"ARC" (space) message & send to 7575

نئے انتخابات کا مطالبہ

بش جونیئر جب پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب لڑے تو ان کے مدمقابل امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے مضبوط امیدوار ایل گور تھے جنہوں نے آٹھ برس تک صدر بل کلنٹن کے ساتھ بطور نائب صدر کام کیا تھا۔ امریکہ میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ایل گور جیت گئے تھے مگر امریکی ریاست فلوریڈا میں ایل گور کے حق میں امریکی سیاہ فاموں کے ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے معاملہ بگڑ گیا۔ پہلے بات ریاست فلوریڈا کی سپریم کورٹ تک پہنچی جہاں سے ایل گور کے حق میں فیصلہ آیا مگر بعدازاں ری پبلکن پارٹی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سپریم کورٹ پہنچ گئی اور وہاں فیصلہ بش کے حق میں ہو گیا، جس کی وجہ سے یہ بتائی جاتی ہے کہ سپریم کورٹ میں ججوں کی اکثریت ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدور کی نامزد کردہ تھی۔ اب اگر ایل گور ہمارے محترم عمران خان والا طرزعمل اپناتے تو امریکہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہوتی۔ مگر ایل گور نے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے ملکی مفاد میں اتنی بڑی زیادتی برداشت کر لی ،ٹیلی فون اٹھایا اور جارج بش کو صدر کا انتخاب جیتنے پر مبارکباددی۔ 
امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے پُرجوش کارکن بہت مایوس ہوئے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اگر ڈیموکریٹک کی قیادت جارج بش کو صدر نہ تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیتی تو وہ لوگ خوشی سے ناچنے لگتے مگر قائدین کا یہ کردار نہیں ہوتا کہ پُرجوش کارکنوں کی سوچ کے مطابق فیصلے کریں۔اس دور میں ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین کی طرف سے اس موقف کا اظہار ہوتا تھا کہ انتخابات کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ قائدین کو منتخب کیا جائے اور جب یہ عمل مکمل ہو جائے تو اس میں مخل ہونے کے بجائے انتخابی عمل کا پوسٹ مارٹم کرنا چاہیے اور اگر اس عمل میں غلطی پائی جائے تو اس کی اصلاح کے لیے قانون سازی کی کوشش ہونی چاہیے تاکہ آئندہ اس غلطی سے بچا جا سکے۔ ہر لیڈر اس بات پر زور دیتا دکھائی دیتا تھا کہ امریکہ میں چار برس بعد جو قیادت کی تبدیلی کا موقع ہوتا ہے اس میں تسلسل قائم رہے ۔اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری امریکی قوم کو بش جونیئر کو صدر قبول کرنا پڑا ۔بش جونیئر کا ہنگامہ خیز دور شروع ہوا اور انہوں نے جب بے بنیاد رپورٹوں کے سہارے عراق پر فوج کشی کا فیصلہ کیا تو دنیا کے دیگر ملکوں سمیت امریکہ کے اندر بھی بہت بڑے بڑے جلسے‘ جلوس اور دھرنے ہوئے لیکن کسی نے یہ اعلان نہیں کیا کہ ہم وائٹ ہائوس کے سامنے سے اس وقت اٹھیں گے جب نیا امریکہ بن جائے گا۔ 
گزشتہ انتخابات میں دھاندلی تو اظہرمن الشمس ہے اور جن لوگوں نے چالاکی کا مظاہرہ کیا انہوں نے میدان مار لیا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ تحریک انصاف نئی جماعت تھی، اسے انتخابات کا تجربہ نہیں تھا ،لہٰذا تجربہ کار لوگ بظاہر آگے نکل گئے۔ اب ایک سال بعد بجائے اس کے کہ ڈھنڈورا پیٹا جائے ، تحریک انصاف کا فرض یہ بنتا ہے کہ حکومت سے انتخابی اصلاحات کروائے تاکہ آئندہ ایسی دھاندلی نہ ہو سکے۔ ہمارے ملک میں صورتحال ایسی ہے کہ ابھی کئی انتخابات ایسے ہو سکتے ہیں جن میں پہلے سے مختلف قسم کی دھاندلی ہو گی۔ مثال کے طور پر اگر مقناطیسی سیاہی بھی درست فراہم ہو جاتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا نظام وضع ہو جاتا ہے کہ بوگس ووٹ ڈالنا محال ہو جائے تو ہمارے ہاں ایسے ایسے جادوگر موجود ہیںجو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دھاندلی کے راستے ڈھونڈ لیں گے۔ جب ہم اپنی قوم کی بے ایمانی کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح واقف ہیں تو کیوں ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہر سال الیکشن ہونے لگیں ۔
فرض کریں عمران خان کی تحریک کامیاب ہو جاتی ہے اور نئے انتخابات ہوتے ہیں اور تحریک انصاف ان میں کامیابی حاصل کر کے حکومت بنا لیتی ہے، عمران خان وزیراعظم بن جاتے ہیںتو سوچیں وہ کتنی دیر وزیراعظم رہ سکیں گے۔ کیا مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں اس قابل نہ ہوں گی کہ اپنے کارکنوں کی مدد سے اسلام آباد میں دھرنا دیں اور حکومت سے وہی باتیں منوا لیں جن کو منوانے کی آج عمران خان تمنا کر رہے ہیں۔ 
ہمارے ہاں جمہوریت کا پودا بالکل نازک ہے۔ اس کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں مضبوط ادارے بنانے ہیں۔ اب تو ہمارے پاس ایک ہی مضبوط ادارہ ہے جو ہماری مسلح افواج کا ہے۔ ہمیں پولیس کا ادارہ مضبوط کرنا ہے۔ بیوروکریسی کو ایک مضبوط ادارہ بنانا ہے۔ احتساب کا مضبوط ادارہ بنانا ہے۔ الیکشن کمشن ایسا بنانا ہے جو غیر متنازع ہو۔ عدلیہ کو ایسی شکل دینی ہے کہ نچلی سطح پر لوگوں کو جلد انصاف مل سکے۔کئی دیگر شعبوں میں بھی بہت کام ہونا ہے۔ 
مسلم لیگ ن کی حکومت اب تک تو ویسے ہی لنگڑی لُولی ہے۔ سیاسی دبائو کے نتیجے میں محض انتشار ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ اسی حکومت کو مجبور کرنا ہوگا کہ یہ اداروں کو مضبوط کرے۔ ان پر اپنی گرفت ڈھیلی کر کے خودمختاری دے۔ حزب اختلاف کا یہی کام ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ کردار تحریک انصاف بہتر طور پر ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے پچھلے دور میں جو گل کھلا ئے ان کی وجہ سے ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔ لہٰذا اپوزیشن کی ذمہ داری تحریک انصاف کے حصے میں آتی ہے،مگر اس میں تاحال اس ذمہ داری کا احساس دکھائی نہیں دے رہا۔ 
تحریک انصاف کی قیادت اس وقت جس کیفیت میں ہے‘ اس سے توقع نہیں کہ وہ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے اور احتجاج کو محض اس مطالبے تک محدود کر دے کہ آئندہ دھاندلی نہ ہو اور انتخابات آزادانہ اور شفاف کرائے جانے کی ضمانت فراہم ہو جائے، حالانکہ وقت کا تقاضا یہی ہے، وگرنہ دھرنوں اور لانگ مارچ سے حکومت بدلنے اور نئے انتخابات کی تاریخ حاصل کرنے کی روایت ہمیں بہت مہنگی پڑے گی۔ دنیا میں جن ملکوں میں بھی جمہوریت مضبوط ہے ،وہاں احتجاج سے حکومت نہیں بدلتی بلکہ اس نظام کے تحت بدلتی ہے جو پوری قوم نے سوچ سمجھ کر بنایا ہوتا ہے اور اس نظام کو کوئی نہیں چھیڑتا۔ 
گزشتہ دور میں میاں نوازشریف نے عدلیہ بحالی کے لیے احتجاجی لانگ مارچ کیا تھا۔ اسی طرح عمران خان کو بھی ایک بڑے مطالبے کے لیے احتجاج کرنا چاہیے۔ مڈٹرم انتخاب کا مطالبہ مناسب نہیں ۔ یہ جمہوریت کے تسلسل کو مجروح کرسکتا ہے۔ پھر ہم جمہوریت کے خواب ہی دیکھتے رہیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کو چاہیے کہ کچھ حلقوں میں پھر سے انتخاب اور الیکشن کمشن کی تشکیل نو جیسے مطالبات منوا کر مؤثر اپوزیشن کا کردار ادا کرے اور خیبر پختونخوا میں ایسی صاف ستھری حکومت کی مثال قائم کرے کہ اگلے انتخابات میں کامیابی کا امکان بڑھ جائے۔ لیکن اگر اس جماعت نے ایسی روایت ڈالنے کی کوشش کی کہ تخت یا تختہ تو پھر آئندہ یہی کچھ ہوتا رہے گا ۔ ہر بڑی جماعت دھرنا دے سکتی ہے۔ 
جہاں تک علامہ طاہرالقادری کی مہم کا تعلق ہے تو وہ تنہا جتنا مرضی احتجاج کر لیں ان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں البتہ ہم یہ ضرور سنتے رہیں گے کہ طاہرالقادری کسی کے اشارے پر ایسا کر رہے ہیں۔ ایسی باتیں سننا اب ہمارا مقدر بن چکا ہے۔ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ محض شور مچایا جاتا ہے کہ سازش ہو رہی ہے اور سازش کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہر کوئی کوشش کرنے لگتا ہے کہ وہ خود بھی اس سازش کا حصہ بن کر کوئی فائدہ حاصل کر لے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں