ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کی خبر ریڈیو پاکستان سے 4اپریل 1979ء کو صبح دس بجے کے بلٹن میں نشر ہوئی۔ اس سے پہلے تمام ریڈیو سٹیشنوں کو حکم مل چکا تھا کہ جونہی یہ خبر نشر ہو کوئی ایسا پروگرام یا موسیقی نشر نہ کی جائے جس سے احساس ہو کہ خوشی منائی جارہی ہے اور نہ ہی ایسی پروگرامنگ ہوکہ معلوم ہوکہ سوگ منایا جارہا ہے۔ لاہور ریڈیو سٹیشن کو بھی صبح ہی بذریعہ ٹیلی فون یہ حکم مل چکا تھا۔ ایسے موقعوں پر ریڈیو میں عام طور پر کلام اقبال کا سہارا لیا جاتا ہے لہٰذا ہمارے ایک افسر ہوتے تھے عبدالباسط خان۔ انہوں نے کلام اقبال کی ٹیپ میں جس آئٹم کو منتخب کیا وہ اس مصرع سے شروع ہوتا ہے۔ ع
تجھے یاد کیا نہیں ہے میرے دل کا وہ زمانہ
جس وقت دس بجے والا وہ نیوز بلٹن ختم ہوا تو انائونسر نے اعلان کیا کہ کلام اقبال پیش خدمت ہے جس کے بعد وہ آئٹم شروع ہوگیا جو منتخب کیاگیا تھا۔
یہاں میں ایک بات یاد دلادوں کہ آج کل تو بھٹو صاحب کو شہید بھٹو ان کے پرانے نظریاتی دشمن بھی کہتے ہیں مگر 1979ء میں ضیا الحق کی حکومت میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اشارتاً بھی بھٹو صاحب کوشہید کہہ دے۔ تمام سرکاری میڈیا اس معاملے میں محتاط تھا اور نجی چینل تو تھے ہی نہیں۔
اب کلام اقبال کا جو آئٹم ہمارے باسط خان صاحب نے منتخب کیا تھا اس میں آگے ایک مقام پر مصرع آتا ہے۔ ع
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
جب ٹیپ اس مصرع پرپہنچی تو ہمارے باسط بھائی کی تو چیخ نکل گئی، '' ارے مارے گئے ‘‘ ۔یہ مصرع واضح طور پر اشارہ کررہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی شہادت ہے جس کا صلہ تب و تاب جاودانہ ہے۔ جب سٹیشن ڈائریکٹر کو معلوم ہوا ، ان کی بھی حالت خراب ہوگئی کہ ابھی ہیڈ کوارٹر سے انکوائری کا حکم آسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ براہ راست ہی معطل کرنے کا حکم جاری ہوجائے۔آج کل یہ بات معمولی بھی لگتی ہے اور مزاحیہ بھی لیکن ضیا دور میں یہ اتنی بڑی غلطی تھی جس کی سزا معطلی کیا نوکری سے نکالا جانا بھی ہوسکتی تھی۔بہرحال اس واقعے کے بعد سٹیشن پر سناٹا سا رہا۔ لیکن خوش قسمتی سے مارشل لا حکام اس سے غافل رہے۔ دو تین دن بعد یہ بات کسی طور ہیڈ کوارٹر تک پہنچی تو وہاں بھی یہ سوچ کر معاملہ دبا دیاگیا کہ جب وزارت اطلاعات خاموش ہے تو بہتر ہے کوئی ایکشن نہ لیاجائے۔
ریڈیو پر حکومت کا شکنجہ اگرچہ ضیا الحق کے زمانے میں کافی سخت تھا مگر بھٹو صاحب کے دور حکومت میں بھی صورتحال کوئی خاص بہتر نہ تھی۔ اس وقت بھی اگر پروگرام پیپلزپارٹی کی پالیسی کے خلاف نشر ہوجائے تو سخت ایکشن ہوتا تھا۔ ریڈیو پروگراموں میں اگر کوئی معصوم سی غلطی ہو جائے تو بھٹو دور میں بھی انکوائری آرڈر آجاتا تھا۔
بھٹو صاحب کے زمانے میں جب سعودی عرب کے شاہ فیصل کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو ریڈیو کو بھی حکم ملا کہ پروگراموں میں خوشی کا تاثر بالکل نہیں ملنا چاہیے، سوگ کا تاثر ملنا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کی سربراہوں کی لاہور میں ہونے والی کانفرنس کے بعد سے شاہ فیصل کے ساتھ بھٹو صاحب بہت قربت محسوس کرتے تھے۔ سرکاری سوگ کا بھی اعلان ہوا تھا۔ اس ماحول میں لاہور ریڈیو سے صبح کے وقت ایک پنجابی کا پروگرام ہوتا تھا جس میں ہلکی پھلکی گفتگو اور پنجابی گیت نشر ہوتے تھے۔ سوگ کی وجہ سے اس پروگرام کی صورت یہ ہوگئی کہ ہلکی پھلکی گفتگو کی جگہ شاہ فیصل کی شہادت اور پاکستان دوستی کا ذکر ہوتا اور پنجابی گیتوں کے بجائے صوفیانہ کلام نشر ہوتا۔یہ پروگرام شروع ہوا اور میزبان نے پنجابی زبان میں شاہ فیصل کی شہادت کاذکر کرنے کے بعد انجینئر کو اشارہ کیا کہ وہ اب صوفیانہ کلام کا ٹیپ چلادے ۔ جب ٹیپ شروع ہوا تو ہمارے لوک سنگر شوکت علی کی پر جوش آواز سنائی دی۔ دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناوی مرجانا۔ اب آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ سننے والے پر کیا تاثر قائم ہوا ہوگا، یعنی شاہ فیصل کی شہادت کا ذکر اور پھر میاں محمد بخش کی سیف الملوک کا یہ مصرع جس کا مفہوم واضح ہے کہ دشمن مرجائے تو خوشی نہیں کرنی چاہیے جو سجن دوست ہیں انہوں نے بھی تو مرجانا ہے۔
بس جناب جونہی یہ بات پھیلی تو ریڈیو سٹیشن پر وہی ماحول ہوگیا جو بھٹو صاحب کی پھانسی پر '' صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ ‘‘ نشر ہونے کے بعد ہوا تھا۔ اس مرتبہ بڑی انکوائری وغیرہ ہوئی کہ جان بوجھ کر تو ایسا نہیں کیاگیا۔ آخر کار یہی نتیجہ نکالا گیا کہ یہ ایک معصوم سی غلطی تھی۔ ہاں البتہ اس پروگرام کے پروڈیوسر کو ان کے ساتھی عرصہ دراز تک یہ واقعہ یاد دلاکر چھیڑتے رہے۔
ریڈیو میںبعض اوقات ایسا بھی ہوجاتا تھا کہ کوئی بات نشر ہی نہیں ہوئی ہوتی تھی مگر افواہ اڑا دی جاتی تھی کہ ایسا کچھ نشر ہوگیا ہے۔ جب اس قسم کی بات زیادہ پھیل جائے تو پھر کھوج لگایا جاتا تھا کہ آیا یہ بات افواہ ہے یا حقیقت ۔ ہمارے ایک ساتھی ہوتے تھے عنایت انجم۔زبردست ڈرامہ آرٹسٹ تھے۔ان کو دیہاتی بھائیوں کے پروگرام کا میزبان بننے کا بہت شوق تھا اور اس کے لیے مسلسل کوشاں رہتے تھے ۔ایک مرتبہ صورتحال ایسی ہوگئی کہ ریگولر میزبان بیمار ہوگئے ،لہٰذا عنایت انجم کو چانس مل گیا۔ ریڈیو لاہور پر ایک دو اور فنکار جو دیہاتی بھائیوں کے اس پروگرام 'سوہنی دھرتی ‘کے میزبان بننے میں دلچسپی رکھتے تھے انہوں نے یہ بات اڑا دی کہ عنایت انجم نے تلاش گمشدہ کے اعلانات کے دوران جب یہ کہا جارہا تھا کہ ایک سات سالہ لڑکا گونگا بہرہ ہے گم ہوگیاہے، اس کو آنکھوں سے بھی کم نظر آتا ہے۔ یہ جملہ کس دیا کہ لواحقین کو شکر کرنا چاہیے کہ گم ہوگیا ہے۔
بس جناب یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ بغیر تحقیق ہر کمرے میں عنایت انجم سے منسوب یہ تبصرہ زیر بحث رہا۔ عنایت انجم بیچارہ قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلا رہا تھا مگر لوگ اس کے منہ پر تو اس کی بات مان جاتے تھے مگر بعدازاں شبے کا اظہار ہی کرتے تھے۔ آخر کار یہ بات جب سٹیشن ڈائریکٹر تک پہنچی تو انہوں نے باقاعدہ انکوائری کروائی۔ جس روز عنایت انجم نے پروگرام کی میزبانی کی تھی اس روز کی دیہاتی بھائیوں کے پروگرام کی ریکارڈنگ سنی گئی اور پھر کہیں جاکر سرکاری طور پر اس افواہ کی تردید ہوئی۔ بدقسمتی دیکھیے کہ اس افواہ کی وجہ سے عنایت انجم کو دوبارہ کبھی سوہنی دھرتی کی میزبانی نہ مل سکی۔ یہ ہلکی سی جھلک ہے اس ماحول کی جس میں ماضی کی حکومتوں نے ریڈیو جیسے عوامی میڈیم کو رکھا ہوا تھا۔