں منعقد کرائے تھے حالانکہ اس دور میں تقریبات کے لیے کوئی خاص سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بہرحال جب ضیا حکومت کو تسلی ہوگئی کہ اب ان کو کسی ممکنہ احتجاج کا خطرہ نہیں ہے تو پھر یہ سوچا گیا کہ ملک بھر میں یہ جو ایک مردنی سی چھائی رہتی ہے اس کا کیا مداوا کیاجائے اور ایسے کیا قدم اٹھائے جائیں کہ سماجی اور معاشرتی سطح پر گہما گہمی دکھائی دے۔ اس غرض سے اس دور کے پراپیگنڈہ ماہرین نے یہ سکیم بنائی کہ 14اگست کادن بھرپور انداز میں منایاجائے۔
یہ ایک جامع پروگرام تھا جس میں سب سے پہلے پاکستانی پرچم کو استعمال کیاگیا۔ یاد رہے کہ اس دور سے پہلے پاکستانی پرچم کی اسقدر عزت و تکریم تھی کہ اس کو محض ان سرکاری اور قومی عمارتوں پر لہرایا جاسکتا تھا جن کی حکومت نے سوچ سمجھ کر اجازت دے رکھی تھی۔ ایسی عمارتوں کی تعداد انتہائی کم تھی اور پرچم لہرانے اور سرنگوں کرنے پر عملہ متعین ہوتا تھا۔ ان کے علاوہ وزراء وغیرہ کی گاڑیوں پر قومی پرچم ہوتا تھا۔ ضیا حکومت نے پہلا کام یہ کیا کہ جشن آزادی پر عام عوام کو گھروں پر پرچم لہرانے کی اجازت دے دی جو غالباً آج تک موجود ہے۔ اس آزادی کے بعد ضیا حکومت نے تمام سرکاری محکموں کو یوم آزادی کی تقریبات منعقد کرانے کے احکامات جاری کیے۔ جنرل ضیا الحق نے فیصلہ کیا کہ 14اگست کی صبح ایک خاص وقت پر غالباً آٹھ بجے ،پورے ملک میں ،ٹریفک جہاں ہوگی رک جائے گی اور تمام پاکستانی بلند آواز میں قومی ترانہ پڑھیں گے۔ بیرون ملک سفارتخانوں کو بھی یہی حکم تھا۔
خود وہ قومی ترانہ پڑھنے اور پرچم کشائی کے لیے جس تقریب میں شریک ہوتے تھے ،وہ اس مقام پر منعقد ہوتی تھی جس کو آج کل ڈی چوک کہا جاتا ہے۔ یہ تقریب ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر ہوتی تھی۔ اس تقریب کے علاوہ تمام صوبوں میں ایسی ہی تقریبات ہوتی تھیں۔ محکموں کے سربراہوں کو حکم تھا کہ وہ بھی اپنے اپنے محکموں کے دفاتر میں اسی طرح کی پرچم کشائی کی تقریبات منعقد کریں۔ ان تمام تقریبات میں سکولوں کے بچے بچیاں بھی مدعو ہوتے تھے جو بینڈ کے ساتھ قومی ترانہ گاتے تھے اور ملی نغمے پیش کرتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی وژن تو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ملی نغموں کے مقابلوں کا اعلان کریں اور بہترین ملی نغمہ لکھنے والے شعراء کو انعامات دیں۔ اسی طرح ملی نغمے گانے والوں اور موسیقاروں کو بھی انعامات دیے جاتے تھے۔ ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ حکومت نجی شعبے کو بھی اس کام میں ہاتھ ہٹانے پر آمادہ کرتی تھی تاکہ ملک میں گہما گہمی دکھائی دے۔ اگرچہ 14اگست کو چراغاں کی روایت پرانی تھی مگر ضیا دور میں اس کو اور بھی مضبوط کیاگیا اور ضلعی سطح کے دفاتر کے سربراہان سے بھی کہا گیا کہ وہ یوم آزادی پر اپنے اپنے دفتروں پر چراغاں کریں۔ اس کے لیے خصوصی فنڈز بھی مہیا کیے گئے۔یہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا اور اگرچہ 14اگست والے دن ایک معینہ وقت پر ٹریفک سمیت سب کا رک جانا اور تمام پاکستانیوں سے توقع کرنا کہ وہ کورس میں قومی ترانہ گائیں گے کافی عجیب تقاضا تھا کیونکہ نہ تو ٹریفک رکتی تھی اور نہ وہ منظر دکھائی دیتا تھا کہ لوگ سڑکوں پر قومی ترانہ گارہے ہیں مگر گھروں پر پرچم لہرانے اور گلیوں بازاروں میں جھنڈیوں اور بڑے جھنڈوں کی فروخت اور جگہ جگہ لائوڈ سپیکروں پر ملی نغموں وغیرہ کی مدد سے گہما گہمی کا مقصد پورا ہوچکا تھا۔ اب فوجی حکومت کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ 14اگست تو گزر گیا اب کیا کیا جائے کہ قوم کسی اور ایسی ہی سرگرمی میں مشغول ہوجائے۔
جنرل ضیا الحق کا مذہب پر بہت زور تھا اور قبلہ درست کرنے کا ذکر بھی اکثر کیا کرتے تھے۔ قبلہ درست کرنے کا زیادہ کام انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے ذمے لگا رکھا تھا۔ ایک ٹی وی انائونسر اظہر لودھی اور معروف کمپیئر طارق عزیز جنرل صاحب کو بہت پسند تھے۔ مجھے یاد ہے کہ فیصل آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے پاکستانیوں کا قبلہ درست کرنے کے حوالے سے خدمات انجام دینے والوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا اور یہ ان کے الفاظ ہیں۔ '' یہ اظہر لودھی، یہ طارق عزیز ، یہ شخصیات نہیں یہ ہستیاں ہیں۔ ‘‘واضح رہے کہ اظہر لودھی اور طارق عزیز کی مبینہ خدمات محض ٹی وی سکرین تک محدود تھیں وہ بھی سرکاری ٹی وی کی سکرین تک کیونکہ نجی شعبے میں تو نہ ریڈیو تھا اور نہ ہی ٹی وی۔
اس پس منظر میں جب ضیا حکومت کے پراپیگنڈہ ماہرین سرجوڑ کربیٹھے تو انہوں نے جس طرح 14اگست کی تقریبات کو یکم اگست سے 14اگست تک پھیلا کر دو ہفتوں پر محیط کردیا تھا اسی طرح انہوں نے جشن عید میلادالنبیؐ کی بارہ ربیع الاول کو ہونے والی تقریبات کو یکم سے بارہ ربیع الاول تک پھیلادیا۔ جشن آزادی کے حوالے سے جو تجربات موجود تھے ان کا بھرپور فائدہ اٹھایاگیا۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر سیرت کانفرنسوں کا انعقاد ہونے لگا۔ریڈیو اورٹی وی سے پورے بارہ دن خصوصی نشریات جن میں سیرت پاک کے مختلف پہلوئوں پر سیمینار، نعتیہ مشاعرے روزانہ ہی پیش ہوتے تھے۔
ملک کے اندر یہ سب کچھ ہورہا تھا اور ہمارے لوگ اس بارے میں تقریباً بے خبر ہی تھے کہ ضیا الحق ، افغانستان میں جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ ہمیں کہاں لے جارہی ہے۔ اب اگر موجودہ حکومت جیسا کہ پرویز رشید صاحب نے فرمایا ہے اسی روایت کو زندہ کررہی ہے تو ان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس روایت کے اصل مقاصد کیا تھے۔ ظاہر ہے وہ مقاصد اس حکومت کے تو نہیں ہیں مگر ان کے بھی اصل مقاصد کچھ اور ہیں جو پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے احتجاجی لانگ مارچ کے اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں اور چھپانے سے چھپ نہیں سکتے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس برس اسلام آباد کے ڈی چوک پر 14اگست کو پرچم کشائی کی تقریب کیوں منعقد ہورہی ہے۔