"ARC" (space) message & send to 7575

سیاسی حکومتیں اور ادارے

میں نے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ مضبوط ادارے جمہوریت کے ستون ہوتے ہیں اور چونکہ ہمارے ملک میں شہری آزادیوں کے موثر ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اس لیے جمہوریت یہاں کمزور اور ڈانوا ڈول ہی رہتی ہے۔ اس کالم کے حوالے سے قارئین کی طرف سے یہ تنقید کی گئی کہ ہر کوئی اداروں کی مضبوطی کی بات کرتا ہے۔ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ادارے مضبوط کیسے ہوں۔ میں اپنے آپ کو کوئی سوشل سائنٹسٹ (Social Scientist) تو نہیں سمجھتا لیکن اپنی سوچ سے ضرور قارئین کو آگاہ کر سکتا ہوں۔ 
ہمارے ملک میں اداروں کی مضبوطی کی بات سمجھنی ہو تو سب سے پہلے ہمیں مسلح افواج کے اپنے ادارے کی ساخت پر غور کرنا چاہیے اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کس طرح اس ادارے نے اپنی مضبوطی کو قائم رکھا ہوا ہے۔ دیگر تمام اداروں کی طرح مسلح افواج کے سربراہوں کی تعیناتی بھی وزیراعظم پاکستان کے قلم سے ہوتی ہے اور اس ادارے نے کبھی بھی وزیراعظم کے اس حق کو چیلنج نہیں کیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مسلح افواج کا ادارہ کبھی بھی حکومت کی کٹھ پتلی بننے پر تیار نہیں ہوا۔ اس ادارے میں میرٹ پر کام ہوتے ہیں اور اس کی قیادت کو کبھی خطرہ نہیں ہوتا کہ ان کی حالت ویسی ہو سکتی ہے جیسی اکثر سویلین اداروں کے سربراہوں کی ہو جاتی ہے۔ سویلین اداروں میں چونکہ میرٹ کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے اور منتخب نمائندے ان اداروں میں مسلسل مداخلت کرتے رہتے ہیں لہٰذا ان اداروں کے پاس حکومت کی کٹھ پتلی بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ 
اس کے برعکس فوج کے ادارے نے اپنے آپ کو ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے بچا کر رکھا ہوا ہے اور اگر کوشش ہوتی ہے تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ یہ منہ توڑ جواب فوج میں موجود اس ادارے کی روایات دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مضبوط ادارے کی مثال ایک Pyramid کی طرح ہوتی ہے اور اس کی سب سے ا وپر کی جو آخری اینٹ ہوتی ہے اس کی حیثیت اس ادارے کے سربراہ کی ہوتی ہے۔ یہ اینٹ اگرچہ دیکھنے میں ایک ہوتی ہے مگر سارا Pyramid اس کے نیچے ہوتا ہے۔ اس مثال کی روشنی میں آپ اپنی بّری فوج پر نظر ڈالیں تو یہ آخری اینٹ اس ادارے کا چیف آف آرمی سٹاف ہوتا ہے جس کے ماتحت تمام Pyramid ہوتا ہے۔ اس ادارے کی یہی مضبوطی ہے جو ہمارے دشمنوں کی نظر میں بھی کھٹکتی ہے۔ 
ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت بجائے اس کے کہ دیگر اداروں کو بھی اسی طرح مضبوط ہونے میں مدد دے‘ الٹا فوج کو کمزور کرنے پر تلی دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حکومت اور فوج کے باہمی کھچائو کی جو باتیں ہوتی ہیں ان کے پس منظر میں بھی آپ کو حکومت کا یہی طرزِ عمل دکھائی دے گا۔ پچھلی حکومت میں جو میموگیٹ سکینڈل سامنے آیا تھا وہ بھی حکومت وقت کے اس رویے کا غماز تھا۔ اسی طرح یہ بھی بھونڈی سی کوشش ہوئی تھی کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کو رحمن ملک کی وزارت داخلہ کے ماتحت کردیا جائے۔ سول حکومت کے اس مائنڈ سیٹ کی اور بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ 
اب آیئے اس طرف کہ ہمارے ہاں دیگر ادارے کیسے مضبوط ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے حکومت کو اور حکومت کرنے والے منتخب نمائندوں کے ذہنوں سے یہ بات نکالنی ہوگی کہ وہ حکمران ہیں اور باقی سب ان کی رعایا ہیں۔ اگر حکمران ملک کی خدمت کے جذبے سے آگے بڑھیں تو ان کو فوج کے ادارے کی مضبوطی سے سبق لیتے ہوئے دیگر اداروں کو بھی اسی قسم کی خودمختاری دینی چاہیے۔ مگر حکمرانوں میں خدمت کا جذبہ کہاں۔ ان کے تو سامنے کھڑا ہونا پڑے گا۔ 
ہمارے ہاں پولیس کے محکمے صوبوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اگر وزرائے اعلیٰ اپنے اپنے صوبوں میں انسپکٹر جنرل پولیس متعین کر کے پھر ان کی کارکردگی میں مداخلت چھوڑ دیں اور پولیس کے افسران بھی حکومت کی کٹھ پتلیاں بننے کے بجائے فوج کی طرح اپنے ہاں میرٹ کا نظام رائج کریں اور سیاسی دبائو کو بالکل قبول نہ کریں تو پولیس کا ادارہ نہ صرف مضبوط ہو جائے گا بلکہ ہمارے نظم و نسق کے مسائل بھی بڑی حد تک کم ہو جائیں گے۔ 
اب یہ کام کیسے ہو؟ 
اس کی ایک مثال تو بالکل ماضی قریب کی ہے کہ کس طرح عدلیہ نے حکومتِ وقت کی کٹھ پتلی بننے سے انکار کیا اور وکلاء اور سول سوسائٹی کی بھرپور مہم کے بعد اپنی صورتحال خاصی بہتر کر لی۔ عدلیہ کی اس آزادی کی تحریک کا نکتہ آغاز سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کا جرات مندانہ طرزِ عمل تھا جو بعدازاں ایک تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ موصوف کا بحالی کے بعد کا کردار اب کچھ متنازع بنا کر بھی پیش ہوتا ہے مگر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ موضوع یہ ہے کہ ادارے کو مضبوط ہونے کے لیے خود ہی انگڑائی لینا پڑتی ہے۔ 
لہٰذا پولیس کے ادارے کو اگر مضبوط ہونا ہے تو اس کے لیڈروں کو یعنی اعلیٰ ترین افسروں کو ہی سٹینڈ لینا ہوگا۔ ان کو وزرائے اعلیٰ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ وہ اپنے محکمے میں سیاسی مداخلت کسی طور برداشت نہیں کریں گے۔ اگر ان کو او ایس ڈی بنایا جاتا ہے تو بن جائیں۔ آخر وزیراعلیٰ کتنے افسروں کو او ایس ڈی بنائے گا۔ جب میں نے تہیہ کیا ہو تو پھر پہلی کامیابی حاصل ہوگی۔ اور جس وقت یہ پہلی کامیابی حاصل ہو جائے یعنی سیاسی حکومت کی مداخلت کم سے کم یا ختم ہو جائے تو پھر دوسری کامیابی یوں حاصل ہوگی کہ میرٹ کا نظام اسی طرح نافذ کیا جائے جس طرح فوج میں موجود ہے۔ میرٹ کے نظام کا نفاذ نہ صرف پولیس کے ادارے کو مضبوط کرے گا بلکہ اس حاصل کردہ آزادی کی بھی حفاظت کرے گا اور کسی سیاسی حکومت کو جرأت نہیں ہوگی کہ وہ صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو اپنی انگلیوں پر نچائے۔ 
مسائل پھر بھی رہیں گے مگر اس طرح سمت درست ہو جائے گی اور آہستہ آہستہ صورتحال میں بہتری ہی دیکھنے میں آئے گی۔ 
اسی طرح ملک میں جتنے دوسرے بڑے ادارے ہیں ان کے سربراہوں کو جو کہ پروفیشنل ہوں یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ 
تو جناب طریقہ تو یہی ہے۔ یعنی ادارے تبھی مضبوط ہوتے ہیں جب ان کے اندر سے مضبوطی آتی ہے۔ باہر سے آ کر کوئی سیاسی شخصیت اس ادارے کو اپنی پارٹی کے منشور پر چلنے کا کہہ تو سکتی ہے مگر حتمی فیصلہ ادارہ خود ہی کرے گا کہ کس حد تک تبدیلی کا وہ متحمل ہو سکتا ہے۔ 
جب پاکستان بنا تو ہمارے ا دارے کافی مضبوط ہوتے تھے۔ میرا تعلق ریڈیو پاکستان سے رہا ہے۔ ایوب خان کے دور میں جب ہمارے امریکہ سے اچھے تعلقات تھے تو مبینہ طور پر امریکیوں کی تجویز پر ریڈیو پاکستان پر اشتہارات نشر کیے جانے کا کہا جانے لگا۔ وزارت اطلاعات کو ریڈیو پاکستان کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل رشید احمد صاحب کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا رہا۔ کافی دیر تک رشید احمد صاحب نے وزارت اطلاعات کو دلائل کی مدد سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ فیصلہ درست نہ ہوگا؛ تاہم آخر کار انہوں نے صرف محدود پیمانے پر کمرشل سروس کا اجراء کرنے کی ہامی بھری۔ اس پس منظر کے باوجود جس افسر کو کمرشل سروس شروع کرنے پر مامور کیا اس کو بلا کر کہا کہ میں تو ذاتی طور پر اس فیصلے کے خلاف ہوں مگر تم انتہائی دیانت داری سے اس فیصلے پر عملدرآمد کرنا کیونکہ ممکن ہے میری بات غلط ثابت ہو جائے۔ 
آج کل ہمیں اپنے اداروں میں ایسے افسروں کی ضرورت ہے جو حکومت کے فیصلوں کو چیلنج کر کے سیاسی رہنمائوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ منتخب ہونے والے لوگ عقلِ کُل نہیں ہوتے۔ ایک شخص جس نے ایک محکمے میں پچیس تیس سال گزارے ہوں وہی اس محکمے کی مضبوطی اور بہتری کا کام کر سکتا ہے۔ سیاسی حکومتیں تو ہمارے ہاں اداروں میں مداخلت کی خواہاں ہی رہیں گی مگر ضرورت اس بات کی ہے جس طرح سیاستدانوں کو فوج اپنے ادارے میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتی اسی طرح دیگر سرکاری اداروں کو بھی مضبوط اور خودمختار ہونا چاہیے اور اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنی چاہیے۔ سیاسی حکومتیں خود کبھی بھی اداروں کو مضبوط نہیں کریں گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں